Bhooli Hui Yaaden
بھولی ہوئیں یادیں

ہم نے اپنا پہلا ہوائی سفر اکیاون برس پہلے کیا تھا اور کس دل سے کیا تھا نہ پوچھیے۔ اس مستقل جدائی کو خوش گمانی کا خوب صورت پیرہن پہنا کر ہم اسے عارضی سمجھ رہے تھے۔ ڈھاکہ میرا شہرِ جمال اب بنگلہ دیش کا دارالحکومت تھا وہاں سے بیمان پر جو کہ ابھی بھی پی آئی اے، ہی کا جہاز تھا سوار ہوئے۔ پاپا نے میری للچائی ہوئی نظروں کا مدعا جان لیا اور اپنی کھڑکی والی نشت ہمیں دے دی۔ ہم نے دھڑکتے دل سے اپنی ناک کھڑکی کے شیشے پہ چپکا دی۔ یہ تو ہم جانتے تھے کہ اڑان بھرتے ہی جہاز سے محمد پور نظر آئے گا مگر کیا اورنگزیب روڈ پر واقع میرا گھر بھی نظر آئے؟
کیا اس گھر کے اجڑے باغیچے میں ڈوڑتی بھاگتی میری پیاری کتیا جمی ہمیں نظر آئے گی؟
سر سبز ڈھاکہ جو ہم لوگوں کے لیے اب خون رنگا تھا سہ پہر کی سنہری دھوپ میں ہمیں دھندلا نظر آ رہا تھا آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا وہ تاریخ بدلتا ہوا تاریخ ساز لمحہ، تاریخ کے پنوں میں امر ہوا اور میرے جی کا رِستا زخم بھی۔
دوسرے ملک کا اجنبی شہر کولکتہ بھی کم و بیش اتنا ہی کاہی سبز تھا مگر وہاں اپنائیت کی سوگند مفقود سو دھوپ چبتی ہوئی اور رات سرد و کٹھور۔ سرحد کے دونوں جانب بستے انسانوں کی شکل و ہیت تقریباً ایک سی پر یہاں قطعاً اجنبیت اور وہاں میری جنم بھومی میں خون آشام کہ نفرت کی لکیر دلوں میں کھنچ چکی تھی۔
بے نام سا یہ درد ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے وہ گزر کیوں نہیں جاتا
دوسرا جہاز کا سفر طویل ترین کہ ملن کی بے چینی نے سیکنڈ اور منٹ کو گھنٹوں کی طوالت عطا کر دی تھی۔ دوسرا سفر نیپال سے بنکاک اور بنکاک سے کراچی کا تھا۔ جہاز پہ وقت گزارے نہ گزرتا۔ یہاں بھی پاپا نے ہمیں جہاز کی کھڑکی سے متصل نشست دے دی تھی۔
کھڑکھڑاتا جہاز لینڈنگ پوزیشن میں آ چکا تھا اور ہم سانس روکے جہاز کی کھڑی پہ پیشانی ٹکائے اپنی زمین کو دیکھ رہے تھے۔ میرے عزیز ملک کا وہ سالم بازو جیسے اب ہمیں اپنی پناہ میں لے کر ہمارے درد کا درماں بننا تھا۔ اس وقت تک ہم بالکل نہیں جانتے تھے کہ مہاجرت کا ٹھپہ پاپا کی پیشانی سے ہوتے ہوئے اب میری پیشانی پر بھی سجنے والا ہے کہ ہم تو اپنے ہی گھر آئے تھے۔
ہم کھڑکی سے نیچے جھانکتے رہے اور کھڑاک کھڑاک کی آواز کے ساتھ جہاز کے پہیے کھل گئے۔ نیچے بے کراں صحرا تھا۔ کہیں کہیں کچھ چھدرے درخت جو یقیناً پیپل یا نیم نہ تھے۔ یکلخت صحرا کی اڑتے بگولے میں ایک سیاہ پتلی سڑک دھوپ میں جگمگاتی نظر آئی۔
ایسے جیسے ریت میں رینگتا ہوا چمکیلا کالا سانپ۔ اس سڑک پر Ben - Hur کے چھکڑے سے مشابہ چھوٹی سی ریڑھی میں گھوڑی کا بچہ جتا سرپٹ بھاگ رہا تھا۔ ہم نے خوشی سے سرشار ہوتے ہوئے پاپا کو پکارا۔
پاپا! پاپا دیکھیے گھوڑے کا بچہ۔ میری تقلید میں پاپا نے بھی جہاز کی کھڑکی سے نیچے جھانکا اور گزرے اذیت و دہشت بھرے ڈیڑھ سالوں میں پہلی بار زندگی سے بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا یہ گھوڑے کا بچہ نہیں بلکہ گدھا ہے۔
گدھا!
میری حیرانی بجا کہ "ڈھاکے میں گدھے نہیں ہوتے تھے"۔
ہاں بھئی گدھا یعنی donkey۔
یہ میرا گدھے سے پہلا تعارف تھا۔ کراچی میں بے شمار گدھے دیکھے عموماً تو سرمئی رنگ ہی کے ہوتے ہیں پر خال خال سفید گدھے بھی نظروں سے گزرے۔ اب کیا بتائیں کہ وقتاً فوقتاً دو پایہ گدھے بھی کثرت سے مشاہدے میں آتے رہے۔
آپا کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور رواج کے مطابق چچا، پھوپھی کے گھر دعوتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اب جانے کس کے گھر دعوت تھی اور ہم سب پاپا کی عنابی فیٹ میں سوار عازمِ سفر۔ اس زمانے میں سیٹ بیلٹ ولٹ کا سرے سے تصور ہی نہ تھا۔ گاڑی میں گنجائش سے زیادہ سواری روا و مروجہ بھی۔ آگے پیسنجر سیٹ پر نئے نولیے دولھا، رضا بھائی اور پچھے سجی سنوری دلہن یعنی آپا، درمیان میں زرین پھر امی اور امی کی گود میں ہم لوٹھا کی لوٹھا۔ ایک ٹریفک سگنل پر سرخ اشارے پر گاڑی رکی۔ اتفاق سے گاڑی کے برابر ہی ایک چھکڑا آ کر رکا۔ اس چھکڑے میں بہت ہی بھولی صورت، کالی کالی بڑی آنکھیں اور سفید دودھیا رنگت کا پیارا سا گدھا جُتا ہوا تھا۔ اس نے منہ پھیر کر کھڑکی کے آدھ کھلے شیشے کو سونگھ کر اپنی مخمور آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے اپنی کنوتیاں ہلائیں۔
ہم نے بے ساختہ اس کی ناک پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی گردن تھپتھپا دی اور ساتھ ہی میری شامت نے مجھے آواز بھی دی کہ بے ساختہ میری زبان سے یہ جملہ پھسلا "ہائے کس قدر پیارا گدھا ہے"۔۔
بس بھئی پھر کیا اس دن سے لے کر اپنی بقیہ زندگی تک، رضا بھائی برابر میرا ریکارڈ لگاتے رہے کہ "شاہین کو تو گدھے پسند ہیں"۔ ایک بار تو ہم نے زچ ہو کر کہہ بھی دیا کہ بھئی میرا احسان مانیے کہ آپ کے بر دکھوے میں سب سے پہلے ہم ہی نے آپ کو پسند کیا تھا۔
آپ کے حق میں پہلا ووٹ بھی میرا ہی تھا مگر میری جان بخشی نہ ہوئی اور تا حیات رضا بھائی کا یہ مذاق جاری رہا۔
رضا بھائی نہایت مہذب، خلیق، نفیس و ملنسار انسان تھے۔ ہمیشہ ہمیں چھوئی بہن کے درجے پر رکھا۔ ساری عمر انہوں نے بہنوئی ہونے کی رعایت سے صرف اور صرف یہی ایک بے ضرر سا مذاق کیا۔
اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے آمین ثم آمین۔
بھئی گدھے ہمیں واقعی پسند مگر صرف چوپائے۔
دو پائے گدھے ہمیں بالکل نہ بھائے۔
خوش رہیے اور خوش رکھیے۔