Thursday, 10 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohaib Rumi
  4. Har Gali Mein Aik Newton

Har Gali Mein Aik Newton

ہر گلی میں ایک نیوٹن

آج کل ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے ماہرین کی ایسی بھرمار ہے کہ لگتا ہے ہر شخص حکیم لقمان سی دانش رکھتا ہے۔ ایک دن میسج آتا ہے کہ دو چمچ شہد میں دار چینی ملا کر کھائیں، ڈینگی بخار غائب اور بس، اگلے ہی لمحے فیملی کے واٹس ایپ گروپ میں سب "ڈاکٹر" بن کہ اس کا مشورہ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تحقیق کا عالم یہ ہے کہ ٹک ٹاک پر تین منٹ کی ویڈیو دیکھ کر ہم فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کون سچا تھا اور کون جھوٹا۔ دوسری طرف برسوں کی محنت سے ڈگریاں لے کر بیٹھے ماہرین سوچ رہے ہیں کہ ہماری تحقیق کہاں گئی؟ خیر ہمیں یہ عجب خوبی عطا ہوئی ہے کہ ہر بات کو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں چاہے وہ سچ ہو یا واٹس ایپ کا جھوٹ اور اسی ہنسی میں شاید ہم نے اپنی عقل کو بھی فارورڈ کر دیا ہے۔

یوں ترقی کے شور میں ہم نے سچ کی آواز کھو دی ہے۔ شیئر بہتر ہے، جانچنا کیوں ہے؟ کے فلسفے نے ہماری عقل پر پردہ ڈال دیا ہے۔ آج کل تو ہر ہاتھ میں موبائل، ہر موبائل میں افلاطون کے شاگرد، سوال یہ ہے کہ یہ سب کس کتب خانے سے پڑھ کر آتے ہیں؟ واٹس ایپ کی یونیورسٹی سے؟ ٹک ٹاک کی لائبریری سے؟ یا پھر ٹوئٹر کے اُس پرانے قہوہ خانے سے جہاں ہر کسی کی چائے میں "حقائق" کی بجائے جذبات کی کڑواہٹ گھول دی جاتی ہے؟ ذرا آنکھ کھول کر دیکھیے کہ آج کل ہر گلی میں ایک نیوٹن بیٹھا ہے جو سیب گرا کر نہیں، فارورڈ شدہ مس انفارمیشن اُٹھا کر کہتا ہے کہ انا الحق، مری مانو میں ہی سچا ہوں۔

اب ذرا اصلی ماہرین اور سوشل میڈیا کے "ماہرین" کا موازنہ کریں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو برسوں کی تحقیق، مطالعے اور تجربات کے بعد کوئی نتیجہ بتاتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے واٹس ایپ بابا ہیں، جن کے پاس ہر مرض کا علاج تین لائنوں میں موجود ہے۔ عوام اس شخص کی بات سن لے گی جو کہے گا کہ ویکسین میں چپ لگی ہے جو آپ کا سارا ڈیٹا امریکی کمپنیوں کو بیچ دے گی بجائے ان سائینسدانوں کہ جو تحقیق کر کرکے بوڑھے ہو گئے۔ ایک طرف وہ لوگ جنہوں نے زندگیاں تحقیق میں گزاریں، دوسری طرف وہ انفلوئنسرز جو راتوں رات ماہر بن کر خواب فروخت کرتے ہیں۔ مگر ہم جانے انجانے ان لوگوں کا شکار بن جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسی باتیں کیوں پھیلتی ہیں؟ اور جواب ایک ہی ہے کہ وہ سنسنی خیز ہوتی ہیں اور ہماری قوم کو سنسنی پسند ہے، چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔ سوشل میڈیا کی الگورتھم بھی کمال کی ہے۔ جو چیز زیادہ لائکس اور شیئرز لے آئے، وہی آگے بڑھتی ہے۔ سوشل میڈیا ایسی چیزوں کو آگے بڑھاتا ہے جو دلچسپ ہوں، نہ کہ جو سچ ہوں۔ نتیجہ یہ کہ ہماری تحقیق واٹس ایپ کے میسجز میں دب گئی اور اصلی ماہرین کی آواز "لائکس" کے شور میں گم ہوگئی اور یوں ہم سب من حیث القوم ایک ایسا معاشرہ بن گئے جہاں وائرل ہونے کا مطلب سچ ہونا ہوگیا۔

ٹوئٹر پر تو حال یہ ہے کہ ہر سیاسی معاملے پر "تھریڈ" چل پڑتی ہے۔ ایک صاحب نے پچاس ٹویٹس میں پاکستان کی معاشی تاریخ لکھ ڈالی۔ پڑھنے والے نے کہا کہ واہ، کیا تجزیہ ہے! مگر ذرا غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ تجزیہ نگار نے معاشیات کا مضمون دسویں جماعت میں بھی نہیں پڑھا۔ مگر کیا ہوا؟ جذباتی جملے، ڈرامائی انداز اور کچھ ایسے اعدادوشمار جن کا تعلق زمین سے زیادہ مریخ سے ہو۔ مگر ہم ہیں کہ سائنسی تحقیق کے لیے تو شک کرتے ہیں، مگر ٹوئٹر کے کسی بھی چارٹ کو "ڈیٹا" سمجھ کر حرفِ آخر مان لیتے ہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے فوری کو معیار پر ترجیح دے دی ہے۔ ایک طرف وہ استاد ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد تاریخ کے زمرے میں کوئی فیصلہ سناتا ہے اور ایک طرف وہ شاگرد ہے جو ٹک ٹاک پر پانچ منٹ میں تاریخِ پاکستان سکھاتا ہے۔ ڈیپ فیک ویڈیو نے مزید آسانی کر دی ہے کہ لوگ فوراً آگ بگولہ ہو جاتے ہیں، ٹوئٹر پہ ٹرینڈ چل جاتے ہیں مگر بعد میں پتا چلتا ہے کہ ویڈیو میں چہرہ تو اصلی تھا، مگر آواز کسی ڈرامے کی تھی۔ کئی واقعات آپ کے سامنے ہوئے جس میں کئی جانیں ضائع ہوئیں مگر کسی کے کان پہ جوں نہ رینگی کیونکہ ہم تو ہر بات پہ پہلی دفعہ سن کر ہی ایمان لے آتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ اصلی ماہر کی بات میں وزن ہوتا ہے، کیونکہ وہ تجربات اور مطالعے پر مبنی ہوتی ہے اور ہم ٹھہرے بس تین لائنوں والے نسخوں کے پیچھے بھاگنے والے۔ ہماری قوم کا مزاج ہی الگ ہے۔ واٹس ایپ پر جھوٹ آئے تو ہنسیں گے، ٹک ٹاک پر عجیب نسخہ دیکھیں تو آزمائیں گے اور ٹویٹر پر بحث چھڑے تو کود پڑیں گے۔ ہماری تحقیق کہاں گئی؟ وہ تو واٹس ایپ کے میسجز میں دب گئی، ٹک ٹاک کی ویڈیوز میں گم ہوگئی اور ٹویٹر کے 280 حروف میں سمٹ گئی۔ ہم نے تحقیق کی عادت کو بورنگ سمجھ لیا ہے۔ کیوں پڑھیں کتب؟ جب ایک ریئلز ویڈیو میں ماہر پانچ منٹ میں سب کچھ سمجھا دے؟ واٹس ایپ پر گڈ مارننگ کے میسجز اور یہ پیغام پانچ لوگوں کو فارورڈ کرو کے درمیان ہمارا دماغ ماؤف ہو چکا ہے۔

لہٰذا علم کی کشتی کو جھوٹ کے سمندر میں ڈوبنے سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے سوچنے کی عادت۔ واٹس ایپ کے ہر پیغام کو شیئر کرنے سے پہلے اُس پر ایک نظر اپنی عقل کی روشنی میں ڈالیے۔ ٹک ٹاک کے ہر گُر کو آزمانے سے پہلے حقیقی ماہرین کی سنیں اور سوشل میڈیا کے جھانسوں سے نکل کر اپنی عقل کو جگائیں۔ فارورڈ سے پہلے گوگل کرنا سیکھ لیں اور اس "انفارمیشن ایج" میں "مِس انفارمیشن" کا شکار ہونے کے بجائے بس ایک گزارش ہے کہ جب بھی کوئی فارورڈ پڑھیں، اپنے دماغ کا فیکٹ چیک آن کر لیں۔

Check Also

Trump Tariff Ke Asraat

By Hameed Ullah Bhatti