Rahiye Ab Aisi Jagha
رہیے اب ایسی جگہ

ہرگیسہ کے اس گھر میں بہت سی آسانیوں کے ساتھ کچھ مشکلات بھی تھیں۔ سب سے بڑی مشکل اس گھر کی تاریکی تھی۔ ڈھلوان چھتوں آس پاس عمارتوں اور درختوں کی وجہ سے پورے گھر میں دن کو بھی اندھیرا چھایا رہتا جب بجلی پورا پورا دن نہ ہوتی تو دن میں بھی کچن میں لالٹین جلا کر کام کرنا پڑتا جس سے مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی اوپر سے کئی بار بندروں نے چھت پر کود کود کر اودھم مچایا ہوتا تو بچے ڈر کر اندر بند ہوجاتے۔
گھر کے پیچھے کوئی ہوسٹل تھا جہاں گوشت کے لئے آئے دن اونٹ ذبح کیا جاتا جس کی خوفناک آوازوں سے دل دہل جاتا۔ ان باتوں کی وجہ سے ہم نے گھر بدلنے کا ارادہ کرکے ایک پراپرٹی ڈیلر کے ذمے اچھا گھر ڈھونڈنے کی ڈیوٹی لگائی۔ وہ روز چار بجے شام کو آتا ہم بچوں سمیت گاڑی میں بیٹھتے اور گھر دیکھنے جاتے۔ وہ پچھلی سیٹ پر بچوں کے ساتھ بیٹھا ملک صاحب سے بات کرتا اس کے بات کرنے کی انداز سے بچوں نے جانے کیا محسوس کیا کہ اس کا نام انکل پھوپھو رکھ دیا۔ جب وہ آتا بچے بھاگے آتے انکل پھوپھو آگئے نیا گھر دیکھنے چلیں اور ہم گاڑی میں بھر کر چل پڑتے کئی مہینے لگ گئے نئے گھر کی تلاش میں۔
ہم نے بہت سے گھر دیکھے جن میں سے تین گھر شارٹ لسٹ کئے ایک گھر بہت خوبصورت تھا، کچھ پرانا تھا لیکن ڈیزائن بہت اچھا تھا۔ خرابی اس میں یہ تھی کہ شہر سے کچھ ہٹ کر بنا تھا، آس پاس کوئی اور گھر نہیں تھا۔ اتنی خوبصورتی کے باوجود ویرانی کا سا تاثر تھا اسے بچوں نے دور والا گھر کا نام دیا۔ دوسرا گھر وہاں کے رواج کے بر عکس ڈبل سٹوری تھا بہت بڑا اور اندر باہر سے سفید تھا اسے بچے وائٹ ہاؤس کہتے۔ تیسرا گھر شہر کی جدید آبادی میں پہاڑی کے دامن میں بنا بالکل نیا سنگل سٹوری بڑا سا گھر تھا اس میں کمی یہ تھی کہ یہاں شہر کا واٹر سپلائی سسٹم کام نہیں کر رہا تھا۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے پانی کا پریشر بہت کم تھا یہاں گھروں میں قیمت کے عوض ٹینکر سے پانی کے اوور ہیڈ ٹینک بھروائے جاتے تھے اس کا نام بچوں نے اونچا والا گھر رکھ دیا۔
ہمیں اب دور والے گھر وائٹ ہاؤس اور اونچے والے گھر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ دور والا گھر اپنی تنہائی اور ویرانی کے نا معلوم سے احساس کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا، وائٹ ہاؤس ہماری ضرورت سے ذیادہ تھا خواہ مخواہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کے خیال سے وہ بھی لسٹ سے خارج ہوگیا، اب باقی بچا اونچا والا گھر! پانی کی کمی کے سوا یہ گھر ہر لحاظ سے بہترین تھا۔ خوبصورت ڈیزائن بلندی کی وجہ سے خوب روشن اور ہوادار۔ ہمسائے میں مالک مکان کا گھر سڑک کے پار گروسری سٹور گویا سب کچھ پسندیدہ تھا۔ ہم نے اسی گھر کے لئے فیصلہ کر لیا پانی کے لئے ٹینکر کی سہولت تو تھی ہی سو ہم نے انکل پھوپھو کو منظوری دے دی کہ وہ ڈیل کروا دے دوسرے ہفتے ہم اس نئے گھر میں شفٹ ہوچکے تھے۔
دور دور سے ذیادہ اندازہ نہیں ہوتا تھا لیکن جب ہم اس گھر میں رہنا شروع ہوئے تو جہاں ہمیں اس کی لوکیشن اور آرام دہ ہونے کا پر سکون احساس ہوا وہاں اس کے خالی پن سے اداسی بھی محسوس ہوئی اب تک جن گھروں میں ہم رہے تھے وہ فرنیشڈ ہوتے تھے۔ یہ بالکل نیا بنا ہوا گھر تھا مالک کو ابھی اسے فرنیش کرنے کا موقع نہیں ملا تھا کیونکہ وہ ایک دوسرے ملک جبوتی میں وہاں کی حکومت میں وزیر تھا اور گھر مکمل ہونے تک یہاں آیا نہیں تھا۔ ہمارے ہمسائے میں اس کی بھتیجی رہتی تھی جس کے پاس گھر کے لئے فرنیچر خریدنے کا اختیار نہیں تھا اس خالی گھر میں ضرورت کا ہر سامان ہم نے خود خریدنا تھا۔
دو بیڈ رومز کا فرنیچر کچن کا ضروری سامان اور بیٹھنے کے لئے کچھ کرسیاں اور ایک میز ہمارے پاس تھی فوری طور پر تو گھر چل پڑا لیکن باقی گھر کو ہم نے کیسے کیسے جتنوں سے بھرا یہ کہانی پھر سہی۔