Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Ishq Ki Dastan Hai Pyare (2)

Ishq Ki Dastan Hai Pyare (2)

عشق کی داستان ہے پیارے (2)

مست توکلی تقریباً 28 سال کی عمر میں ایک شادی شدہ خاتوں "سمو" سے ملا۔ ریوڑ چراتے ہوئے شدید طوفان نے اسے آ گھیرا اور وہ طوفان سے بچنے کے لیے پناہ گاہ تلاش کرنے لگا۔ قریب ہی اسے ایک گھر نظر آیا۔ اس نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ گھر کی مالکن سمو نے کھولا۔ کہا جاتا ہے کہ مست توکلی سمو کو دیکھتے ہی ہوش کھو بیٹھا اور دل ہار گیا۔

اس واقعہ کے بعد اس نے اپنی ساری زندگی ایک Vagabond کی طرح گزاری۔ اسی دوران اس نے شاعری شروع کر دی۔ اس نے عظیم یونانی شاعر ہومر کی طرح اپنی شاعری کو گیتوں کی شکل میں گانا شروع کر دیا۔ سمو کو دیکھنے کے بعد پہلے پہلے اس نے معمول بنا لیا کہ وہ اپنے ریوڑ کو سمو کے گھر کے قریب لا کر چھوڑ دیتا اور خود سمو کے دروازے پر نظریں گاڑ دیتا کہ شاید سمو کسی وقت دروازے پر آئے اور اسے دیدار کی نعمت نصیب ہو۔ سمو کے گاؤں والوں کو مست کا یہ انداز پسند نہ آیا اور انھوں نے اسے وہاں نہ آنے کی تلقین کی۔

مست توکلی پر اس تلقین کا کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ توکلی کے رویے سے تنگ آ کر سمو کے خاوند نے سمو کو ساتھ لیا اور وہ گھر اور گاؤں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔ سمو کے منظر نامے سے غائب ہونے پر مست توکلی کی زندگی اندھیر ہوگئی۔ اس کی زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ رہا۔ شروع میں اس نے قریہ قریہ گھومنا اور گانا شروع کیا اور پھر ایک درگاہ کے احاطے میں قیام پذیر ہوگیا۔ یہاں اس نے شاعری کے ذریعے معاشرے کو سدھارنے کی طرف توجہ دی۔ اسی حالت میں سمو کی محبت سے بلند ہو کر خالق سے لو لگا لی۔

بلوچ قوم کے بڑے شاعر اور صوفی بزرگ مست توکلی کا عشق ایک بلوچ شادی شدہ عورت سے تھا۔۔ جس کا خاوند اس سے زچ ہو کر اپنی بیوی لے کر چلا گیا۔۔ بات یہاں پر نہیں رکتی ہانی شہہ مرید کی محبت کی کہانی پڑھیں اس میں تو کہانی بلوچوں کے عظیم رہ نما چاکر خان کے گھرد گھومتی ہے۔۔ لیکن چاکر خان نے شہہ مرید کے قتل کا فرمان جاری نہ کیا نہ ہانی کو قتل کیا کہ وہ اپنے آشنا شہہ مرید کے ساتھ ملتی رہی اور تاریخ میں ہے کہ شہہ مرید کی شکایت چاکر خان نے اس کے باپ کو لگائی اور شہہ مرید باپ سے جوتا کھانے کے بعد فقیروں کے ساتھ حرمین چلا گیا اور آگے کی داستان بلوچ قوم بہتر جانتی ہے۔۔

یہ صرف بلوچ قوم مین عشقیہ داستانیں نہیں جن میں کسی کی بیوی، بیٹی، بہو سے سرعام عشق کیا جاتا۔۔ بلکہ عرب میں لیلی مجنوں، شیریں فرہاد، سسی پنوں، ہیر رانجھا۔۔ ہیر تو ساری رات شوہر کے ہوتے ہوئے بھی رانجھے کی ونجلی (بانسری) سننے آتی تھی۔۔ رات بھر سنا ہے بھینسوں کے درمیاں بانسری اور پراٹھے دے کر پاک محبت چلتی۔۔ آدم خان درخانئے۔۔ پشتو لوک داستان آدم خان اور درخانئی پشتو ادب کے دو رومانوی کردار ہیں جنہیں پشتو کا رومیو اور جولیٹ بھی کہا جاتا ہے اگر آپ نے رومیو اور جولیٹ نہیں پڑھی تو پڑھ لیں کیونکہ یہ آدم خان درخانئی سوات کے علاقے سے تعلق رکھتے تھے جہان کی غیرت آج بھی عروج پر ہے۔۔ عرب کے لیلی مجنوں، فارس کے شیریں فرہاد، پنجاب کے ہیر رانجھا، سندھ کے سسی پنوں کی طرح آدم خان درخانئی کی رومانوی داستان پشتو ادب کا کلاسیک شاہکار ہے۔

اب یہ سب کہانیاں جب چوپالوں، محفلوں اور گھروں میں، لوک گیتوں مین رومانوی انداز سے سن کر بچے اور بچیاں جوان ہوں گے۔۔ تو بیٹوں پر تو فخر کیا جائے گا کہ کہ نوجوان ہے کسی کی بیٹی، بیوی، بہن کو سر عام چاہتا ہے بہادر ہے۔۔ لیکن جب یہی کام گوشت پوست کی شیتل کرے گی اور فرق صرف اتنا ہوگا کہ شیتل نے نکاح کیا ہو اور باقی لوک داستانیں حرام محبت پروان چڑھاتے اختتام پذیر ہوئی ہوں تو۔۔ اگر حرام محبتوں کو اتنا دوام ہے تو شیتل تو پھر امر ہوگئی۔۔ آج سے زیادہ نہیں 50 سال کے عرصے کے اندر یہ لوک کہانی پڑھی، سنی اور گائی جائے گی اور آج جو مرد بن کر گولی چلا رہا تھا۔۔ وہ اس کہانی کا ولن ہوگا اور لوگ اس کے نام پر اپنے بچوں کا نام نہیں رکھیں گے۔۔ جیسے باقی لوک کہانیوں میں ہوتا آیا ہے۔۔

یونہی خیال آیا کہ "شیتل" لفظ کا ہندی اور اردو مطلب لکھ دوں۔۔

"شیتل کا مطلب "ٹھنڈا"، "سرد" یا "خنک" ہے۔ یہ لفظ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں استعمال ہوتا ہے اور اکثر ٹھنڈک یا سکون کے احساس کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے"۔

یہی معنی ہمیں اس 51 سیکنڈ کی ویڈیو میں صاف نظر آ رہا ہے۔۔ جس میں "شیتل" کو گولی ماری گئی۔۔

عشق کی داستان ہے پیارے
اپنی اپنی زبان ہے پیارے

ہم زمانے سے انتقام تو لیں
اک حسین درمیان ہے پیارے

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed