Chalte Ho To Baku Chalte Hain (5)
چلتے ہو تو باکو چلتے ہیں (5)

28 مئی مول کے اندر ایک وسیع و عریض دنیا میری منتظر تھی، یہ نہایت شاندار، تین منزلہ بلڈنگ ہے، ہر طرح کے برانڈڈ سامان ملبوسات والی دکانیں، اشیاء خورد ونوش والی ایک بڑی دکان میں داخل ہوا، سوئی سے لیکر ہاتھی گھوڑے تک ہر چیز دستیاب، ہر طرح کی کوالٹی اور اس کے مطابق ریٹ، ہر سُو خواتین کی اکثریت تھی۔ میں پانی کی ایک بوتل خرید کر باہر نکلا، ایک گارڈ سے کرنسی تبدیل کرنے کا پوچھا تو اس نے نیچے جانے کا اشارہ کیا، سفری بیگ گھسیٹتا لفٹ کی طرف گیا، لفٹ میں سوار ہو کر نیچے گیا، باہر نکلا تو سامنے پھر ایک گارڈ، اس سے کرنسی تبدیل کروانے کا پوچھا تو اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔
ادھر نگاہ کی تو بیسمنٹ پارکنگ لاٹ میں گاڑیاں کھڑی نظر آ ئیں، میں اسے مذاق سمجھا، واپس پلٹا اور اسی گارڈ سے دوبارہ پوچھا، اس نے پھر پارکنگ لاٹ کی طرف اشارہ کیا، میں اسے رشین زبان میں بتایا "وہاں فقط گاڑیاں ہیں "، میرے چہرے پر ناگوار تاثرات دیکھ کر اس نے پوچھا "کنٹری؟"، پاکستانی کا جواب سنتے ہی اس نے زور سے پکڑ کر مجھے گلے لگایا اور چٹاخ چٹاخ رخساروں پر بوسے دیئے، "پاکستان آذربائیجان برادر برادر" اور میرا ہاتھ تھامے اپنے ساتھ لے چلا، دروازے سے باہر نکل کر بائیں ہاتھ دو عدد اے ٹی ایم مشینیں نصب تھیں، وہ ایک مشین کی طرف اشارہ کرتے بولا "اس سے غیر ملکی کرنسی تبدیل کر سکتے ہو"۔
مشین کا طریقہ کار بہت ہی سادہ تھا، کرنسی کا معاملہ تھا لہذا ٹچ سکرین کو پریس کرکے انگریزی زبان منتخب کی، سکرین پر ہدایت نامہ ظاہر ہوا، کرنسی تبدیل منتخب کیا، رقم والی سلاٹ اوپن ہوئی، دو سو ڈالر سلاٹ میں رکھے، سلاٹ بند ہوئی، گر گر کی آواز آئی، چند ثانیہ بعد سکرین پر متبادل رقم آذربائیجان منات میں ظاہر ہوئی، قبول کرنے والے بٹن کو پریس کیا، تو گرگر کی آواز کے ساتھ دوسری سلاٹ سے آذربائیجانی منات نمودار ہوئے اور رسید بھی، وہ وصول کئے اور گن کر جیب میں رکھے، اب بھوک لگنا شروع ہوگئی تھی، واپس اسی دروازے سے گزرا اور گارڈ کا شکریہ ادا کیا، اس نے اشارے سے کچھ کھانے پینے کا پوچھا لیکن میں شکریہ ادا کرتا سفری بیگ گھسیٹتا واپس پہلے فلور پر آ گیا، یہاں رونق ہی رونق تھی، اتنا حسن کہ سمجھ نہ آئے کہ بندہ دکانوں میں رکھی سجاوٹ کی اشیاء دیکھے یا قدرتی نسوانی حسن کے ان چلتے پھرتے پری پیکروں سے ٹکرا کر سوری بولے۔
اتفاق سے آذر بائیجان کا تمام علاقہ جغرافیائی طور پر افسانوی کوہ قاف میں واقع ہے اور یہاں ہر قدم پر خوش شکل چہرے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، حسن کے لحاظ سے دنیا میں ٹاپ پر رشین کو سمجھتا ہوں، اس کے بعد ٹرکش کو دوسرے نمبر پر اور آذربائیجان کے لوگ رشین اور ٹرکش کا کراس ہیں، اس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک زاہد کا بغیر پیئے بہکنا سمجھ آتا ہے، لیکن لہراتی، بل کھاتی، ناز و ادا دکھاتی دنیاوی حوروں کا یہ نظری حسن پیٹ کی آگ نہیں بھر سکتا، فقط آنکھوں کو ٹھنڈک دے سکتا ہے۔
بھوک کی شدت سے معدے نے احتجاج کیا تو ذہن کو زور سے جھٹکا اور فوڈ کورٹ کی تلاش شروع کر دی، فوڈ کورٹ میں داخل ہوا تو رنگ برنگے کھانوں کے سٹال، پیٹ پوجا کی خاطر ٹرکش ڈونر کباب اور پانی کا آرڈر دیا، بل فقط 6 منات، یعنی بہت سستا، شکم سیر ہو کر مول سے باہر نکلا تو عین مرکزی دروازے کے سامنے کھڑی وین پر سم کارڈ فروخت کا ہاتھ سے لکھا بورڈ نظر آیا، ایک مقامی لڑکا اس وین کے پاس موجود تھا، اسے سم کارڈ کا پوچھا تو اس نے کنٹری پوچھا، یہاں بھی مجھے گالوں پر چٹاخ چٹاخ بوسوں اور "پاکستان آذر بائیجان برادر برادر" کے مرحلے سے گزرنا پڑا، بعد ازاں اس نے ایک چارٹ نکال کر پیش کر دیا، نظر دوڑائی تو مختلف پیکج اور انکے ریٹ درج تھے، سب سے سستا پیکج دس منات مالیت، پورا مہینہ انٹرنیٹ فری اور آذر بائیجان میں موبائل اور لینڈ لاین پر مفت کال، یہ پیکج منتخب کیا اور اسے دس منات ادا کئے، اس نے فوراً ہی ایکٹویٹ بھی کر دیا۔
اب اگلا مرحلہ پارک پلازہ ہوٹل جانے کیلئے ٹیکسی لینا تھی، بولٹ ایپ کھول کر لوکیشن ڈالی تو فاصلہ ڈیڑھ کیلومیٹر اور پونے دو منات ریٹ، یعنی ساڈھے چار ریال سے بھی کم، پاکستانی کرنسی میں تقریباََ 320 روپے، یہ تو بہت ہی سستا محسوس ہوا، مڈل ایسٹ بالخصوص دبئی کی ٹیکسی سروس کا میں بذات خود کئی مرتبہ مشاہدہ کر چکا تھا کہ بہت ہی مہنگی اور ڈرائیور عملہ بھی اکثر و بیشتر ان پڑھ اور غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے، ٹیکسی طلب کی اور وہیں کھڑے ہو کر انتظار کیا، ایک منٹ سے بھی کم وقفے میں میرے موبائل پر کال موصول ہوئی، یہ ٹیکسی ڈرائیور تھا، میں نے موبائل فون اس وین والے لڑکے کو تھما دیا، اس نے بات کی، کال بند کرکے بائیں ہاتھ سڑک کے پار کھڑی ٹیکسی کا نمبر بولا اور وہاں جانے کا حکم صادر ہوا، اس کا شکریہ ادا کرکے رخصت ہوا۔
ٹیکسی صاف ستھری تھی اور ڈرائیور بھی خوش اخلاق، یہاں پھر سے رخساروں پر بوسے اور "پاکستان آذر بائیجان برادر برادر" کے نعروں نے میرا استقبال کیا، یہ بات میرے لئے خوش کن تھی لیکن اس کی وجہ دریافت کرنا چاہتا تھا کیونکہ سیمی میں میرے زمانہ طالب علمی کے بعد پہلی مرتبہ پاکستانیوں کی بیرون ملک اس قدر عزت دیکھنی نصیب ہوئی تھی، جب میں 1999 میں سیمی پڑھنے کیلئے گیا تھا تب بیرون ملک تعلیم کا رجحان نہ ہونے برابر تھا، کوئی شاذ و نادر ہی بیرون ملک تعلیم کیلئے رخ کرتا تھا اور تب تک بیرون ملک پاکستانیوں کی بڑی عزت تھی، ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھائی اور میوزک سسٹم آن کر دیا، مختلف راستوں سے ہوتے پارک پلازہ ہوٹل کے باہر پہنچے، ڈرائیور کو دو منات اور باقی بطور ٹپ دیدی، وہ بھرپور شکریہ ادا کرتا "پاکستان آذربائیجان برادر برادر" کے نعرے لگاتا روانہ ہوگیا۔
سیڑھیاں چڑھ کر لابی میں داخل ہوا، کاؤنٹر پر دو مقامی افراد موجود تھے، اپنا نام بتایا، بکنگ پہلے سے طے شدہ تھی، انہوں نے مجھے پیشکش کی کہ گانجلک ایریا میں ہمارا ایک دوسرا فور سٹار ہوٹل ہے، آپ وہاں بغیر کسی اضافی رقم قیام کر سکتے ہیں، وہ ایریا تھوڑا دور تھا اور میں سفر سے تھکا ہوا تھا، لہذا معذرت کی، بعد میں شکیب نے مجھے بتایا کہ یہاں پر ہوٹل والے کسٹمر کو "No Show Up" ظاہر کرکے اپنے ہی کسی دوسرے ہوٹل میں "اپ گریڈ" کر دیتے ہیں اور اپنا بیس فیصد ٹیکس بچاتے ہیں۔
ضروری اندراج کے بعد پورٹر نے مجھے لفٹ کے ذریعے تیسرے فلور پر کمرہ نمبر 317 میں پہنچایا، کمرے کا ایک دن کا کرایہ 80 ڈالر تھا، بائیں ہاتھ وارڈ روب، دائیں ہاتھ بہترین باتھ روم، گرم ٹھنڈا پانی دستیاب، اس کے بعد کنگ سائز بستر، اسکے مقابل دیوار پر نصب 46 انچ کی ایل سی ڈی، جس پر تمام ورلڈ کلاس چینل کی سہولت موجود تھی، سامنے ایک بڑی کھڑکی جس پر دوہرے دبیز پردے نصب تھے، مجھے ساری رات کی نیند نے تنگ کر رکھا تھا، سامان ایک سائیڈ پر رکھا، کپڑے تبدیل کئے اور بستر پر دراز ہو کر سو گیا۔