Monday, 07 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Humayon Qaim Khani
  4. Aaj Ke Halaat

Aaj Ke Halaat

آج کے حالات

اسلام کے نام پر بننے والی یہ "اسلامی جمہوریہ پاکستان" نامی ریاست کو حکومت موجودہ دور میں زوال کے اس دہانے پر لے آئی کہ اسلامی نظام کے الٹ کام کر رہی ہے۔ اسلام جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے انسان کو زندگی کے شعبہ کے متعلق بتایا۔ آج اسی کے نام پر بننے والی اس ریاست میں اسلامی نظام کی خلاف ورزی پابندی سے نظر آتی ہے۔ جس میں سب سے بڑھ کر رشوت خوری ہے، سود مختلف ناموں سے ہمارے درمیان میں لازم ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اسلامی مملکت کے باشندے ہیں جہاں افسوس کے ساتھ کہیں بھی اسلام نظر نہیں آتا جہاں نظر آئے وہاں شرائط لاگو کرکے حقائق کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اسلامی طرز حکومت میں ہمارے پاس نبی کریم ﷺ اور ان کے مخلص ساتھیوں یعنی صحابہ کرامؓ کا طریقہ بطور عملی نمونہ موجود ہے۔ لیکن پھر بھی حکومتی سطح پر ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کئیں بھی حکومتی ادارے عوام پر ظلم ڈھاتے نظر نہیں آتے لیکن یہاں ماضی کے اوراق پلٹنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج موجودہ دور میں نظر بلوچستان کی طرف کرنے کی ضرورت ہے جہاں عوام کو حقوق مانگنے کی بناء پر سڑکوں پر مارا جا رہا ہے، خواتین کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، عورتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے، انھیں حق کا ساتھ دینے کی وجہ سے سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے۔ کیا یہ ہے وہ خطہ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، کیا یہ ہے وہ آزاد ملک جس کے لیے ہمارے اجداد نے قربانیاں دی تھیں، کیا یہ ہے وہ ریاست جو نظریات کی بنا پر قائم ہوئی تھی، کیا یہ ہے جناح کا پاکستان؟ جہاں فقط ذاتی پسندیدگی کی بنا پر لوگوں اور علاقوں کو نوازا جاتا ہے۔ آخر کیوں پاکستانیوں کو برابر حقوق نہیں دیے جاتے؟

اگر ملک چلانے میں ذاتی پسندیدگی شامل ہوگئی تو ہمارے سامنے بہت سی حقیقی مثالیں ایسی موجود ہیں جہاں نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بلوچستان پاکستان کا وہ علاقہ جہاں قدرتی وسائل بے جا نظر آتے ہیں لیکن پھر بھی کیوں اس سر زمین کو کوئی ہمدردی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا، کیوں وہاں کا تعلیمی نظام زوال پذیر ہے، کیوں وہاں کا صحت کا نظام بیمار ہے۔ کیا کوئی یہ فیصلہ کرے گا کہ میرا بچہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بلوچستان جا رہا ہے یا میں اسے فلاں ڈگری کے لیے کوئٹہ یا وہاں کے کسی اور شہر بھیج رہا ہوں، نہیں! جبکہ اسی کے مقابل اگر ہم پنجاب کو دیکھیں ہم خوشی خوشی اس پر آمادہ ہیں، وہیں اگر کراچی کی بات کریں تو کسی حد تک ہم مطمئن نظر آتے ہیں (وہ بھی مکمل نہیں)۔ لیکن بلوچستان کا کیا قصور؟ کیوں وہاں کے نظام کو پنجاب جیسا بنانے کی کوشش تک نہیں کی جاتی؟ البتہ جب وہاں کی عوام حقوق مانگنے نکلے تو ان کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ کیا وہ پاکستان کے باشندے نہیں۔ موجودہ دونوں میں بلوچستان کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ وہ غیرت مند لوگ اپنے آپ کے لیے اپنے مستقبل کے لیے کھڑے ہیں افسوس انھیں وہ کچھ بھی نہیں مل رہا جو ان کا حق ہے۔ جس قطے کے لوگوں کی نہ زندگیاں محفوظ ہوں نہ ہی انھیں اپنا مستقبل روشن نظر آئے آپ یا میں کیسے ان سے تحمل کی امید لگا سکتے ہیں۔ ہم کیسے یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ بغاوت پر نہیں اتریں گے۔ ایک طرف آپ دوسرے لوگوں اور علاقہ کو نوازے جائیں اور دوسری طرف یہ دوہرا معیار۔ کیا عوام یہ نہ سمجھے کہ یہ پاکستان کو توڑنے کی سازش ہے، کیا معصوم عوام کا دھیان اس طرف نہ جائے کہ یہ سب ملک دشمن عناصر کے کارندے ہیں۔ ایک طرف آپ ملک کی بیٹی کو مضبوط بنانے کے منصوبے لاتے ہیں تو دوسری جانب اسی دھرتی کی بیٹی کا تقدس پامال کرتے ہو۔

شروعات سے بلوچستان کو مختلف سازشوں کے تحت ہمارے ملک سے الگ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جہاں اس خطے کی عوام کو اعتماد میں لے کر اس بہادر قوم سے ملک کا کام لینا تھا وہیں ہم نے اپنی بے دھیانی کے سبب انھیں بغاوت پر مجبور کردیا۔ جب غلطی دکھائی تو انھیں ہی قصوروار ٹھہرا کر ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ فقط یہی نہیں باب الاسلام کو بھی انھوں نے نہیں چھوڑا ایک نظام کے تحت بہنے والے اس سر زمین کی ملکیت دریائے سندھ کا پانی روکنے میں بھی حکومت پیچھے نہ ہٹی اور اس سر سبز و شاداب اور زرخیز زمین کو بنجر کرنے کے لیے پانی پر قبضہ جما لیا۔ اس ملک میں عوام کو ہر وہ موقع اور حالات مہیا کیے جا رہے ہیں کہ وہ بغاوت پر اتر آئیں۔ ہم کیوں بھول گئے کہ ہمارے حقیقی ہیروز ہمیں عملی طور پر نظامِ حکومت بہت پہلے ہی سیکھا کر چلے گئے۔ ہم کیوں ان کے عمل کو مشعل راہ نہیں بناتے۔ جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ فلاح اسی طریقے میں ہے۔ جہاں ایک حاکم کی یہ سوچ ہوا کرتی تھی کہ "دریائے نیل کے کنارے اگر کوئی کتا بھوک سے مر گیا تو بروزِ حشر اس کا سوال بھی مجھ سے ہوگا۔ " وہ تھے حاکم جنھوں نے سیاست بھی کی تو نرالہ انداز اپنایا، اپنی رعایا اور تمام علاقوں کے ساتھ ایک سا رویہ اختیار کیا۔ آج وہ سب کہاں ہے؟ کیا آج کا وزیر آج کا حاکم آج کا عہدہ دار فقط یہ سوچتا ہے کہ میں نے اپنی ذات کو ہی ترجیح دینی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم جلد ہی بہت بُرے نقصان سے دوچار ہونے والے ہیں۔

Check Also

Har Gali Mein Aik Newton

By Sohaib Rumi