Wednesday, 16 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Qameez Ka Toota Hua Button

Qameez Ka Toota Hua Button

قمیض کا ٹوٹا ہوا بٹن

بےروزگاری کے دن بڑئے کڑئے ہوتے ہیں سوائے تلاش روزگار کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا ہر لمحہ اسی تار شمار میں گزرتا ہے کہ کہیں کوئی روزگار کی صورت نکل سکے۔ روزآنہ خالی اسامیوں اور ملازمت کے مواقع کے اشتہار دیکھنا پھر کئی دنوں تک اسی خوشی میں سرشار رہنا کہ یہ ملازمت تو ہے ہی شاید ہمارئے ہی لیے؟ لیکن پھر انٹرویو کے بعد ہی مایوسی سے دوچار ہو جانا معمول ہوتا ہے گھر والوں اور عزیز واقارب کا رویہ مزید نفسیاتی دباؤ میں اضافہ کر دیتا ہے۔

خاص طور پر جب آپ شادی شدہ بھی ہوں تو مسلسل ناکامیوں کی باعث انسان شرمندہ شرمندہ سی ذہنی کیفیت کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی کیفیت ستر کی دھائی میں میری ہوا کرتی تھی۔ ایسے میں کسی بینک سے انٹرویو کی کال کا آجانا کسی بڑی خوشخبری سے کم نہ تھا۔ بڑی تیاری کی اپنی اکلوتی پینٹ اور شرٹ دھوبی سے استری کرائے اور اپنے پرانے بوٹ کئی مرتبہ پالش کرکے چمکائے کیونکہ کہتے ہیں کہ انٹرویو میں افسر کی نظر سب سے پہلے آپکی جوتی پر ہی پڑتی ہے۔

انٹرویو کے لیے دوستوں کے بے شمار مشورئے پلے باندھے اور صبح پہلی بس سے بہاولپور کے لیے روانہ ہونے کے لیے اٹھے تو ابھی اندھیرا تھا۔ یہ بس صبح فجر کی آذان کے وقت ڈیرہ نواب صاحب سے سیدھی بہاولپور جاتی تھی اور یہ پچاس کلو میٹر کا سفر دو گھنٹے میں طے کرتی تھی، نئی نئی شادی ہوئی تھی جب تیاری کرنے لگے تو بیگم نے کہا کہ دھوبی نے آپکی شرٹ کا سامنے والا درمیان کا بٹن توڑ دیا ہے۔ بڑی پریشانی ہوئی بیوی نے تلاش کرکے ایک بٹن ڈھونڈا اور لگا دیا مگر وہ اوپر اور نیچے کے بٹنوں سے رنگ اور سائز میں مختلف تھا۔ مجبوری تھی دیر کرتے تو بس نکل جاتی بھاگم بھاگ بس پکڑی اور بہاولپور پہنچے۔

سیدھے بینک کے ریجنل آفس فرید گیٹ پہنچے تو پتہ چلا کہ ریجنل ہیڈ سے انٹرویو سے قبل ان کے کنٹرولر یعنی سیکنڈ ان کمانڈ سے ملنا ہوگا جو اسناد اور کاغذات وغیرہ چیک کرکے انٹرویو کرایں گے۔ یوں مجھے اس وقت کے دبنگ اور بظاہر سخت افسر محمد نعیم خان صاحب کے روبرو پیش ہونا پڑا۔ خان صاحب اپنی پیشہ وارانہ سختی کے ساتھ ساتھ بڑے زندہ دل انسان مشہور تھے میری اسناد میں میرئے نمبرز دیکھ کر چونکے اور انہوں نے عادت کے مطابق عینک کے اوپر سے مجھ پر ایک بھر پور نظر ڈالی اور کہنے لگے بھائی باقی تو سب ٹھیک ہے یہ بتاؤ شادی شدہ ہو؟

میں نے کہا الحمداللہ! ابھی تھوڑا عرصہ قبل ہی ہوئی ہے تو مسکرا کر کہنے لگے لگتا ہے کہ تمہاری بیوی تم سے محبت نہیں کرتی؟ بڑا عجیب سا سوال تھا لیکن میرئے منہ سے بےساختہ نکلا کہ وہ تو یہی کہتی ہے کہ وہ بہت محبت کرتی ہے۔ خان صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے چلیں مان لیتے ہیں ویسے تو سب یہی کہتی ہیں تو پھر یہ تمہاری شرٹ کے بٹن کس نے لگائے ہیں؟ بات میری سمجھ میں آگئی میں نے کہا سر بٹن کے نہ ہونےسے تو بہتر ہے کہ بٹن لگا ہوا ہے چاہے جیسا بھی ہے اور پھر پورا ماجرا کہہ کر سنا یا تو کہنے لگے اگر تمہاری ماں یہ بٹن لگاتی تو کبھی ایسا نہ لگاتی۔ بات مذاق میں ہورہی تھی اپنی دراز سے ایک خوبصورت ٹائی نکالی اور کہنے لگے یہ لو ٹائی لگا کر بٹنوں کے سامنے کر لو میں نے ٹائی لگائی تو بٹن نظر نہیں آتے تھے۔

مجھے فوراََ ریجنل ہیڈ ایف ائے انور صاحب کے پیش کر دیا انہوں نے خان صاحب سے پوچھا نعیم کیسا لگا یہ لڑکا؟ تو کہنے لگے میری پیشن گوئی ہے کہ یہ مستقبل میں بہترین بینکار ثابت ہوگا کیونکہ یہ بہت حاضر جواب ہے۔ ریجنل ہیڈ صاحب نے مجھ سے چند سوالات پوچھےجو مجھے ازبر یاد تھے اور نعیم خان صاحب سے کہنے لگے اس کو تعیناتی کے آرڈر دے دو۔ میں شکریہ ادا کرکے باہر آیا تو تھوڑی ہی دیر میں انہوں نے مجھے پوسٹنگ آرڈر دے دیے جو آج بھی میرئے پاس محفوظ ہیں۔

میں نے چلتے ہوئے خان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور ان کی ٹائی واپس کرنا چاہی تو کہنے لگے یہ ٹائی اب تمہاری ہوئی اللہ تمہیں کامیابیاں دئے۔ لیکن ٹائی لگانے کا یہ فائدہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ کیسے بعض اوقات ایک چھوٹی سی چیز ہمارئے کئی بڑے نقص چھپا لیتی ہے۔ اس روز مجھے احساس ہوا کہ اپنی کسی کمزوری کو اپنی کسی خوبی اور ذہانت سے چھپا لینا بھی ایک فن ہے۔ ہمارئے اباجی کہا کرتے تھے کہ اکثر آپ کی بہت سی شخصی کمزوریاں آپ کی بے پناہ اور لگاتار محنت اور کارکردگی کے تلے دب کہیں کھو جاتی ہیں یا پھر کوئی ایک ہی خوبی اتنی نمائیاں ہوتی ہے کہ خامیاں اور کمزوریاں دکھائی ہی نہیں دیتیں۔ ایسے ہی بسا اوقات کوئی ایک خرابی ہی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ ہماری ساری خوبیاں نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔

اباجی بتاتے تھے کہ تاریخ گواہ ہے کہ بےشمار غیر معمولی ذہانت یا قابلیت کے بغیر بھی لوگوں نے محض محنت جدوجہد اور مستقل مزاجی کے ذریعے عروج پایا۔ تھامسن ایڈیسن کو بچپن میں نالائق قرار دیا گیا مگر اس نے ہزاروں تجربات کے بعد بلب ایجاد کرکے دنیا کو بدل دیا۔ ابراہم لنکن بےشمار ناکامیوں کے باوجود امریکہ کے بہترین صدر ثابت ہوئے ایسے نک پیدائشی طور پر ہاتھ پاوں کے بغیر پیدا ہوئے لیکن اپنی محنت کی بدولت دنیا کے بڑے موٹیویشنل اسپیکر بن گئے۔ گویا آپکی قابلیت اور ذہانت کی کمی ہمیشہ محنت اور جدوجہد ہی پوری کرسکتی ہے۔ اس لیے میں نے بھی یہ بات پلے باندھ لی اور بینک ملازمت میں ہمیشہ محنت اور جدوجہد کے ذریعے ہی اپنی بےشمار کمزوریوں پر پردہ ڈالااور ہمیشہ کامیابیاں سمیٹیں۔

نعیم خان صاحب ترقی کرکے کراچی چلے گئی اور میری ملازمت اور بینکنگ کیریر کا سفر بھی شروع ہوگیا۔ جب بھی کراچی جانا ہوتا انہیں سلام کرنے ضرور جاتا اور انہیں یاد دلاتا کہ سر میں وہی ٹوٹے ہوئے بٹن والا ہوں۔ پھر عرصہ بعد 1993ء میں جب میں اوچشریف برانچ کا منیجر تھا تو خان صاحب ہمارئے جنرل منیجر تعینات ہو کر رحیم یار خان آئے۔ جب میری برانچ اوچشریف میں تشریف لائے تو میری کارکردگی سے بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے یار تم بہت بدل گئے ہو مگر تمہارا رنگ نہیں بدلا ویسے کے ویسے ہی ہو میں تمہیں لیاقت پور برانچ پوسٹ کر رہا ہوں۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہوگا مجھے مایوس نہ کرنا۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ برانچ تم سے بہتر کوئی نہیں چلا سکتا۔ وہاں پہنچ کر مشکل سے مشکل حالات میں بھی خان صاحب کے ساتھ کام کرنا میرئے لیے اعزاز رہا ہے۔

وہ کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ پھر ایسا ہی ہوا جس کی انہوں نے پیشن گوئی کی تھی اور ریکارڈ کامیابیوں نے مجھے بہت جلد وائس پریزیڈنٹ اور ریجنل ہیڈ بنا دیا میری کامیابیوں میں ہمیشہ کہیں نہ کہیں خان صاحب کا ہاتھ ضرور ہوتا تھا ہر پریشانی میں ان سے مشورہ لیتا رہا اور پھر اپنے شاندار کیریر کے اختتام پر خان صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد گھر کے ہوکر رہ گئے۔ میں جب بھی کراچی گیا ان کے گھر جاکر ملتا اور ان کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ ان کی پر مزاح گفتگو سے لطف لیتا وہ بڑھاپے کے باوجود ویسے ہی زندہ دل دوست دکھائی دیتے۔

پھر ایک مرتبہ ایک ٹرنینگ پر کراچی گیا تو پتہ چلا کہ وہ بے حد علیل ہیں گھر پہنچا تو بیماری کے باوجود مل کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے سفید لباس پہنا ہوا تھا۔ ان کی قمیض کا درمیان والا بٹن آدھا ٹوٹا ہوا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ فوراََ سمجھ گئے ہنس کر کہنے لگے یار اب ہم نے کونسا انٹرویو دینا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا خان صاحب میں نے تو کچھ نہیں کہا تو کہنے لگے لیکن مجھے تو یاد ہے کہ تم وہی ٹوٹے ہوئے بٹن والے ہو۔ سناؤ اب بھی تمہاری بیگم یہی کہتی ہے کہ وہ محبت کرتی ہے! تو میں نے کہا بلکل بھی نہیں اب وہ بچوں سے محبت کرتی ہے۔ اب وہ ایک ماں ہے اور مائیں کبھی غلطی نہیں کرتیں۔

ہم بڑی دیر تک اپنی ماضی کی باتوں پر ہنستے رہے یہ ان سے میری آخری ملاقات تھی۔ بےشک کچھ لوگ ہماری زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ جناب نعیم خان صاحب مرحوم آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی یادیں ہمیشہ دل میں موجود رہیں گی۔ وہ ایک ایسے مخلص، شفیق اور دردمند انسان تھے جن کی ذات سراپا محبت تھی۔ انہوں نے نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں دیانت داری، خلوص، صاف گوئی اور محنت کی مثال قائم کی بلکہ اپنے ارد گرد موجود ہر شخص کے لیے ہمیشہ ایک سایہ دار درخت بنے رہے۔ وہ بےپناہ خصوصیات اور قابلیت کے حامل بینکار تھے۔ مجھ پر ان کی شفقت راہنمائی اور محبت کا قرض الفاظ میں ادا کرنا بڑا مشکل ہے۔ ان کی مسکراہٹ اور حوصلہ افزائی اور احسانات کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے آمین!

Check Also

Akhir Kyun

By Azhar Hussain Bhatti