Punjab Ki Awam Aur Hukumran Tabqa e Ashrafiya
پنجاب کی عوام اور حکمران طبقہ اشرافیہ

برطانوی سامراج کی کینالائزیشن اور کالونائزیشن (دریاؤں سے نئی نہریں نکالنا، لاکھوں ایکٹر رقبے کو قابل کاشت بنانا، نئے چکوک آباد کرنا، نئے قصبے اور ٹاونز آباد کرنا جس کی سب سے بڑی مثال برٹش پنجاب میں 1885ء سے 1922ء تک مغربی پنجاب میں جو آج پاکستان کہلاتا ہے اور اس کی چھے باروں یعنی دریا سے ملحقہ جنگلات، صحرا اور بنجر علاقوں میں نہریں نکال کر نئی کالونیاں بنانے کا نظام ہے جس پر ڈاکٹر عمران علی کا ایک تھسیس زبردست روشنی ڈالتا ہے) نے برٹش پنجاب اور برٹش سندھ کے درمیان پانی کی تقسیم کے تنازع کی بنیاد رکھی کیونکہ مرکزی برٹش ہند حکومت نے پہلے دن سے جیسے اپنے کینالائزیشن و کالونائزیشن میں آبادکاری کے عمل کے دوران انڈیجنس اور settler کا فرق روا نہ رکھا، ایسے ہی اس نے دریا کے بالائی حصہ پر رہنے والے upper riparian اور زیریں حصے پر رہنے والوں Lower Riparian کا تعین نہ کیا۔
برٹش سامراج نے ہندوستان پر قبضے کے بعد مغلوں کے منصب داری بندوبست اراضی کے نظام کی جگہ جو نیا بندوبست اراضی سسٹم رائج کیا تھا اس نے ہندوستان بھر میں پہلی بار جاگیرداروں، نوابوں، تعلقہ داروں، خوانین، سرداروں کا ایک دیہی طبقہ اشرافیہ پیدا کردیا تھا جبکہ اس نے کینالائزیشن و کالونائزیشن کے دوران نئے قابل کاشت اراضی کی تقسیم میں خود اپنے تئیں کاشتکار اور غیر کاشتکار کی ایک تقسیم کی جس نے دیہی علاقوں میں بے زمین کسانوں، نچلی جاتی اور کمتر پیشے سمجھے جانے والوں سے وابستہ کروڑوں دیہی غریبوں کو نئی قابل کاشت زمینوں کو لیز پہ لینے یا ان کی الاٹمنٹ سے محروم کردیا۔
دوسرا اس نے نئی زمینوں کی تقسیم میں فوج اور سول افسر شاہی کو بھی حصہ دار بنایا یوں زمیندار اشرافیہ کے ساتھ ساتھ اس نے ایک اور پرت مراعات یافتہ درمیانے اور بڑے زرعی قطعات کے مالکان کی پیدا کی جن کی اکثریت زمیندار اشرافیہ کی طرح غیرحاضر زمینداروں کی تھی۔ برطانوی سامراج نے ریلوے، ٹیلی گراف، ایری گیشن، کنٹونمنٹ فوجی چھاؤنیوں کی تعمیر کے دوران بھی بہت بڑی مقامی دیہی آبادی کو بے دخل کیا۔ اس مجموعی سوشل انجنئیرنگ کے اندر وہ سارے تضادات چھپے ہوئے تھے جو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد نوآبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے سبب قومیتی تضادات کی شکل میں سامنے آئے۔
اگر ہم برطانوی دور کی فوجی اور سول افسر شاہی کے ڈھانچے کو دیکھیں تو وہ برطانوی سامراج کے دور سے ہی ایتھنک /نسلیاتی ثقافتی عدم برابری کا شکار تھی۔ رائل برٹش آرمی کا 52 فیصد بندوبست پنجاب سے تعلق رکھتا تھا اور وہ بھی چند مخصوص اضلاع سے۔ جب یہ پاکستان آرمی بنی تو یہ تناسب ایتھنک اعتبار سے اور زیادہ شدید عدم توازن کا شکار ہوگیا جس میں آج کے بلوچستان، سندھ، سرائیکی بیلٹ اور بنگالیوں کا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں تھا اور اب بھی اس میں کوئی بڑا فرق نہیں پڑا۔ جبکہ کے پی کے میں رنگروٹ اور نان کمیشنڈ افسران کم از کم نمک جتنے تھے۔
پشتون اور ہزارہ بیلٹ کی نمائندگی ایوب خان کے دس سالہ دور میں کافی حد تک بڑھی اور اس میں بھی کچھ خاص قبائل جیسے خٹک ہیں ان کا تناسب زیادہ تھا۔ جبکہ سول افسر شاہی میں آغاز کار میں سب سے زیادہ یو پی، سی پی سے تعلق رکھنے والے اردو اسپیکنگ مہاجر پھر پنجابی زیادہ تھے لیکن جب غلام محمد گورنر جنرل بنے تو پنجابی ایتھنسٹی سے تعلق رکھنے والے پنجابی بیوروکریٹس غالب اور بالادست ایتھنک گروپ کی شکل میں سامنے آئے اور مہاجر بیوروکریٹ جونیئر شراکت دار بن گئے۔ ایوب خان کے فیلڈ مارشل بننے سے پہلے ریاستی ڈھانچے میں سویلین بیوروکریسی بالادست گروہ تھی لیکن ایوب خان کے مارشل لاء نے اسے الٹ کردیا اب فوجی افسر شاہی غالب اور بالادست گروہ بنی اور اس عمل نے فوجی اور سول افسر شاہی میں پنجابی ایتھنسٹی کو سب سے بڑا اور بالادست گروہ بنادیا۔
اگر پاکستان میں سرمایہ داری کے ارتقاء پر نظر ڈالی جائے تو ابتداء میں اس میں ریاست نے 12 کے قریب سرمایہ داروں کو پاکستان میں جنم لینے والے مالیاتی، صعنتی سرمایہ کی پیدائش اور اس کی بڑھوتری اور اجارہ داری میں مدد فراہم کی اور یہ 12 کے قریب خاندان زیادہ تر گجراتی، چینوٹی، آغاخانی، کھوجہ، میمن، بوہرہ تھے جو ایوب کے زمانے میں پھیل کر 22 خاندان ہوئے جن میں چند ایک ہزارہ اور پشتون بیلٹ سے بھی تھے جبکہ درمیانے درجے کے سرمایہ داروں کا تعلق زیادہ تر پنجاب کے مہاجروں سے تھا۔
اس زمانے میں صعنتی انفراسٹرکچر زیادہ تر کراچی تک محدود رہا پنجاب کی طرف اس انفراسٹرکچر میں ترقی تیزی سے جنرل ضیاع الحق کے زمانے میں دیکھنے کو ملی۔ اس طرح سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کا فوجی، سول نوکرشاہی کا ڈھانچہ ہو یا سرمایہ داری کا ڈھانچہ ہو وہ ایتھنک اعتبار سے شدید عدم توازن کا شکار تھا اور ہے۔ اس عدم توازن کے جواز اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ریاست پہلے دن سے ملک کی کثیرالثقافتی، کثیراللسانی، کثیرالقومیتی شناختوں کا نہ صرف انکار کرتی رہی بلکہ وہ ان شناختوں پر اصرار کرنے والوں کے خلاف زبردست ریاستی جبر سے بھی کام لیتی رہی۔
ریاست کا پہلے دن سے جو سرمایہ دارانہ ترقی کا ماڈل ہے وہ صرف سامراجی، استحصال پر مبنی نہیں ہے بلکہ وہ زبردست قومیتی جبر پر بھی مبنی ہے۔ یہ اپنی ساخت اور میکنزم کے اعتبار سے نوآبادیاتی بھی ہے جو بنگالیوں، سندھیوں، پشتونوں، بلوچوں، سرائیکیوں، کشمیریوں اور گلگتی بلتستانیوں کو کالونائزڈ باشندے بناتا ہے اور جو ترقی کے اس نوآبادیاتی پیراڈائم کو چیلنج کرے اسے وہ ریاست دشمن، ملک دشمن اور غدار کہتا ہے۔
بلوچستان اس وقت پاکستان کا سب سے زیادہ قومیتی، ایتھنک جبر کا شکار خطہ ہے اور سب سے زیادہ مجبور و محکوم و مظلوم نوآبادیاتی علاقہ ہے جہاں ریاستی جبر ننگا، بربریت اور خون آشامی پر مبنی ہے اس کی ایک وجہ تو سی پیک جیسا منصوبہ ہے دوسرا اس خطے کی سٹریٹجک اور اس خطے کے بے پناہ معدنی وسائل ہیں جن پر پاکستان کی شدید ایتھنک عدم توازن کا شکار مشکل سے دو فیصد حکمران اشرافیہ اور فوجی-سول افسر شاہی کا قبضہ ہے اور یہ جو جنگ اور مارا ماری، 40 ہزار بلوچ باشندوں کی جبری گمشدگی ہے یہ اس قبضے کو برقرار رکھنے اور اس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو مغلوب کرنے کی جنگ اور مارا ماری ہے۔
بندوبست پنجاب کے عوام ہوں یا پھر مشکل سے 26 فیصد پاکستانی اربن علاقوں کی آبادی کی اکثریت ہو انھیں اس نام نہاد ترقی کے پیراڈائم میں آٹے میں نمک کے برابر بھی وصول نہیں ہورہا۔ پنجاب کی 93 فیصد ورک فورس نجی شعبہ میں کام کرتی ہے جس کی اکثریت کم از کم تنخواہ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق تنخواہ بھی نہیں پاتی جبکہ اس 93 فیصد میں سے 67 فیصد کے پاس اپنا ذاتی گھر تک نہیں ہے۔ جبکہ دیہی آبادی میں چھوٹے کسانوں کے پاس کل زرعی رقبے کا مشکل سے 10 فیصد ہے جبکہ 90 میں سے 32 فیصد متوسط طبقے کے کسانوں کے پاس جبکہ 58 فیصد بڑے زمینداروں کے پاس ہے اور 32 فیصد متوسط طبقے میں بھی فوجی اور سول افسران کے پاس ایک اندازے کے مطابق 20 فیصد سے زائد رقبہ ہے۔
کارپوریٹ فارمنگ جو فوجی کمپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ مل کر کرنے جارہی ہے یہ پنجاب کے چھوٹے کسانوں اور صدیوں سے ملکیت کے بغیر کاشت کرنے والے مزارعوں کے پاس موجود 10 فیصد اور خود سویلین متوسط کسان طبقے طبقے کے پاس موجود 20 فیصد رقبہ میں سے بھی چھین لے گی یا انھیں اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور کرے گی اور یوں پورا امکان ہے کہ شدید ایتھنک عدم توازن کا شکار فوجی افسر شاہی پنجاب میں کل قابل رقبے کی 42 فیصد کی مالک بنے اور اس میں وہ مقامی بڑے سرمایہ داروں اور غیرملکی سرمایہ داروں کو بھی شامل کرے گی۔
بندوبست پنجاب میں پھر سب سے زیادہ محروم دیہی آبادی وہ ہوگی جو سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھتی ہے چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ بندوبست پنجاب کے محنت کش طبقات، شہری اور دیہی غریب آبادی کے لیے حکمران اشرافیہ اور سول و فوجی افسر شاہی کے پاس دینے کے لئے سوائے استحصال، غریبی، بھک مری، ننگ، افلاس اور بے روزگاری ہے وہ ان سب خوفناک حقائق کو پنجابی شاونزم، پاکستانی نیشنلسٹ شاونزم، اسلام، وفاق پاکستان کے کھوکھلے بیانیوں کے پیچھے چھپانا چاہتی ہے۔ وہ ہر قیمت پر کوشش کرتی ہے کہ پنجاب کے عوام اس شدید عدم توازن کے شکار نظام کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں۔
نوجوان پنجابیوں اور سرائیکی غریبوں کے ایک سیکشن کو انھوں نے عسکری اور سول سیکورٹی اداروں میں پیدا سپاہی بھرتی ہونے کے لیے چن رکھا ہے جن کو یہ اس عدم توازن کے شکار سسٹم کو بچانے کے لیے جنگ میں جھونک دیتے ہیں اور ان کے گھر والے پھر ان کی لاشیں وصول کرتے ہیں جبکہ کروڑوں نوجوانوں کے لیے کسی اور شعبے میں دینے کے لئے نہ ان کے پاس نوکریاں ہیں نہ بیروزگاری الاونس۔۔
پنجاب کے عوام اس سسٹم کے بینفشری نہیں بلکہ متاثرہ ہیں انھیں جلد بدیر یہ سمجھ آجائے گی۔ ایک دن آئے گا جب تاج اچھالے جائیں گے، تب تخت گرائیں جائیں اور اہل حکم پہ بجلی کڑکڑ کڑے گی اور پھر اہل صفا مردود حرم مسند پی بٹھائیں جائیں اور راج کرے گی خلق خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔۔ آئیں ہم خود کو پہچانیں کہ ہمارا شمار عوام میں ہے یا حکمران اشرافیہ، فوجی افسر شاہی و سول افسر شاہی میں اور آپ طبقے کی جنگ لڑنے سے انکار کریں جس کا عوام میں شمار نہیں۔