Masail e Mushkila Ka Hal Aur Hazrat Ali Ki Hazir Jawabi (4)
مسائلِ مشکلہ کا حل اور حضرت علیؑ کی حاضر جوابی (4)
علی متقی کنز العمال جلد سوم میں روایت کرتے ہیں کہ خالد بن ولید نے حضرت ابوبکر کو خط لکھا کہ عرب کے کچھ قبائل کے مرد مردوں سے نکاح کر رہے ہیں، جس طرح عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے، یعنی اغلام واقع ہو رہا ہے۔
یہ خط جب حضرت ابوبکر کو ملا تو انہوں نے اصحابِ رسولﷺ کو ایک مقام پر جمع کیا اور ان سے اس مسئلے کے فیصلے کے بارے میں مشورہ لیا۔ ان اصحاب میں امیرالمومنین مولا علیؑ بھی موجود تھے۔ جب حضرت ابوبکرنے آپ سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو آپ نے فرمایا:
"یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ ایک قوم اس گناہ کی مرتکب ہوئی تھی، خداوندِ عالم نے ان پر عذاب نازل کر دیاتھا۔ لہٰذا اس مسئلے کا فیصلہ یہ ہے کہ اس جرم کا مرتکب ہونے والے افراد کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے"۔
حضرت ابوبکرنے یہ فیصلہ سن کے اسی وقت حکم دیا کہ جو کوئی اس گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو اسے زندہ آگ میں جلا دیا جائے۔
حضرت عمر کے دربار میں ایک غلام کو پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ اس نے اپنے آقا کو قتل کر دیا ہے۔ حضرت عمر نے حکم دیا کہ اس کو لے جا کر اسکی گردن اڑا دو۔
حضرت علی بھی وہاں موجود تھے۔ آپ نے غلام کو بلایا اور اس سے دریافت کیا کہ کیا تو نے اپنے آقا کو قتل کیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔
حضرت نے فرمایا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ کہا وہ مجھ پر تجاوز کرنا چاہتا تھا لہٰذا میں مجبور ہوگیا۔
حضرت نے فرمایا کیا مقتول کو دفن کر دیا گیا ہے؟ لوگوں نے کہا جی ہاں اسے سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔
مولاعلی نے حضرت عمر سے کہا: غلام کو تین دن تک محبوس رکھو اور اسے کچھ نہ کہو پھر مقتول کے وُرَثا سے فرمایا: تین دن کے بعد میرے پاس آنا۔
تین دن کے بعد، آپ حضرت عمر اور اصحاب کو لے کر میّت کے وُرَثا کے ہمراہ مقتول کی قبر پر آئے۔ حضرت نے نَبشِ قبر کا حکم دیا، قبر کھولی گئی۔
فرمایا: میّت کو باہر نکالو، قبر کے اندر جیسے نگاہ کی، کیا دیکھا کہ میّت قبر میں نہیں ہے۔
حضرت نے بآوازِ بلند کہا: اللہ اکبر! اللہ اکبر! نہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا، نہ میں نے جھوٹ سنا۔ بے شک میں نے پیغمبرِ اکرمﷺ سے سنا، انہوں نے فرمایا: جو بھی قومِ لوط کا فعل انجام دیتا ہے اور بنا توبہ کیے اسی عادت پر مر جائے تو زمین تین دن کے بعد اسے نیچے لے جاتی ہے تاکہ ہلاک ہونے والی قومِ لوط کے ساتھ ملحق کر دے، یہ شخص اسی قوم کے ساتھ محشور ہوگا۔ اس طرح وہ غلام سچا ثابت ہوا اور قصاص سے بچ گیا۔
صاحبِ ناسخ التواریخ حالاتِ امیرالمومنین میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص کا بیٹا قتل ہوگیا۔ مقتول کا باپ قاتل کو پکڑ کر حضرت عمر کے پاس لایا۔ حضرت عمر نے اس قاتل کو سزائے موت کا حکم دیا۔ مقتول کے باپ نے تلوار کے دو وار کیے اور اُسے یقین ہوگیا کہ قاتل اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ لیکن قاتل کے جسم میں ابھی رمقِ جان باقی تھی۔ اس کے وارث اسے گھر لے گئے اور اس کی جان بچانے کے لیے اُنہوں نے علاج شروع کر دیا۔
قُدرت خدا کی کہ چھ ماہ کے عرصہ میں وہ بلکل ٹھیک ہوگیا۔ ایک دن وہ اپنے گھر سے باہر آیا تو مقتول کا باپ اسے بازار میں مل گیا۔ وہ اسے گریبان سے پکڑ کر پھر حضرت عمر کے پاس لے آیا۔ حضرت عمر نے دوسری بار اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔
وہ شخص مولا علی کے پاس فریاد لے کر حاضر ہوا۔ جنابِ امیر نے حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں کیا حکم دیا ہے؟
حضرت عمر نے کہا: اے ابوالحسن! " اَلَّنفسُ بالنَّفسِ: قتل کا بدلہ قتل"۔
حضرت علی نے فرمایا: کیا آپ اس کو قتل نہیں کرا چکے؟
حضرت عم نے کہا: میں نے اسے قتل تو کرایا تھا لیکن وہ زندہ رہا۔
مولا علی نے فرمایا: کیا اب اسے دوبارہ قتل کرنا چاہتے ہیں؟
حضرت عمر اس وقت خاموش رہے۔
جنابِ امیر نے مقتول کے باپ سے پوچھا: کیا تو نے اس شخص کو قتل نہیں کیا تھا؟
اس نے جواب دیا: یا امیر! میں نے اسے قتل تو کر دیا تھا۔ اب آپ ہی فرمائیے کی کیا میرے بیٹے کا خون باطل ہوگیا ہے؟
مولا علی نے فرمایا: نہیں، تمہارے بیٹے کا خون باطل نہیں ہوا ہے۔ مگر اب انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ تجھے اس شخص کے حوالے کر دیا جائے تا کہ وہ تجھ سے پہلے اس کا قصاص لے جو تو اس پر تلوار کے دو وار کر چکا ہے، پھر اس کو اپنے بیٹے کے قصاص میں قتل کر دینا۔ اس شخص نے عرض کی۔
یا ابوالحسن! یہ قصاص تو موت سے بدتر ہے، میں نے اسے معاف کیا۔
حضرت عمر نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا: الحمدللہ آپ اہلِ رحمت ہیں اور پھر کہا: اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
روایت میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر کے سامنے ایک مرد کو لایا گیا جس سے چند اشخاص نے دریافت کیاکہ تم نے صبح کیسے کی؟ تو اس نے کہا تھا: میں نے اس حال میں صبح کی کہ فتنے کو پسند کرتا ہوں، حق سے کراہت و بیزاری رکھتا ہوں، یہود و نصاریٰ کی تصدیق و تائِید کرتا ہوں، جسے دیکھا نہیں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور جو ابھی خلق نہیں ہوئی اس کا اقرار کرتا ہوں۔
حضرت عمر نے اس مشکل سے نمٹنے کے لیے مولا علی سے رجوع کیا۔
حضرت علی آئے اور گفتگو سن کر فرمایا: یہ شخص ٹھیک کہ رہا ہے۔ اس کا مقصد فتنہ سے اموال و اولاد ہے کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے: "اِنّما اَموالُکُم و اَولادُکُم فِتنَۃ: بے شک تمہارے اموال اور اولا فتنہ اور ذریعہِ آزمائش ہیں"۔
حق سے مراد موت ہے جس سے بیزار ہے۔ موت برحق ہے جس میں کوئی تردید نہیں، یہود و نصاریٰ کی تصدیق سے مراد ان کے کلام کی تصدیق ہے جسے قرآن نے اس طرح نقل کیا ہے:
"یہودی کہتے ہیں: نصاریٰ کچھ بھی نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں: یہودی کچھ بھی نہیں"۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر113)
اور قیامت جو ابھی وجود میں نہیں آئی اس کا اقرار کرتا ہے۔
حضرت عمر نے مشکل کے حل ہونے پر اور مولا کی گفتگو سن کر کہا: "خدا کی پناہ چاہتا ہوں اس مشکل سے جسے حل کرنے کے لیے علی نہ ہوں"۔
ایک دن حضرت عمر کے سامنے کعبہ کے زیورات کے بارے میں گفتگو چھیڑ دی گئی اور بعض لوگوں نے حضرت عمر سے کہا: خانہ کعبہ کو زیورات کی کیا ضرورت؟ اگر انہیں آپ سپاہِ اسلام میں تقسیم کر دیجیے تو بہتر ہوگا۔ حضرت عمر بھی اس پیشکش پر عمل درآمد کرنے کی فکر میں لگ گئے اور انہوں نے امیرالمومنین سے رجوع کیا کہ آپ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
حضرت نے اس بارے میں فرمایا: قرآن رسولِ خدا پر نازل ہوا اور اس نے اموال کی چار قسمیں بیان کی ہیں:
1۔ اموالِ مسلمین، جو بذریعہ ارث ان تک پہنچتا ہے۔
2۔ فئے، جو مخصوص مسلمین کا حق ہے۔
3۔ خُمس، جس کا مصرف خدا نے مشخّص کر دیا ہے۔
4۔ صدقات، جن کا مصرف بھی مشخّص و معیّن ہے۔
خداوندِ کریم نے کعبہ کے زیورات کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا اور یقیناً ایسا ازروئے فراموشی نہیں کیا۔ تم بھی خدا و رسول کی طرح کعبہ کے اموال کی جانب اپنے ہاتھ دراز مت کرو۔ حضرت عمر نے حضرت کی راہنمائی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے کہا:
"لَولاکَ لا فَتَضحنا، اگر آپ نہ ہوتے تو ہم رسوا ہو جاتے"۔