Thursday, 16 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Baap Ghar Mein Darakht Hote Hain

Baap Ghar Mein Darakht Hote Hain

باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں

1988 میں ایک چھوٹی سی ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں پہلی ملازمت ملی وہ بھی ڈیفنس میں۔ تنخواہ مبلغ ایک ہزار روپے طے ہوئی۔ کام وام ہمیں کیا آتا تھا۔ ٹرینی (اسے آپ ریل والی ٹرین کا ڈبہ سمجھ لیں جسے انجن گھسیٹتا ہے) کاپی رائٹر لگے تھے۔ بس ایک مرتبہ TJs (تنویر جمشید۔ ڈریس ڈیزائنر) کی میٹنگ میں گنتی پوری کرنے کے لئے بیٹھا دیئے گئے۔ پوری میٹنگ میں سہمے سہمے رہے۔ کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا۔

ایک ہفتے میں ملازمت سے فارغ!

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ ہم خوش تھے۔ محلے میں ہماری ملازمت کی بات پھیل چکی تھی۔ دوست یار اپنے لئے اور محلے کی عورتیں اپنے بچوں کے لئے ماڈلنگ کی درخواست کر چکی تھیں کہ ایک بھیانک خواب کی طرح ایک ہفتہ بعد ہمیں 250 روپے دیکر بہ یک جنبش قلم فارغ کردیا گیا اور "الزام" یہ لگایا گیا کہ یہ کام آپ کے بس کا نہیں۔ ہماری تو دنیا اندھیر ہوگی۔ خیر ایک دروازہ بند ہو تو کئی اور در کھلتے ہیں۔ ہم نے اپنی کریٹیو ڈائریکٹر مس یاسمین سے برخواستگی کی وجہ پوچھی تو بولیں:

تمہیں آئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے۔ کام آنے یا نہ آنے کا کیا سوال؟

بڑی دبنگ خاتون تھیں۔ نہ جانے اب کہاں ہیں لیکن میرے لئے وہ فرشتہ تھیں۔ کہنے لگیں گھبرانے کی کوئئی ضرورت نہیں تم ندیم فاروق پراچہ (مشہور لکھاری) سے کل جا کر مل لو۔ وہ اس وقت ایک ایجنسی میں ہوا کرتے تھے۔ میں اگلے روز وہاں پہنچا تو بولے یہاں تو کوئی جگہ خالی نہیں۔ تم ایسا کرو میرے والد فاروق پراچہ سے مل لو۔ ان کے پاس ویکینسی ہے۔ فاروق پراچہ صاحب اس وقت لال کوٹھی پر واقع ایک ایجنسی میں کریٹیو ہیڈ تھے۔ میں وہاں پہنچا۔ قصہ مختصر اللہ نے ان کے دل میں رحم ڈالا اور ملازمت مل گئی۔

فاروق پراچہ صاحب اور ہم!

فاروق پراچہ صاحب جنگ اخبار میں سیاسی آرٹیکل لکھا کرتے تھے جو ادارتی صفحہ میں شائع ہوتا تھا۔ ہم ان کے ماتحت تھے۔ جب کبھی انہیں مضمون لکھنا ہوتا تو لنچ پر ہمیں لے کر بیٹھ جاتے وہ بولتے اور ہم لکھتے جاتے۔ دو ایک روز میں وہ آرٹیکل جنگ میں چھپ جاتا۔ ایک دن آرٹیکل لکھوا رہے تھے۔ اختتام باقی تھا۔ نہ جانے دل میں کیا آیا بولے: اظہر میاں، باقی تم لکھ دو۔ ہم نے آخر کا شاید ایک پیراگراف ہی لکھ ہوگا۔ کچھ روز بعد وہ آرٹیکل ہمارے پیراگراف کے ساتھ شائع ہوگیا۔ ہم حیران کہ یہ کیا ہوگیا؟ (میں تا زندگی فاروق پراچہ صاحب کا ممنون رہوں گا کہ انہوں نے میری لکھنے کی صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کو "تاڑ" لیا تھا)

یہاں سے بھی دو ماہ میں چھٹی!

دو ماہ میں ہماری اس ایجنسی سے فراغت ہوگی۔ ہم دوبارہ پہنچ گئے ندیم فاروق پراچہ کے پاس۔ اس ایجنسی میں کام زیادہ نہ تھا۔ دن بھر ندیم اور میں ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے۔ ایجنسی میں جتنے بھی اخبارات آتے، چاٹ لیتا، سمجھیں یہاں آکر لاٹری کھل گی تھی۔ اب ہمارا آرٹیکل لکھنے کا حوصلہ بڑھ چکا تھا اور یہ طے تھا کہ ایک دن نام ضرور چھپے گا۔

روزنامہ جنگ لے کر پہنچے اپنا پہلا آرٹیکل!

اس زمانے میں (1988) کیمپوچیا کا مسئلہ بڑا زوروں پر تھا۔ ہم نے لفظوں کی پوری کاری گری کرتے ہوئے ایک آرٹیکل "آخر کیمپوچیا کا مسئلہ کب حل ہوگا؟" لکھ ڈالا اور ہمت کرکے جنگ اخبار کے دفتر پہنچ گئے۔ کوئی جان پہچان نہیں۔ گیٹ پر ہی چوکیدار نے روک لیا۔ کیا کام ہے؟ کس سے ملنا ہے؟ اب کوئی جاننے والا ہو تو بتائیں۔ بس یہی کہا بھائی ایک مضمون لکھا ہے، چھپوانے کے لئے دینے آیا ہوں۔ گو کہ سامنے مضمون ڈالنے کا بکس رکھا تھا لیکن چوکیدار نے وہاں تک نہ جانے دیا۔ میرے ہاتھ سے لیا اور خود ہی بکس میں ڈال دیا۔ ہم چلے آئے۔ سوچا ردی کی ٹوکری میں ہی جائے گا۔ ہمیں کون جانتا ہے۔ جنگ میں مضمون چھپنا کوئی کھیل ہے وہ بھی ہم جیسے نئے لکھنے والے کا۔ آرٹیکل دے آئے اور کسی کو بتایا بھی نہیں۔

آرٹیکل چھپ گیا اور والد کی خوشی دیدنی!

دو چار دن بعد میں صبح آفس جانے کے لئے کپڑوں پر استری کر رہا تھا۔ والد صاحب اخبار پڑھ رہے تھے۔ ایک دم کمرے سے ان کی آواز آئی: ادھر آو۔ میں نے کہا: ابو استری کر رہا ہوں۔ بولے: استری چھوڑو پہلے یہاں آو۔ میں کمرے میں گیا تو والد صاحب کے چہرے پر خوشی کے تاثرات تھے۔ جنگ اخبار کا ادارتی صفحہ مجھے دیتے ہوئے بولے: دیکھو تمہارا مضمون جنگ کے ادارتی صفحہ پر آیا ہے۔ میں نے دیکھا تو واقعی ریئس امروہوی کے قطعے کی نیچے اور جاوید جبار کے کالم کے ساتھ کیمپوچیا والا آرٹیکل میرے نام آظہر حسین عزمی کے ساتھ شائع ہوچکا تھا۔ میں تو خیر خوش تھا ہی لیکن میرے والد صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ کہنے لگے: تمہیں اندازہ ہے کہ جنگ میں مضمون کا وہ بھی ادارتی ضفحہ پر شائع ہونا کتنی بڑی بات ہے۔

مجھے آرٹیکل شائع کی بے انتہا خوشی تھی مگر اس سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ آج میرے والد صاحب میری وجہ سے بہت خوش تھے۔ شاید انہیں اپنے کسی خواب کی تعبیر ملنے کے آثار نظر آئے تھے۔ یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ میرے والد صاحب خاندان کے پہلے شاعر تھے۔ تخلص کوثر سلطان پوری تھا۔ بعد از روزگار آپ کا زیادہ تر وقت کتب بینی میں گزرتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے میٹرک تک آتے آتے بہت کچھ پڑھ لیا تھا۔

ایک کمر خمیدہ باپ کا سر فخر سے بلند کردیں!

آرٹیکل کیا چھپا۔ والد صاحب نے اپنے تمام احباب کو بتا دیا۔ خاندان کے لوگ جو مجھے ناکارہ سمجھتے ان کے لئے باعث فخر ہوگیا کیونکہ میں پہلا فرد تھا جو اب جنگ میں چھپنے لگا تھا۔ 80 کے عشرے کے لوگوں کو جانتے ہیں کہ اس زمانے میں جنگ میں مضمون کے آجانے سے وہ عزت و شہرت ملتی تھی جو شاید آج ٹی وی چینلز پر آنے سے بھی ملتی۔ بات ہو رہی تھی والد صاحب کی۔۔ آج بھی سوچتا ہوں کہ یہ والدین بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں انہیں اولاد کے پیسے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ بس یہ تو اپنے لئے اپنی اولاد سے ہونے والے فخر کے لمحے تلاش کرتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب ان کی کمر خمیدہ ہو جائے اور آپ ان کا سر فخر سے بلند کردیں۔

میں بعد میں سیاست اور دیگر موضوعات پر مختلف اخبارات میں مسلسل آرٹیکلز لکھتا رہا اور والد صاحب سب کو بتاتے رہے۔ ان کا کوئی دوست ملتا تو اسے میرے ہر آرٹیکل کا پتا ہوتا اور میں سر جھکائے آرٹیکلز پر ان کے تبصرے سنتا رہتا۔ میری خوشی آرٹیکل میں نہیں تھی۔ میری اصل خوشی یہ تھی کہ میں اپنے والد کے خوابوں کو تعبیر دے دہا تھا۔ تنخواہ میری دو ڈھائی ہزار ہوگی مگر والد صاحب کو لاکھوں کی خوشی مل رہی تھی شاید وہ خوشی جنہیں نوٹوں میں گنا بھی نہ جا سکتا ہو۔

باپ کے لئے فخر و انبساط کا ATM کارڈ بن جائیں!

میری بس ایک گزارش ہے کہ والد کو زندگی میں کم اہم نہ جانیں۔ وہ زندگی بھر آپ کے لئے ATM کارڈ بنا رہتا ہے۔ آپ اس کے لئے انبساط و فخر کا ATM کارڈ بن جائیں۔ بزرگی اور احترام کے نام پر اس سے دور نہ بھاگیں۔ اس کے پاس بیٹھیں۔ اس کی تنہائی دور کریں۔ اس نے آپ کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ کیا آپ اس کے پاس بیٹھ بھی نہیں سکتے؟ جوان ہوتے بچوں کے والد اس بات کو زیادہ بہتر سمجھ اور محسوس کر سکتے ہیں۔

باپ مرتے نہیں!

کسی نہ کسی انداز میں آپ یا آپ کی اولاد میں زندہ رہتے ہیں۔ کبھی پوتا مسکرائے یا ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرے تو آپ خوش ہو کر کہتے ہیں: دیکھو بالکل پاپا کی طرح کر رہا ہے۔ کوشش کریں کہ آپ جب یہ بات کر رہے ہوں تو والد آپ کے ساتھ ہی بیٹھے ہوں ورنہ یہ آواز ان کے کانوں میں اگر پہنچی تو وہ شہر خاموشاں کی ایک قبر میں نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا رہے ہوں گے۔

تمہاری قبر پرجس نے تمہارے نام کا کتبہ لگایا ہے وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں، میں دفن ہوں تم مجھ میں زندہ ہو

(ندا فاضلی)

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Kitab Behtreen Ustad Hai

By Syed Mehdi Bukhari