Waqt Badal Jata Hai
وقت بدل جاتا ہے

دس سال قبل میری سگی بہن نے پردیس میں ڈیرہ ڈالا تھا۔ فیملی امیگریشن پر وہ بمعہ شوہر کینیڈا چلی گئی تھی۔ اس کی شادی میں نے خود کی تھی۔ والد گزر چکے تھے، اماں کی طبیعت ناساز رہا کرتی تھی۔ وہ رینل فیلئیر میں مبتلا تھیں۔ گردے ناکارہ ہو چکے تھے۔ ڈائیلائسس ہوا کرتے۔ میں لیکسن گروپ میں بطور نیٹورک انجینیئر (کور نیٹورک آپریشنز) نوکری کرتا تھا۔ بچپن سے ہی میری اور اس کی قربت تھی۔ اماں پریشان رہا کرتی کہ اس کے ہاتھ میری حیات میں ہی پیلے ہو جائیں تو چین نصیب ہو۔
اماں نے حالت بیماری میں ہی رشتے دیکھنا شروع کر دیئے۔ ایک دن میں نوکری سے گھر پہنچا تو اماں سنجیدہ بیٹھی تھیں۔ مجھے پاس بلا کر کہا "تو ایسا کر، صبح کی چھٹی لے لے اور لاہور اندرون موچی دروازے اپنی بیگم کے ساتھ چلا جا۔ کسی نے مجھے ایک شریف فیملی کا بتایا ہے۔ لڑکا اور اس کا گھر وغیرہ دیکھ آ، شاید تجھے اچھا لگ جائے"۔ بہن مجھ سے 2 سال چھوٹی تھی اور والد گزر جانے کے بعد میں ہی اس کا بھائی بھی تھا اور والد بھی۔
اماں کا دل رکھنے کو میں اگلی صبح اکیلا چل دیا۔ موچی دروازے کی تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتا بلآخر ایسے مکان میں داخل ہوا جو انتہائی تنگ تھا۔ اندرون لاہور کا نقشہ آپ جانتے ہی ہوں گے۔ مکان کی حالت بہت خستہ تھی۔ یہ شاید دو مرلے کا چار منزلہ مکان تھا۔ ایسے جیسے کوئی ٹاور ہو۔ پہلی نظر میں گھر میں داخل ہوتے ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ یہاں اپنی بہن کہاں بھیجنی ہے۔ دل میں اس رشتے کو مسترد کر دیا تھا۔
گھر میں صرف اماں تھیں۔ اماں بہت نفیس خاتون معلوم ہوئیں۔ انہوں نے خود ہی چائے کا انتظام کیا۔ ان کا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا جس کو دیکھنے میں یہاں پہنچا تھا۔ اب چونکہ میں دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ یہاں رشتہ کرنا ممکن نہیں اس لئے میں چپ چاپ بیٹھا تھا۔ مجھے یوں خاموش دیکھ کر وہ بولیں "بیٹا، میرے شوہر ریلوے میں ملازم تھے۔ وہ میری عین جوانی میں گزر چکے ہیں۔ ان کے بعد میری ایک ہی اولاد تھی جس کے واسطے میں جیتی رہی۔ میرے پاس کوئی سرمایہ نہیں سوائے اپنے بیٹے کے۔ مکان کی حالت تو آپ نے دیکھ ہی لی ہے۔ جو ہے یہی ہے۔ میرا بیٹا انگلش لٹریچر میں ایم فل ہے اور اب پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ دی سٹی سکول کی ایک برانچ کا وائس پرنسپل ہے۔ گزارا اچھا ہو جاتا ہے"۔
یہ کہہ کر وہ چپ ہوئیں۔ میں نے سلسلہ کلام آگے بڑھانے کو پوچھا "اچھا۔۔ تو سکول کتنی دور ہے اور کیسے آتے جاتے ہیں؟" جواب آیا "اس کے پاس ابھی بائیک نہیں ہے۔ اسے چلانی نہیں آتی۔ لوکل ٹرانسپورٹ سے آتا جاتا ہے۔ کچھ پیدل چلتا ہے"۔ یہ سن کر میں چپ ہوگیا۔ میری بہن ڈبل ماسٹرز تھی۔ ایم بی اے فنانس کے ساتھ ایم اے اکنامکس کر چکی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ان کو کیا جواب دوں اور یہاں سے چلوں۔ اتنے میں وہ لڑکا گھر آ گیا۔
یہ دبلا پتلا سا گورا چٹا نوجوان تھا۔ لگتا تھا جیسے کشمیری ہو۔ گفتگو میں انتہائی مہذب لگا۔ اس سے کچھ علیک سلیک کرکے اور اِدھر اُدھر کی عام گفتگو کرکے مجھے احساس ہوا کہ بندہ تو شریف اور سلجھا ہوا ہے۔ بلاخر میں بنا کچھ کہے اُٹھ کھڑا ہوا۔ چلنے لگا تو اماں بولیں "یہ مقدر کی بات ہوتی ہے جہاں نصیب ہو وہاں رشتے طے ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ نے کوئی فیصلہ کیا تو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ جہیز وغیرہ کے سخت خلاف ہے۔ یہ ایک پائی کسی سے نہیں لے گا اور یہ بات حتمی ہے۔ اسے اس بات پر غصہ آ جاتا ہے، باقی میں یہی کہہ سکتی ہوں کہ جہاں ہم دو ماں بیٹا کھانا کھاتے ہیں وہیں جو بھی آئی اس کو کوئی کسر نہیں آنے دیں گے چاہے خود بھوکے سوئیں"۔ میں نے یہ سن کر ہنستے ہوئے کہا "کیوں جہیز نہیں لیں گے؟ اگر میں اپنی مرضی سے اپنی بہن کو دینا چاہوں تو آپ کو کیا ایشو ہے؟" بولیں "بیٹا خود دیکھ لو ہمارے پاس رکھنے کی جگہ کہاں ہے؟ چھوٹا سا دو کمروں کا گھر ہے مگر جیسا ہے اپنا ہے۔ یہیں ساری عمر گزاری ہے یہیں پہ باقی عمر رہنا چاہتی ہوں۔ کیوں ہم لیں اور آپ کا کیوں دیں۔ جو شخص اپنی بیٹی دے دیتا ہے اس کا اتنا احسان ہی کافی ہوتا ہے"۔
وہاں سے نکل کر سیالکوٹ اپنے گھر پہنچا۔ میں نے داخل ہو کر بہن کو اپنے کمرے میں بلایا۔ اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ سن کر چپ رہی۔ ظاہر ہے اس کی چپ اس لئے تھی کہ شاید اس کا دل گھر کا نقشہ سن کر نہیں مان رہا تھا۔ میں نے اسے چپ دیکھا تو اسے کہا "دیکھو، کوئی زبردستی نہیں ہے۔ اس لئے ہی تو بتا رہا ہوں کہ سب پہلوں سے غور کرکے فیصلہ لو۔ میں نے جتنا غور کیا ہے میرے مطابق وہ لڑکا اگر آج struggling پریڈ میں ہے تو ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ مجھے شریف اور محنتی لگا ہے۔ اگر مجھے اس فیملی یا لڑکے پر ذرا سا بھی کوئی شبہ ہوتا تو تم کو بتائے بنا انکار کر دیتا"۔ وہ ساری بات سُن کر چلی گئی۔ اگلی شام اس نے مجھے کہا "بھائی، جیسے تم کو ٹھیک لگے۔ جو تمہارا فیصلہ ہوگا مجھے منظور ہے"۔
میں نے پھر اس لڑکے کے سکول سے اپنے تئیں معلوم کیا۔ ہر جگہ سے تسلی کی۔ مجھے کوئی ایسی بات نہ مل سکی جس سے مجھے تشویش لاحق ہوتی۔ شادی ہوگئی۔ دو بچے ہوئے۔ سلمان نے پی ایچ ڈی مکمل کی اور کینیڈا کی امیگریشن لے لی۔ سنہ 2015 میں وہ وہاں شفٹ ہو گئے۔ اب وہ یونیورسٹی آف مسی ساگا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہے۔ اس کی جاب کینیڈا کی highly paid جابز میں سے ایک ہے۔ وقت بدل جاتا ہے سدا ایک سا نہیں رہتا۔ میرا اس کا تعلق بھائیوں سے بھی زیادہ یوں ہے کہ نہ اس کا بھائی تھا کوئی اور نہ میرا۔ شادی کے بعد اس کی والدہ بھی گزر گئیں اور میری بھی۔
چھ سال بعد جب وہ کینیڈین نیشنل ہوگئی تو سنہ 2021 میں وہ پاکستان آئی۔ اس کی بیٹی باتونی اور کیوٹ سی ہے۔ بیٹا کم گو ہے۔ بچے تو مکمل انگریزی لب و لہجہ اختیار کر چکے ہیں۔ بولتے ہوئے سنو تو لگتا ہے کہ کوئی پیدائشی گورے ہیں۔ رات 2 بجے اسے اسلام آباد ائیرپورٹ سے لیا۔ برسوں بعد ملے تھے تو کافی باتیں کرنے کو تھیں۔ واپسی کے سفر میں دھند بھی تھی۔ گاڑی کی رفتار کم تھی۔ دھند کے سبب حد نگاہ دو چار میٹر ہی تھی۔ میں نے اس کی انگریز کاکی کو چھیڑنے کو کہا "اک بار مجھے ایسی ہی ڈراونی رات میں چڑیل نظر آئی تھی"۔ وہ سن کر انگریزی میں کہنے لگی کہ ماموں پلیز نو۔ مجھے نہیں سننا ایسا واقعہ۔ اس کی ماں بھی اسے چھیڑنے کو میری ہاں میں ہاں ملاتی رہی۔ سارا رستہ وہ چڑیل کے قصے سے ڈرتی آئی۔ ہم دونوں اس کے ڈرنے سے لطف اندوز ہونے لگے۔
ایک دن بعد شام کو اس نے اپنا لیپ ٹاپ نکالا۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ کینیڈا میں اپنی کلاس اٹینڈ کی۔ اس کی گوری ٹیچر نے پوچھا "بتاؤ تم کو اپنا ہوم لینڈ پاکستان کیسا لگا؟" وہ اسے فر فر انگریزی میں بتا رہی تھی "ٹیچر پاکستان میں دہشتگردی ہوتی ہے، میرے ماموں بھی دہشت گرد ہیں اور میری ماما بھی پاکستان پہنچتے ہی دہشت گرد بن گئی ہیں۔ وہ دونوں ساری رات مجھے چڑیل کی کہانی سنا کر ڈراتے رہے۔
there is no peace teacher. Terror is in the air
پہلے پہل تو ٹیچر کے چہرے کی ہوائیاں اڑیں، وہ انتہائی سنجیدگی سے اوہ، ہممم کرتی رہی، پھر جب ٹیچر کو ساری بات سمجھ آئی وہ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگی۔ کلاس ختم ہوئی تو میں نے کاکی کو کہا "یہ دہشت گرد ماموں اگر نہ ہوتے تو تمہارا دنیا میں ظہور بھی نہ ہوا ہوتا"۔۔ اس کی ماں نے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی "تھینک یو"۔۔
میرا فیصلہ غلط بھی ثابت ہو سکتا تھا۔ ہمارے ہاں مرد گھر کا وارث ہوتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سلمان کبھی struggling پیریڈ سے نہ نکلتا۔ اس کے حالات نہ بدل پاتے۔ اگر یوں ہوتا تو ساری زندگی کا بھگتان تو بہن نے چکانا تھا۔ اب اگر فیصلہ درست ثابت ہوگیا تو اس میں میرا کریڈٹ نہیں۔ سارا کریڈٹ میں ان دونوں کو دیتا ہوں۔ بہن نے میری ججمنٹ پر اعتبار کرکے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ میرے ہاتھ دے دیا اور سلمان نے میرے یقین کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے انتھک محنت کی۔ میں نے اسے بس رشتہ کی ہاں کرتے ہوئے ایک ہی جملہ کہا تھا کہ بھائی تیرے پر اعتبار کر رہا ہوں میرا اعتبار توڑنا مت۔
آپ عورت کو مضبوط کریں۔ اسے پڑھائیں۔ اسے عزت دیں۔ اس سے اس کی زندگی سے متعلقہ فیصلوں پر اعتماد میں لیں۔ اس سے کچھ نہ چھپائیں۔ وہ آپ کے ہاتھ اپنی زندگی کی ڈور تھما دے گی۔ وہ عورت چاہے بہن ہو یا بیوی۔ مرد اگر عزت نفس کا پاس رکھنے والا ہے، خاندانی ہے تو وہ بھی آپ کا اعتبار کبھی نہیں توڑے گا۔ باقی اوپر والے کے ہاتھ ہوتا ہے۔ عملوں کا دارومدار تو نیت پر ہے۔ نیت صاف ہے تو رب ساتھ ہے۔ ہاں مگر ان معاملات زندگی میں تحقیق بھی لازم ہے اور اعتبار بھی۔ حقائق و حالات کی چھان پھٹک کے بعد آخری گواہی آپ کا دل دے دیتا ہے۔
حضرت علی کا ایک قول ہے "اپنے دل سے رشتوں کا احوال پوچھو، یہ وہ گواہ ہے جو کسی سے رشوت نہیں لیتا"۔