Friday, 18 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saira Kanwal
  4. Allah Ki Amaan Mein

Allah Ki Amaan Mein

اللہ کی امان میں‎

مشرق ہو یا مغرب مجھ سمیت بیشتر والدین اپنی اولاد اور ان کے مستقبل کے حوالے سے بے حد حساس ہوتے ہیں۔ یہ والدین دنیا جہاں کی آسانیاں، خوشیاں، روشنیاں اپنی اولاد کی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اپنی اولاد کے راستے کے کانٹے چن لینا چاہتے ہیں۔ ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔

یہ محبت فطری ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کے دل میں اولاد کی محبت پیدا کی ہے۔ اسی لیے ہم اس اولاد کے لیے شباب کے دن رات قربان کر دیتے ہیں۔ جو اپنی ابتدائی زندگی میں اپنے وجود کو جنبش دینے کے لیے بھی والدین یا دوسروں کی محتاج ہوتی ہے۔ مگر محبت کسی بھی رشتے، تعلق یا شے کی ہو، جب حد سے زیادہ بڑھ جائے۔ تو ایک عذاب کی صورت میں دوسرے پر مسلط ہو جاتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں والدین کی محبت حد سے بڑھ چکی ہے اور اس کے عذاب ہم سب دیکھنے کے ساتھ برداشت بھی کر رہے ہیں۔ آپ اپنے اردگرد دیکھیں والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے لیے اپنی خواہشات کو مار کر مہنگے تعلیمی اداروں میں داخل کرواتے ہیں۔ پھر سمجھیں غریب ہونے کے قریب پہنچ جائیں گے مگر مہنگی تعلیم دلوا کر ہی چھوڑیں گے اور اس کے بعد بچے اعلیٰ نوکری کے خواب کی تعبیر میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔

متوسط طبقے کے والدین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آپ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کو احساس کمتری کے سمندر میں دھکیل رہے ہیں اور ظلم یہ کہ آپ نے اسے تیرنا نہیں سکھایا اور ہاتھ پاؤں بھی باندھ دئیے ہیں۔ تو پھر وہ چیخنے چلانے اور ڈوبنے کے علاؤہ کیا کرے گا؟ وہ اپنے اردگرد کے بظاہر مضبوط مگر کمزور سہاروں کو ہی تلاش کرے گا۔

پچھلے کچھ عرصے سے عجیب و غریب واقعات دیکھنے میں آئے۔ یہ واقعات ہمیشہ سے ہوتے تھے۔ مگر والدین کی سپورٹ اور ہلاشیری کے بغیر۔ مگر اب جو بھی ہوتا ہے ببانگ دہل ہوتا ہے اور والدین کے علم میں لا کر ہوتا ہے۔

کراچی ارمغان قتل کیس ہو یا لاہور ڈانس پارٹی پر چھاپہ ہو۔ آخر کون ہماری نئی نسل کو بے راہ روی کا شکار کر رہا ہے؟ کم عمر بچے بچیاں جب گھر سے نکلتے ہیں تو والدین کو کیوں پتا نہیں چلتا؟ یا شاید مجھ سمیت سب والدین کی آنکھوں پر لاڈ اور پیار کی پٹی بندھی ہے۔

انسانی بچہ پیدا کرنا، پالنا اتنا مشکل نہیں جتنا مشکل اس کی تربیت کرنا ہے۔ اس معاملے میں والدین ہر روز زیرو سے شروع ہوتے ہیں اور دس تک بس ہو جاتی ہے۔ دوسرا دن پھر زیرو سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن جو والدین صرف آسائشیں، آسانیاں دینے کے حامی ہیں ان کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ یہ وہ والدین ہیں جو لاشعوری طور پر اپنی حسرتوں کو اولاد کے زریعے پورا کرتے ہیں۔ یعنی جو ہم نا حاصل کر سکے، اولاد کو دے دیں۔

مگر آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آپ کے والدین نے کامیابی کے لیے جدوجہد سکھائی تھی۔ مگر آپ تو بغیر محنت کے اولاد کو سب کچھ دے رہے ہیں۔ پھر انھیں کیسے قدر ہوگی؟

پھر ٹک ٹاک کیوں نا بنیں؟ ڈانس پارٹیز کیوں نا ہوں؟ ڈرگز کا استعمال کیسے رکے؟ بچے تو بچے ہیں۔ والدین ہی اپنا بچپنا چھوڑ دیں۔ لیڈروں کے نعرے لگا کر اپنے بچوں کو جیل بھجوا کر کون سا مستقبل روشن کیا جا رہا ہے؟ سمجھ سے بالاتر ہے۔

بحیثیت والدہ مکمل ادراک ہے کہ بچوں کی تربیت خاصا مشکل کام ہے۔ مگر یہ کام کرنا ہی پڑے گا کیوں کہ ہم اللہ رب العزت کے سامنے جوابدہ ہیں۔

یاد رکھیں ہم مسلمان ہیں اور اپنی اولاد کو دینی احکامات سکھانا ہمارا فرض ہے۔ ریاست یا کسی اور کا نہیں۔ اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا نور، صد قہ جاریہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ آزمائش بھی کہا گیا ہے۔ تو بس ہر وقت اولاد کو اللہ کی امان دینے کی دعا مانگیں۔

اللہ تعالیٰ مجھ سمیت تمام والدین کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔

Check Also

100 Glass

By Khadija Bari