Jadeed Inqilab
جدید انقلاب
قدیم تہذیبوں میں بیماریوں کی تشخیص کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے تھے۔ مثلاً قدیم مصری، ہندوستانی اور یونانی طب میں مریض کی نبض دیکھنا دیگر علامات اور جسم کی رنگت کا مشاہدہ معمول تھا۔ ماہر طبیب اور حکیم اپنے تجربات کی بنیاد پر مریض کی حالت کا اندازہ لگاتے تھے۔
طبعی ٹیسٹوں کی تاریخ ایک طویل اور دلچسپ سفر پر مشتمل ہے جس میں انسانوں نے مختلف بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے طریقے مختلف تجربات کے ذریعے دریافت کیے۔
قرون وسطی میں طب کی ترقی کی رفتار سست تھی، اس دور میں جراحی کے شعبے میں کچھ ترقی ہوئی۔ 15 ویں اور 16 ویں صدی کے دوران طب میں نئے تشخیصی طریقے متعارف ہوئے۔ اس دور میں جسمانی معائنہ اور جراحی کا استعمال زیادہ بڑھا۔ تاہم بیماریوں کی اصل وجوہات کا پتہ نہیں چل پایا تھا۔
17ویں اور 18 ویں صدی میں آلات کا استعمال اور کیمیاوی تجربات شروع ہوئے تھے۔ جس نے طبعی سائنس میں انقلاب برپا کیا۔ اس دور میں طب کی دنیا میں مائیکروسکوپ جیسے اہم آلات کا استعمال اور کیمیاوی تجزیہ شروع ہوا۔ جو بیماریوں کے مطالعے اور تجزیے کے لیے اہم ثابت ہوا۔
18ویں صدی کے آخر میں جرمن کیمیا دان "مارٹن شونبائن" نے یورین اور خون کے نمونوں میں کیمیائی تجزیہ کی بنیاد رکھی، جو کہ مختلف طبعی ٹیسٹوں کی ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہوا۔
19ویں صدی میں جدید طب میں اہم پیشرفت ہوئی۔ بیکٹیریا، وائرس کے بارے میں علم اور مائیکروسکوپ کی مزید ترقی میں اضافہ ہوا۔ رابرٹ کوچ اور لاؤس پاستور جیسے سائنسی ماہرین نے مختلف بیماریوں کے جراثیم کی شناخت کی، اسی دوران طبعی ٹیسٹوں کی بنیاد پر تشخیص کا عمل تیز ہوگیا جس سے بیماریوں کے ماخذ کو سمجھنے میں مدد ملی۔
20ویں صدی میں طبعی ٹیسٹوں میں بے شمار انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ پیشاب اور خون کے نمونوں کی جدید کیمیاوی تجزیہ، الٹراساؤنڈ اور ایکسرے جیسے جدید آلات نے بیماریوں کی جلد تشخیص میں مدد دی۔
خون کی تشخیص کے لیے مختلف ٹیسٹ متعارف ہوئے جیسے خون میں کولیسٹرول کی سطح، شوگر کی مقدار اور خون کے خلیات کی تعداد معلوم کرنے کے لیے مختلف ٹیسٹ۔
مختلف بیماریوں کے لیے مائیکروسکوپ کا استعمال بڑھا، خاص طور پر مائیکروبیالوجی میں۔
ایکسرے، سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی جیسے آلات نے جسم کے اندرونی حصوں کا معائنہ آسان بنایا۔
21ویں صدی میں طب نے جینیاتی اور مولیکیولر بیالوجی کے میدان میں اہم ترقی کی۔ جینیاتی ٹیسٹوں اور ڈی این اے کی تشخیص نے بیماریوں کے جینیاتی عوامل کو سمجھنے میں مدد فراہم کی۔ اس صدی میں کئی نئے اور پیچیدہ ٹیسٹ متعارف ہوئے۔ یہ ٹیسٹ جینیاتی مواد کی نقل کرنے کی ایک تکنیک ہے جس سے (Polymerase Chain Reaction) پی سی آر انفیکشنز اور جینیاتی بیماریاں تشخیص کی جاتی ہیں۔
انفرادی جینیاتی مواد کے تجزیے سے مختلف بیماریوں کا پتہ چلتا ہے اور علاج کے نئے طریقے متعارف ہوتے ہیں۔ ان ٹیکنالوجیز کی مدد سے جسم کی اندرونی حصوں کو بہتر طریقے سے دیکھا جا سکتا ہے۔
طبعی ٹیسٹوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں نے بیماریوں کی تشخیص کے نئے اور بہتر طریقے دریافت کیے ہیں۔ مستقبل میں مزید جدید ٹیسٹوں اور ٹیکنالوجیز کا اضافہ متوقع ہے جو انسانوں کی صحت کے تحفظ میں مزید مددگار ثابت ہوں گے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں بیماریوں کی شناخت اور علاج کے بارے میں زیادہ درست معلومات ملتی ہیں۔
طب کی دنیا میں تشخیص کے جدید طریقے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور ان میں ایک اہم اور موثر طریقہ "انزائم لنکڈ امیونوسوربنٹ ایسے" (ELISA) ہے۔ یہ ٹیسٹ ایک سائنسی جدت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا بھر میں بیماریوں کی بر وقت تشخیص، خاص طور پر انفیکشنز اور بیماریوں کے خطرات کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔ (ELISA) کا استعمال نا صرف صحت کے شعبے میں بلکہ مختلف سائنسی تحقیقات میں بھی بڑھ رہا ہے۔
اب پڑھنے والوں کے ذہنوں میں سوال ابھرے گا کہ اب تک تو کئی طرح کے جدید ٹیسٹ متعارف ہو چکے ہوں گے تو مصنفہ نے آخر لکھنے کے لیے یہی ٹیسٹ ہی کیوں چُنا۔ تو میں اس کی وجہ بتاتی چلوں کہ دراصل مجھے میرے ایم فل کے دوران اس موضوع پہ اس ٹیسٹ پہ تحقیق کا موقع ملا تھا جس پہ تحقیق کرنے کے بعد محترم استاد ڈاکٹر "صدام حسین" صاحب کے زیر نگرانی ہم جماعتوں کے روبرو پریزینٹشن کا موقع ملا تھا اور یہ تحقیق اتنی بہترین لگی کہ میں مجبور ہوگئی کہ اپنے قارئین کے ساتھ بھی یہ علم بانٹوں۔ اب استاد محترم کا ذکر آیا ہے تو یہ انکا اور باقی اساتذہ کرام کا حق بنتا ہے کہ کچھ فقرے انکے لیے بھی لکھ لیے جائیں۔ بعد ازاں موضوع کی طرف بڑھوں گی۔
بے شک ایک طالب علم استادوں کی عزت کیے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ اپنے ادارے کا اور ایم فل کا تجربہ بانٹوں تو ڈاکٹر شعیب عالم صاحب، ڈاکٹر صدام حسین صاحب، ڈاکٹر عاصف نواز صاحب اور ڈاکٹر عمران اللہ صاحب جیسے استادوں سے پڑھنے اور تحقیق میں رہنمائی کا موقع حاصل کیا۔ ہمیشہ دعا گو ہوں انکے لیے کیونکہ میری زندگی میں بہتری لانے کے ذمہ دار یہ سب بھی ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی موضوع کی طرف بڑھتی ہوں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ (ELISA) آخر کیا بلا ہے۔ تو اسکا جواب یہ ہے کہ "انزائم لنکڈ امیونو سوربنٹ ایسے" ایک خاص ٹیسٹ ایک طاقتور تجرباتی طریقہ ہے جو مخصوص پروٹین، اینٹی باڈیز یا اینٹی جینز کی شناخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ خون، پیشاب یا دیگر جسمانی نمونوں میں ان مادوں کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے جو بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ (ELISA) کے ذریعے ہم ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس، الرجیز اور کئی دیگر بیماریوں کی تشخیص کر سکتے ہیں۔
اس ٹیسٹ کا طریقہ کار کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے جن میں سے ہر مرحلہ مخصوص کیمیائی رد عمل پیدا کرتا ہے۔ (ELISA) میں سب سے پہلے ایک خصوصی پلیٹ تیار کی جاتی ہے جس پر پروب (اینٹی باڈی یا اینٹی جین) لگا ہوتا ہے۔
اس کے بعد ٹیسٹ کرنے والے نمونے جیسے خون یا دیگر مائع پلیٹ پر ڈالے جاتے ہیں۔ تمام غیر ضروری مادے دھوئے جاتے ہیں تاکہ صرف مطلوبہ مواد پلیٹ پر باقی رہے۔ اب انزائم سے جڑی ہوئی اینٹی باڈی ڈالی جاتی ہے جو ایک مخصوص رنگ پیدا کرتی ہے۔ رنگ کی تبدیلی سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مطلوبہ اینٹی باڈی یا اینٹی جین موجود ہے یا نہیں۔
اس ٹیسٹ کے فوائد اور اہمیت پر لکھنا بھی ضروری ہے۔ (ELISA) کے کئی فوائد ہیں جو اسے دیگر ٹیسٹوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ بہت حساس ہوتا ہے جو کم مقدار میں اینٹی باڈی یا اینٹی جین کا بھی پتہ لگا سکتا ہے۔ یہ ٹیسٹ نا صرف حساس ہوتا ہے بلکہ اس کے نتائج بھی انتہائی درست اور قابل بھروسہ ہوتے ہیں۔ اس کا استعمال بیماریوں کی جلد اور درست تشخیص میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اس کا استعمال صرف طبعی تشخیص تک محدود نہیں، بلکہ یہ ویکسین ڈویلپمنٹ، حیاتیاتی تحقیق اور مختلف سائنسی تجربات میں بھی کیا جاتا ہے۔
یہ ٹیسٹ مختلف اقسام میں آتا ہے، جن میں سب سے اہم ہیں۔۔
ڈائریکٹ ELISA میں مخصوص اینٹی جین یا اینٹی باڈی کی موجودگی کا براہ راست پتا چلتا ہے۔
انڈائریکٹ ELISA میں مختلف اینٹی باڈیوں کی موجودگی کی شناخت کی جاتی ہے۔
انٹیٹیٹیو ELISA اس بات کی مقدار کو ناپتا ہے کہ کس حد تک کسی خاص اینٹی باڈی یا اینٹی جین کا رد عمل ظاہر ہوا ہے۔
انزائم لنکڈ امیونوسوربنٹ ایسے کی ٹیکنالوجی میں مسلسل ترقی ہو رہی ہے۔ نئے انزائمز، تیز تر طریقے اور زیادہ حساس پلیٹ کی افادیت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ مستقبل میں یہ ٹیکنالوجی نہ صرف بیماریوں کی تشخیص میں بلکہ ELISA فارم سے عالمی صحت کے بحرانوں سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
پاکستان میں ایلیسا کا استعمال مختلف میڈیکل، فارماسیوٹیکل اور زراعتی شعبوں میں ہوتا ہے۔ ایلیسا کا استعمال مختلف بیماریوں جیسے ہیپاٹائٹس، ایڈز، ملیریا، ڈینگی اور دیگر انفیکشنز کی تشخیص میں کیا جاتا ہے۔ جانوروں کی بیماریوں کی تشخیص میں بھی اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ فصلوں اور پودوں میں بیماریوں کی شناخت اور کنٹرول کے لیے ایلیسا کا استعمال ہوتا ہے۔ صحت کے مختلف پروگرامز میں اس کی مدد سے وبائی امراض کی نگرانی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں ایلیسا کی قیمت مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہے جیسے کہ ٹیسٹ کی نوعیت، لیبارٹری کی سہولت اور ٹیکنالوجی۔ عموماً ایک ٹیسٹ کی قیمت 1000 سے 5000 روپے تک ہو سکتی ہے۔ تاہم یہ قیمت مختلف ہو سکتی ہے۔
ایلیسا کا معیشت پر اثر یہ ہے کہ اس کے ذریعے بیماریوں کی جلد تشخیص ممکن ہوتی ہے جس سے علاج کے اخراجات میں کمی آتی ہے اور بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ اس سے ملک کی مجموعی صحت کے نظام کی کاکردگی بہتر ہوتی ہے۔ اس کا استعمال فصلوں کی بیماریوں کی تشخیص میں کیا جاتا ہے جس سے زرعی پیداوار میں اضافہ اور زرعی معیشت میں استحکام آتا ہے۔
ایلیسا کی ٹیکنالوجی کی مقامی سطح پر تیاری اور استعمال سے پاکستان میں فارماسیوٹیکل اور بایوٹیکنالوجی صنعتوں کو ترقی مل رہی ہے۔
پاکستان میں ایلیسا کا استعمال نہ صرف صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ معیشت کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ذریعے بیماریوں کی جلد تشخیص اور کنٹرول ممکن ہوتا ہے۔ جس سے صحت کی دیکھ بھال کی لاگت کم ہوتی ہے اور مجموعی طور پر معیشت کی کاکردگی میں بہتری آتی ہے۔
ایلیسا ایک غیر معمولی ٹیسٹ ہے جو میڈیکل سائنس اور سائنسی تحقیق میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی مدد سے ہم بیماریوں کی فوری تشخیص اور اس سے متعلقہ علاج کے مراحل کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ نا صرف میڈیکل بلکہ سائنسی دنیا میں ایک انقلاب کی مانند ہے جو مستقبل میں صحت کی دیکھ بھال کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ اس ٹیسٹ کی حساسیت اور مخصوصیت نے اسے میڈیکل سائنس میں ایک لازمی آلہ بنا دیا ہے۔ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کے مزید جدید اور بہتر طریقے سامنے آسکتے ہیں جو صحت کی دیکھ بھال میں انقلاب لا سکتے ہیں۔