Thursday, 16 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Deen e Akbari

Deen e Akbari

دین اکبری

ہندوستان کے ہزار سالہ مسلم دور اقتدار میں اگر جہاں بانی کے فن سے آشنا کوئی بادشاہ گزرا ہے تو وہ جلال الدین اکبر تھا۔ جلاوطنی میں پیدا ہوا، باپ شیر شاہ کے ہاتھوں اقتدار گنوا کر، امر کوٹ سے قندھار اور پھر ایران کے صفوی شاہ طہماسپ کے ہاں پناہ گزین ہوا، بچپن میں ہی یتیم ہوا، کمزور اقتدار کی نحیف باگ اکبر نامی بچے کے ہاتھ میں آئی، بچہ تو شطرنج کا مہرہ تھا اور شطرنج کا چالباز بیرم خان جیسا گھاگ کھلاڑی تھا۔

اکبر کو دیکھیے، بچہ کٹھ پتلی شہنشاہ، چٹا ان پڑھ، باز کبوتر اڑنے میں مست، بادشاہی سے زیادہ ہاتھی اور کتے لڑانے میں مصروف، نہ جانے کیا من میں آتی ہے، بیرم خان جیسے گھاگ کھلاڑی کو سائیڈ لائن کرکے حج پر بھیج دیتا ہے، مہرے سے شطرنج باز تک کا سفر طے کرتا ہے اور پھر پورا ہندوستان جلال اکبری سے تھرا اٹھتا ہے، جہاں سے باپ کو نکالا گیا تھا، جس تخت سے باپ کو اتارا گیا تھا، وہ سب واپس لے لیتا ہے۔

جب عسکری فراغت میسر آئی تو فکری مشاغل نے آ گھیرا۔ اکبر اور مجدد الف ثانی کی ریسلنگ کروانے والے مؤرخین نہ جانے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ دین اکبری یک دم وجود میں نہ آگیا تھا کہ اکبر حرم سے ایک دن باہر آیا ہو تو بغل میں صحیفہ اکبری تھاما ہو اور درباریوں سے کہے یہی دین الٰہی ہے، میں خلیفتہ اللہ ہوں۔ ایسا ہر گز نہیں تھا۔

کٹر سنی العقیدہ اکبر سے اکبر شاہی تک کی داستان دلچسپ ہے، کسی زمانے میں کٹر اتنا تھا کہ ایک دفعہ کشمیر کے سفیر میر یعقوب کو شیعہ ہونے کی بناء پر مشائخِ دربار سے فتویٰ لے کر قتل کروا دیا اور ایک وہ وقت بھی آیا کہ آگرہ کے قریب زرتشت کے احترام میں اسی اکبر نے آگ کا الاؤ روشن کرکے اسے سجدا کیا۔

ایک اکبر وہ تھا جو مشائخ کی جوتیاں سیدھی کرتا، خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کے پھیرے لگاتا، سلیم چشتی کی خانقاہ میں راتوں کو بیٹھ کر یا ہادی یاہادی کا ورد کرتا، صدر الصدور عبد النبی اور مخدوم الملک جیسے ملاؤں کے زیر اثر اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ انہی مشائخِ کو چن چن کر ٹھکانے لگایا، یا ہادی سے لا الہ الااللہ اکبر خلیفتہ اللہ کا سفر عبادت خانے سے شروع ہوا۔

وہ ان پڑھ ضرور تھا مگر دماغ مفکرانہ رکھتا تھا، عبادت خانہ نامی عمارت میں علماء و صوفیاء کو بلایا جاتا اور مذہب پر بحث و مباحثہ ہوتا، مولوی جب ایک جگہ جمع ہو جائیں تو انھیں چین نہیں آتا، بقول محمد حسین آزاد "علماء کی جماعت ایک عجیب الخلقت فرقہ ہے"۔

فرقے کو دیکھیے، بادشاہ سلامت مذھبی رسائل و مسائل سے مستفید ہونے آ رہے ہیں اور مشائخ اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ میری نشست اکبر کے قریب کیوں نہیں، ابتدا میں عبادت خانے پر صدر الصدور عبد النبی جو امام ابوحنیفہ کی اولاد میں سے تھے اور مخدوم الملک کا اثر رہا، جو خاصے کٹر تھے، سلطنت میں انھوں نے جڑیں مضبوط کی ہوئی تھیں، وہ اپنے مذہبی مخالفین کو مروانے میں ید طولی رکھتے تھے، عبادت خانہ میں دلچسپ بحثیں ہوتیں، علماء ایک دوسرے کو کافر کہتے اور دونوں کے پاس قرآن و حدیث کے دلائل ہوتے، حجیت حدیث پر بحث ہوتی، اکبر دھیرے دھیرے علما ہے رویے سے مایوس ہوتا گیا۔

اس وقت تک سلطنت کا نظام قاضیوں کے ہاتھ میں تھا، جو ایک قسم کی مذھبی مضبوط پاپائیت بن چکے تھے، قاضی زیادہ تر علماء ہی لگتے، اکبر تک بہت سی شکایات موصول ہو رہی تھیں کہ قاضی اور مشائخ کرپشن میں ملوث ہیں اور ان کے سرغنہ اکبر کے ہی مقرر کردہ صدر الصدور عبد النبی ہیں، صدر صاحب کرتے یہ تھے کہ جاگیرداروں سے رشوت لے کر انھیں وہ زمین الاٹ کر دیتے جو ان کی تھی ہی نہیں، اکبر نے مولویوں سے سینگ پھنسانے کا فیصلہ کر لیا۔

یہ پہلا اور فی الحال تک آخری ہندوستانی بادشاہ تھا جس نے مولویوں کے ساتھ کامیاب پنگا لیا، راشی قاضیوں کو عہدے سے ہٹا دیا، جاگیر داروں سے زمین واپس لی، ملاؤں کی معاش ہر ہاتھ ڈالنے والے اکبر پر کفر کا پہلا فتویٰ دینے کی ابتدا ملاں یزدی نے کی۔

"سسپنڈ" قاضی نے فتویٰ دیا کہ "بادشاہ بد مذہب ہوگیا ہے اس کے خلاف جہاد فرض ہے"۔

مگر اکبر نے سب سے پہلے اسی قاضی کو ٹھکانے لگایا اور گوالیار میں بلوا کر مروا دیا، یہ وہی گوالیار تھا جہاں مجدد الف ثانی بھی قید ہوئے تھے توہین صحابہ کے جرم میں، مجدد الف ثانی نے دعویٰ کر دیا تھا کہ میرا روحانی مقام صدیق اکبر سے بھی افضل ہے۔

خیر ادھر عبادت کا حال دیکھئے ناگور کے شیخ مبارک ناگوری جو مہدوی تحریک کے روح رواں ہیں، اکثر مورخین نے شیخ کو اہل تشیع کہا ہے، وہ بھی صدر الصدور کے ہاتھوں اکتائے ہوئے تھے، وہ عبادت خانے میں انٹری مارتے ہیں، اکبر مولویوں کی حرکات کی وجہ سے ان سے بیزار ہوگیا ہے، اب عبادت خانے میں ہندو پنڈت بھی آرہے ہیں، زرتشت کے پیروکار بھی آرہے ہیں، سورت میں آئے فرنگی تاجروں کے ساتھ آئے پادریوں کے ساتھ اکبر کو خاص دلچسپی تھی انھیں بھی عبادت خانے میں مدعو کیا جاتا، بین المذاھب مکالمے نے اکبر کے کٹر پن کو ختم کر دیا، ویسے بھی تیموری نسل خاصی سیکولر تھی۔

اکبر کا باپ ہمایوں شیعہ ہوگیا تھا، بابر بھی اتنا کٹر نہ تھا، تیمور کی لڑائی تو زیادہ تر اپنے ہم مذہبوں سے ہی تھی، وہ جس علاقے میں جاتا وہاں کے مزار پر ضرور حاضری دیتا اور صاحب مزار کی روح سے مدد مانگتا، چنگیز خان کا مذھب شامن ازم بھی خاصا سیکولر تھا، منگول جہاں جاتے وہاں کے مذھب کو نہیں چھیڑتے تھے، شاید یہ ہی تیموری سیکولر ازم مغلوں کو بھی ملا۔

مغل شروع سے ہی سمجھ گے تھے، ہندوستان پر حکومت ہندؤں کو ساتھ ملائے بغیر نہیں کی جاسکتی، ہندو مسلم اشتراک اس زمانے میں کسی بین المذاھب ہم آہنگی کا تقاضا کر رہا تھا، رامانند اور بھگت کبیر نے بھگتی تحریک کی شکل میں ہم آہنگی کی روحانی کوشش شروع کر دی تھی اور سیاسی کوشش اکبر نے کی۔

عبادت خانے کی بحثوں اور علماء کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے یہ بات تو واضح ہوگی تھی، صرف ایک دین خدا کا نہیں ہے سارے مذھب ہی خدا کے ہیں۔

بے انتہا طاقت، روایتی مشائخ کی سرکوبی سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا اس کا نتیجہ جو نکلا وہ دین الٰہی تھا۔

غازی خان بدخشنی نے بادشاہ کو سجدہ کرنا جائز قرار دیا۔

فیضی جیسے شاعر اور ابو الفضل جیسے انشاء پرداز بھی دین الٰہی کے ساتھ ہو لیے، اکبر نے یہ حکم نامہ جاری کرکے ان مجتہدین اور مشائخ کی روزی روٹی بند کر دی۔

"بادشاہ کے پاس بھی اجتہاد کا اختیار ہے"۔

اجتہاد کا حال دیکھیے، آگ کو سجدے ہو رہے ہیں، تناسخ دین الٰہی کا عقیدہ بنتا جا رہا ہے، بسم اللہ کی جگہ جلا جلا لہ پڑھا جا رہا ہے، مساجد میں اکبر کے نام کا خطبہ پڑھا جا رہا ہے۔

ابو الفضل دین الٰہی کے پہلے خلیفہ مقرر ہوتے ہیں، آئین اکبری میں ابوالفضل نے اخلاص چہار گانہ کا ذکر کیا ہے، ترک جان، مال مذھب، ناموس۔

طرح طرح کی عبادت کے طریقے رواج پانے لگے، خیر طریقہ عبادت کی ایجاد نئی تو نہ تھی، صوفیاء نے بھی خانقاہ میں لطائف، تصور شیخ، صحو و سکر، قطب، ابدالوں کی بیوروکریسی بھی تو ایجاد کی تھی، اکبر نے بھی کچھ نیا تو کیا نہیں تھا۔ بلکہ اس نے تو غیر مذہبوں کے ساتھ رواداری کی وہ مثال قائم کی جس کے باعث مغل سلطنت تین سو سال تک ہندوستان میں ٹکی رہی۔

ہندؤں میں شادی کی۔ کمال دیکھیے کہ ہندؤں کے احترام میں گائے کے ذبیحہ پر پاپندی لگوائی، ہندؤں کے ہاں کتے اور خنزیر مقدس مانے جاتے ہیں۔

عبد القادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں لکھا کہ محل میں سور پالے جانے لگے، بعض حد سے زیادہ روشن خیال بدایوانی پر متعصب ہونے کا الزام لگاتے ہیں مگر بدایونی کمال کا انشاء پرداز تھا، اس کی کتابوں کے بغیر عہد اکبری کا مطالعہ مکمل ہو ہی نہیں سکتا، یہاں تک محمد حسین آزاد جیسا اکبر کا مداح دربار اکبری لکھتا ہے تو صفحہ بہ صفحہ ملاں بدایونی سے استفادہ کرتا ہے، شاید سور بھی اکبر نے پالے ہوں، بزرگ بھی کم تو نہ تھے، ایک بابے کا ذکر سنا تھا کہ اسے لوگ "سوراں والی سرکار کہا کرتے" معلوم ہوا کہ حضرت کو سوروں سے بڑی الفت تھی، کہتے یہ راندہ ددرگاہِ جہاں جانور ہے۔

دین الہٰی اکبر شاہی میں بارہ سال سے کم عمر بچے کے ختنے کرانے پر پاپندی تھی، بارہ سال کے بعد بچہ جو چاہے وہ کرے۔ اکبر کے ذہن میں شاید یہ بات ہو کہ اگر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے تو وہ ختنے کے ساتھ ہی پیدا ہوتا۔ ہمارے کئی بزرگوں کے حوالے سے افواہ ہے کہ مرحوم مختون پیدا ہوئے تھے، فلاں بزرگ سجدے کی حالت میں انہدام دانی سے وارد ہوئے تھے، مگر اکبر کے عہد شاید خدائی جراحوں نے ہڑتال کر دی تھی اس لئے مختون بچے پیدا ہونا بند ہو گئے تھے۔

ستی پر پابندی لگ گی۔ جب پنڈتوں نے شور مچایا تو اکبر نے کہا۔ بمطابق ابو الفضل "اگر بیوہ کو جلانا ہے تو پھر رونڈے ہوئے مرد کو بھی جلایا جائے"۔

کزن میرج کو ناپسندیدہ کہا گیا، آپ یقین کریں گے کہ اس وقت یہ بحث ہوئی کہ ماموں، چچا کی اولاد سے شادی کرنے سے اولاد ضیغف پیدا ہوتی ہے۔ آذاد اس نکتے پر تضمین کرتے ہیں "انسان جس خون سے پیدا ہوتا ہے اس خون کی نسل میں وہ شوق کا جوش اور رغبت کا ولولہ نہیں ہوتا، دیکھو خچر گھوڑے سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے"۔

دربار میں ایک دفعہ غسل جنابت پر بحث ہوئی، علماء اس نتیجے پر پہنچے، وہ چیز جس سے اشرف المخلوقات کی بنیاد پڑے، جس سے اہل علم و فضل پیدا ہوتے ہیں اس سے انسان ناپاک کیسے ہو سکتا یے۔ جسم سے اور بھی کئی سیال نکلتے ہیں اس سے کچھ نہیں ہوتا تو اس سے کیوں غسل واجب ہوتا ہے۔ ملاں بدایونی نے اس بحث پر اعتراض کیا ہے اور اسے منتخب التواریخ میں "زبانیں کھلنے" سے تشبیہہ دی ہے، شاید ملاں نے فقہ حنفی نہیں پڑھی تھی، فقہاء خاصے بولڈ ہوتے ہیں، ولگر گفتگو ان کے ہاں نارمل ہوتی ہے۔

اب فقہ حنفی کا یہی مسلئہ دیکھ لیجیے۔ "کیا اپنا عضو اپنی مقعد میں دینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے"۔

احقر کا اس پر تبصرہ یہ ہے ہہ جو اپنے ہاتھوں خود اپنی عزت لوٹنے پر تلا ہو اسے بھلا وضو کی فکر کیونکر ہوگی۔

اکبر کا دین الہٰی آگے چلتا مگر جانشین کمزور پائے، اوپری کثر مجدد الف ثانی نے پوری کر دی، دارا شکوہ نے کوشش کی مگر ٹوپی سینے والے صاحب فتاویٰ عالمگیری نے اس کا قلع قمع کر دیا اور ہندو مسلم رواداری کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی سلطنت کا خاتمہ اٹھارہ سو ستاون میں اس حال میں ہوا کہ۔

نسل اکبری کا سپوت بہادر شاہ ظفر کا بیٹا جواں بخت اپنی ماں زینت بیگم جو جملہ کہتا ہے، وہ بہادر شاہ ظفر پر انگریز کی عدالت میں چلنے والے مقدمے میں درج ہے۔

"ہم بغاوت کریں گے، ایران سے مدد آئے گی، ہم ہندوؤں کو قتل کرکے خلافت قائم کر دیں گے"۔

Check Also

Deen e Akbari

By Zubair Hafeez