Thursday, 16 January 2025
  1.  Home
  2. Haider Javed Syed
  3. Khuda Lagti Kahoon, Main Mayoos Nahi Hoon

Khuda Lagti Kahoon, Main Mayoos Nahi Hoon

خدا لگتی کہوں، میں مایوس نہیں ہوں

گزشہ کالم "کمان توڑ دی میں نے" کی اشاعت پر بہت سارے دوست و احباب اور قارین نے دعائوں سے سرفراز کرتے ہوئے امید کا دامن نہ چھوڑنے کا محبت بھرا مشورہ دیا۔ معروف دانشور و صحافی اور ہمارے برادر عزیز محمد عامر حسینی نے اس کالم پر جو سوشل میڈیا پر ہم نے اپنے فیس بک اکائونٹ پر شیئر کیا تھا لکھا۔۔

"شاہ جی، دکھوں کی گھٹڑی یوں کھول کر سامنے رکھ دی ہے کہ سوچتا ہوں میں اس میں کس چیز پر نوحہ لکھوں اور کس پر مرثیہ اور بوجھ جو دل پر دھرا ہے اسے کیسے سہن کروں۔ زندگی کی شام میں جب آپ اختتام کی طرف اشارہ کرتے ہیں نا تو میں کانپ اٹھتا ہوں۔ آپ نے ہمیں اپنا اسیر بنایا ہے اب جب اس اسیر عشق کو اپنی رخصتی کا موہوم اشارہ بھی دیتے ہو تو کلیجہ خون ہوتا ہے۔ میں حال کو ماضی میں بدلنے کا سوچ کر تڑپ اٹھتا ہوں حالانکہ جانتا ہوں کہ ہر شئے فنا ہونے والی ہے۔ دیکھ لیں رات کے اس پہر اٹھ کر فرش عزا بچھائے بیٹھا ہوں"۔

ہم نے جواباً عرض کیا "جیتے رہو بہت دعائیں۔

" زندگی کی سچائی یہی ہے، سانسوں کی ریت مٹھی سے پھسل رہی ہے تمامی قریب سے قریب تر آتی جارہی ہے بس ایک ہی حسرت ہے میری تدفین ملتان میں ہو"۔

گزشتہ شب چھوٹی ہمشیرہ سیدہ ریحانہ بخاری ہماری صاحبزادی سے ویڈیو کال پر بات کررہی تھیں اچانک کہنے لگیں تمہارے بابا کدھر ہیں؟ فاطمہ نے فون میری طرف بڑھادیا۔ بہن کہنے لگیں، بھائی اس طرح کے کالم نہ لکھا کرو بہنوں کے دل زخمی ہوتے ہیں اس نے چند باتیں اور بھی کہیں پوری توجہ اور محبت سے اس کی بات سن کر فون واپس فاطمہ کی طرف بڑھا دیا۔

ان سموں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو یادوں کے ایک سیلاب کا سامنا ہے۔ ہر چیز اتھل پتھل ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔ چند لمحے قبل ایک عزیز نے فون پر شکوہ کیا، شاہ جی، آپ نے آج پندرہ جنوری کو شہید سید محسن نقوی کے یوم شہادت کی مناسبت سے کچھ نہیں لکھا۔

واقعتاً یہ سہو ہوا مجھ سے اپنے مربی و محسن اور برادر بزرگ کی طرح محبوب شہید سید محسن نقوی کے یوم شہادت پر حرف جوڑنے کی ضرورت تھی۔ ان کے دو اشعار تلاش کرکے فیس بک وال پر پوسٹ کردیئے۔ سرِ تسلیم خم کہ حق ادا نہیں ہوا۔

فی الوقت ہم "کمان توڑدی میں نے" سے آگے کی بات کرتے ہیں۔ برادر عزیز محمد عامر حسینی اور ہمشیرہ محترمہ کی ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ بجا طور پر درست ہے۔ ایک وضاحت البتہ ضروری ہے کہ ہم مایوس شخص ہرگز نہیں جو اور جیسے ہیں اپنی محنت کی کمائی کا انعام ہے۔

ورثہ وعظ والی سیدہ عاشو بی بیؒ کا صاحبزادہ ہونا اور نسب ہے جو والد بزرگوار کی جانب سے ملا ہم نے 9 برس کی عمر سے آج تک جو سوچا جو بہتر سمجھا ہمیشہ وہی کیا۔ اب جوکچھ بھی اور جتنا بھی ہے سب ہمارا اپنا کمایا بنایا ہے۔

ہاں یہ شکوہ ضرور ہے اور رہے گا کہ اس ملک کے چند میڈیا ہائوسز کی طرح بہت سارے لوگ اس تحریر نویس سے ایک خاص طرح کا تعصب برتتے ہیں۔ اکثر یہ سوال خود سے دریافت کرتا ہوں کہ جو لوگ شیعہ یا جیالا ہونے کی پھبتی کستے ہیں کیا وہ خود مسلکی سیاسی و شخصی محبت اور نفرت سے آزاد ہیں؟

جواب ہمیں معلوم ہے۔ مثلاً پرانی باتوں اور طعنوں کو اٹھا رکھئیے ابھی حال ہی میں پارا چنار کی ابتر صورتحال پر لکھے گئے دو کالموں اور اس سے قبل شام میں در آئی تبدیلی پر لکھے گئے کالموں سے زمینی حقائق کو سمجھے بغیر طعنہ دیا گیا کہ "شیعہ ہونا تم یہی کرسکتے اور لکھ سکتے ہو"۔

کالعدم انجمن سپاہ صحابہ کے رابطہ کار کا کہنا تھا کہ پارا چنار کے معاملے میں آپ یکطرفہ بات کرتے ہیں۔ عرض کیا، آپ دوسری طرف کی بات کے ساتھ ہماری یکطرفہ بات میں موجود سوالات کے جواب بھجوا دیجئے من و عن اشاعت کا وعدہ رہا۔ یہ سطور لکھے جانے کے وقت تک ان کا جواب دعویٰ موصول نہیں ہوا۔

ایک انسانی سماج میں بسنے والے کا موسموں حالات، فہم و فکر وغیرہ کا اثر قبول نہ کرنا صریحاً غلط ہوگا۔ ہم غیر جانبداری پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ ہاں آجکل تو غیرجانبدار ایک طبقہ اور اس کے پیشوا کی نگاہ میں جانور ہوتا ہے۔

عمومی صورت اور عام فہم اب یہ ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں تو "جانبدار ہیں"۔ اس اصول پر کیا جو ان کے ساتھ ہیں وہ جانبدار نہیں؟"

معاف کیجئے گا بات دوسری جانب نکل گئی لیکن یہ بھی ضروری تھا۔ روزمرہ کی بنیاد پر ملے طعنوں، کسی گئی پھبتیوں وغیرہ و غیرہ پر ردعمل فطری امر ہے۔ تلخ حقیقت یہی ہے کہ یہاں اپنا کج چھپانے کے لئے دوسروں پر فتوئوں کی چاندماری ہوتی ہے۔ نصف صدی سے ہم یہ چاند ماری بھگت رہے ہیں۔

ہم نے جب قلم مزدوری شروع کی تھی تو اساتذہ کہتے تھے قلم مزدور کا فرض یہ ہے کہ سماج کے کچلے ہوئے طبقات کے مسائل کو اجاگر کرے۔ حالاتِ حاضرہ پر اپنی رائے لکھتے وقت تصویر کے وہ دونوں رخ بھی پڑھنے والوں کے سامنے رکھے جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

اپنی رائے میں توازن کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے۔ قلم مزدوروں کے کوچے میں ذاتی فوائد کے حصول کی سوچ بہت بعد میں آئی۔

چند دن قبل پنجاب کے محکمہ اطلاعات کے ایک بڑے افسر (یہ ہماری جوانی کے زمانے کے دلنواز دوست ہیں) نے دریافت کیا شاہ جی! پلاٹ کے لئے درخواست کیوں جمع نہیں کرائی؟ عرض کیا ہم اسے درست نہیں سمجھتے اور نہ سمجھنے کی کئی وجوہات ہیں ابھی فقط یہی ہے کہ ایک ہی بیٹی ہے جو امریکہ میں محنت مزدوری کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل رہی ہے۔ ایک باپ کی حیثیت سے اندازہ ہے کہ صاحبزادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہیں قیام کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہم دونوں (میاں بیوی) تمامی کی دہلیز پر کھڑے ہیں اس عمر میں وہ فائدہ کیوں حاصل کیا جائے جو جوانی کے برسوں میں نہیں حاصل کیا اور تب بھی جب اپریل 1989ء میں اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے سیاہ دور کا عذاب بھگتنے والے اپنی جماعت کے کارکنوں کے علاوہ دوسرے جمہوریت پسندوں کو اسلام آباد میں پلاٹ دیئے تھے۔

تب ہم نے ان (محترمہ بینظیر بھٹو) کی خدمت میں عرض کیا، پلاٹ لینے سے معذرت قبول کیجئے کہ فرد اور ریاست کی زکوٰۃ و خیرات لینے پر جی آمادہ نہیں ہوتا۔ جنرل ضیاء کے عہد ستم میں ہم سے جو بن پایا آزادی اظہار اور جمہوریت کے لئے کیا اور وہ سب کسی صلے کے لئے نہیں تھا۔

دوست نے خاصی جھاڑ پلائی لیکن صد شکر کہ ہم نے پلاٹ کے لئے درخواست نہیں دی۔

ماضی میں ایک گھر بنایا تھا اس کی تعمیر میں بہنوں اور چند دوستوں نے تعاون کیا تھا لیکن بدقسمتی سے وہ مکان ایک ضمانت کا نتیجہ بھگتنے سے محفوظ رہنے کے لئے فروخت کرنا پڑا۔ تب بھی صرف ایک بات نے دل چیر کے رکھ دیا۔ جن صاحب کے معاملے میں ہم ضامن تھے ان کی اہلیہ اور بہن نے کہا "آج بی بی جی (ہماری والدہ محترمہ) زندہ ہوتیں تو ہمارے ساتھ یہ نہ ہوتا"۔

سچ یہ ہے کہ ہم صرف ضامن تھے اور اعتماد میں مار کھاگئے۔ منہ کالا ہونے سے محفوظ رہنے کے لئے 20لاکھ کا مکان 12 لاکھ میں فروخت کردیا۔ اس گھر کی فروخت پر دکھ ضرور ہے خوشی یہ ہے کہ ہماری وجہ سے والدہ محترمہ مرحومہ کی شخصیت و تربیت پر سوال نہیں اٹھا۔

نصف صدی کی قلم مزدوری میں ادارہ جاتی ترقیوں کی بہار دیکھی صحافتی دھڑے بندیوں اور بہت سار معاملات سے دامن بچاکر رکھنے والے قلم مزدور کے لئے یہ اعزاز کیا کم ہے کہ متعدد اخبارات میں ایڈیٹر کے منصب پر بھی فرائض ادا کئے۔ ماضی میں دو معروف میڈیا ہائوسز میں ملازمت آخری لمحوں میں نہ مل پائی۔

وجہ اب کیا لکھوں ان ملازمتوں کے آڑے آنے والے دو صاحبان میں سے ایک وفات پاچکے ان کا معاملہ اللہ جانے، دوسرے آج بھی اسی بڑے ادارے میں ہیں اور منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے جمہوریت، سماجی مساوات اور برداشت کے چورن فروخت کرتے ہیں۔ عشق انہیں نوازشریف سے ہے اور متاثر وہ بلاول بھٹو سے ہیں۔

خیر چھوڑیئے ہم کیا باتیں لے بیٹھے۔ زندگی کی تلخیوں، مشکلات اور مالی معاملات کے عدم توازن سے نمٹنے میں ہماری اہلیہ محترمہ نے بھرپور ساتھ دیا اپنے عزیز جاں دوستوں کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے ہر حال میں ہمارا حال جانا اور ساتھ دیا۔ نصف صدی کی قلم مزدوری کے ماہ و سال میں کیا کیا نہیں دیکھا بھگتا۔

ایک بات بہت دیر سے سمجھ آئی کہ "نظریہ عمل کرنے کے لئے ہوتا ہے اوڑھنے کے لئے ہرگز نہیں"۔ نظریات پر عمل اور خانگی ذمہ داریوں میں توازن قائم رکھنا ازبس ضروری ہے۔ قلم مزدوری کو حصول رزق کا ذریعہ بنانے والوں پر لازم ہے کہ گھریلو آسودگی کے لئے اس سے سوا بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہیں تاکہ اولاد کی آنکھوں میں موجود سوالات حسرتوں اور محرومیوں کی شکل نہ اپناسکیں۔

پچھلی شب میں نے اپنی ہمشیرہ سے کہا "میں خوش تو بہت ہوں کہ فاطمہ محنت مزدوری کرکے تعلیم حاصل کررہی ہے مگر یہ ملال بھی ہے کہ اس کے لئے یہ سب سہولتیں باپ کو فراہم کرنا چاہئیں تھیں"۔

اس (بہن) نے مجھے محبت بھرے انداز میں کہا بھائی تم خود بھی تو 9 برس کی عمر سے محنت مزدوری کررہے ہو تمہاری بیٹی تمہارے نقش قدم پر چل رہی ہے ہم تو بہت خوش ہیں تم پریشان نہ ہوا کرو۔

جی بہتر۔ کہنے کو تو بہن سے کہہ دیا مگر تادم تحریر کیا ہر وقت اپنے حالات پہ کڑھتا رہتا ہوں۔

پیارے دوست اور برادر عزیز محمد عامر حسینی کی خدمت میں بار دیگر عرض ہے، "مایوس نہیں ہوں تمامی کی ابدی سچائی کے سامنے سرتسلیم خم ہے بس ایک حسرت ہے وہ یہ کہ سانسوں سے مٹھی خالی ہو تو تدفین ملتان میں ہوتاکہ رزق سے بندھی ہجرتوں کے مارے شخص کو قرار آجائے"۔

Check Also

Deen e Akbari

By Zubair Hafeez