Jahez Bill, Nayi Peshraft
جہیز بل، نئی پیش رفت
پاکستان میں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں شادی سے محروم ہیں۔ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں جہیز ایک اہم مگر متنازع روایت کے طور پر موجود ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں "اسلام آباد دارالحکومتی علاقہ جہیز کی ممانعت کا بل 2025" پیش کیا گیا ہے جو اس روایت کو قانونی طور پر روکنے کی کوشش ہے۔ یہ وفاقی حکومت کی ایک خوش آئند پالیسی ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
جہیز کی روایت کا آغاز برصغیر کی قدیم تہذیبوں سے ہوا تھا جہاں بیٹیوں کو شادی کے وقت تحائف اور جائیداد دی جاتی تھی۔ یہ عمل بنیادی طور پر خواتین کو مالی تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ روایت خواتین کے استحصال کی شکل اختیار کر گئی۔ اسلامی تعلیمات میں جہیز کی کوئی واضح حمایت نہیں کی گئی ہے بلکہ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے شادی کو سادہ رکھنے کی تاکید کی ہے۔ اس کے باوجود برصغیر میں ہندو رسم و رواج اور سماجی دباؤ نے اس روایت کو مسلمانوں میں بھی رائج کر دیا ہے۔
پاکستان میں جہیز کا سماجی منظرنامہ خواتین کے امتیازی سلوک کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہیز نہ صرف ایک روایت کے طور پر رائج ہے بلکہ ایک سماجی مسئلہ بھی بن چکا ہے۔ غریب خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے قرضے لیتے ہوئے عمر بھر کے لیے مقروض ہو جاتے ہیں اور اکثر مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ شادی کو بھی بوجھ بنا دیتا ہے۔
اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل ایک مثبت پیش رفت اور خوش آئند فیصلہ ہے۔ شرمیلا فاروقی کی جانب سے پیش کردہ بل میں جہیز کو جرم قرار دیا گیا ہے جس میں پانچ سال قید اور اڑھائی لاکھ روپے جرمانہ یا جہیز کی مالیت کے برابر جرمانہ شامل ہے۔ اس بل میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دلہن کو والدین کی جانب سے دی گئی وراثت کو اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ دولہا اور دلہن کو دیے گئے تحائف بھی اس قانون کے دائرے میں نہیں آئیں گے۔
بل کے کئی فوائد ہیں جن میں سب سے پہلا فائدہ سماجی دباؤ میں کمی ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے غریب خاندانوں پر سے جہیز کا بوجھ کم ہوگا۔
خواتین کے حقوق کا تحفظ ہوگا۔ یہ قانون خواتین کو استحصال سے بچانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ شادی کے سادہ طریقے کو فروغ ملے گا۔ یہ قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی کو سادہ اور آسان بنانے میں مدد دے گا۔ معاشرتی رویوں میں تبدیلی آئے گی۔ اس قانون کے ذریعے معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن کچھ چیلنجز اور مسائل بھی ہیں جن میں سے سب سے بڑا مسئلہ عملدرآمد کا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں قوانین تو بنائے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہمیشہ ایک بڑا چیلنج رہتا ہے۔
دوسرا مسئلہ معاشرتی مزاحمت ہے۔ جہیز ایک گہری جڑوں والی روایت ہے، جسے ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس قانون کو غلط استعمال سے بچایا جائے۔ اس قانون کو ذاتی دشمنیوں اور جھوٹے الزامات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دیہی علاقوں میں اب بھی اس قانون سے آگاہی کی کمی ہے۔ دیہی علاقوں میں اس قانون کے بارے میں شعور اور آگاہی پیدا کرنا ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔
اس قانون سے اسلامی تعلیمات اور معاشرتی اصلاح کو فروغ ملے گا۔ اسلام نے شادی کو آسان اور سادہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات مبارکہ اس بات کی بہترین مثال ہے، جہاں حضرت فاطمہؓ کی شادی سادگی کے ساتھ ہوئی تھی۔ اگر معاشرہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرے تو جہیز جیسی رسومات خود بخود ختم ہو سکتی ہیں۔
اس قانون کے فوری نفاذ کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر سختی سے عمل کیا جائے۔۔
اس قانون کے بارے میں میڈیا پر عوامی آگاہی مہمات شروع کیے جائیں میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے اس قانون کے فوائد کے بارے میں شعور پیدا کیا جائے۔
قانون پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے تاکہ اس کی افادیت برقرار رہے۔ معاشرتی رویوں میں تبدیلی لائی جائے۔ علماء، اساتذہ اور سماجی رہنما اس روایت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
غریب خاندانوں کی مدد کی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غریب خاندانوں کی شادیوں کے لیے مالی امداد فراہم کرے۔
"اسلام آباد دارالحکومتی علاقہ جہیز کی ممانعت کا بل 2025" ایک اہم اور مثبت پیش رفت ہے جو معاشرتی رویوں میں تبدیلی لا سکتی ہے۔ تاہم اس قانون کے نفاذ کے لیے مضبوط سیاسی ارادے، عوامی شعور اور معاشرتی تعاون کی ضرورت ہوگی۔ اگر ہم اس روایت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ نہ صرف خواتین کے حقوق کے تحفظ بلکہ معاشرتی انصاف کی فراہمی میں بھی ایک اہم قدم ہوگا۔ امید ہے وفاقی حکومت کی طرح دیگر چاروں صوبے بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی اسمبلیاں بھی اس طرح کے قوانین کے لیے بلز اپنے اپنے متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کریں گے۔