Thursday, 24 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hafiz Safwan
  4. Das Kapital Aur Parhi Likhi Aurton Se Ishq

Das Kapital Aur Parhi Likhi Aurton Se Ishq

داس کیپیٹل اور پڑھی لکھی عورتوں سے عشق

آج ملتان میں شاکر بھائی سے ملا۔ چند منٹ کی گفتگو میں اُنھوں نے "سن رہی ہو ناں؟" کا ذکر چھیڑ دیا۔ اُن کی بات کا سبھاؤ ایسا تھا کہ پڑھی لکھی عورتوں سے عشق کی ٹیس پرانی چوٹ کی طرح تازہ ہوگئی۔ یہ چوٹ 1988ء میں اُس وقت لگی تھی جب میں تبلیغی جماعت کے ساتھ چار مہینے لگانے نکلا تھا۔

اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تبلیغ کے ساتھ چار مہینے تو پورے نہ ہوسکے تھے لیکن جو چیز پوری ہوگئی وہ داس کیپیٹل تھی۔ یہ کتاب میں نے اِس لیے مکمل کرلی کہ جماعت کی تشکیل اندرونِ سندھ کے علاقوں میں تھی جہاں وقت ہی وقت مہیا تھا۔ ابا جان کی دی ہوئی اِس کتاب پر میں نے مومی کاغذ کا گردپوش چڑھا رکھا تھا جس کے نیچے خاکی کاغذ تھا۔ یوں کتاب کا ٹائٹل نظر نہیں آتا تھا۔ اَن پڑھ پٹھان امیر صاحب میری اِس بات پر یقین رکھتے تھے کہ میں جس موٹی سی کتاب کو پڑھتا رہتا ہوں وہ فضائلِ اعمال کا انگریزی ترجمہ ہے۔ پٹھانوں کی اِس جماعت میں ہم صرف دو پڑھے لکھے پنجابی لڑکے تھے۔ دوسرا لڑکا آج پنجاب کی ایک بڑی تعلیمی انڈسٹری کا بانی ہے۔

کارل مارکس نے برلن یونیورسٹی کے دور کے نوٹس کی کاپیوں میں کئی عشقیہ گیت لکھے ہوئے ہیں۔ یہ گیت اُس نے اپنی منگیتر کی یاد میں لکھے تھے جو فان ویسٹ فیلن جیسے پڑھے لکھے جرمن سٹیٹسمین کی بیٹی تھی۔ یہ واقعہ مجھے اِس تبلیغی سفر میں معلوم ہوا تھا۔

کارل مارکس کی یہ عشقیہ وارداتِ قلب معلوم ہونے سے دو سال پہلے ایف ایس سی میں میں نے ابا جان سے اردو پڑھی تھی۔ میری اُن کاپیوں میں اُس لڑکی کے لیے عشقیہ شعر لکھے ہیں جو اُن دنوں زیرِ عشق تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مشقِ عشق جاری رہی۔ نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کرنے کے حکم کی تعمیل میں ایم ایس سی کے دنوں میں بھی ایک کلاس فیلو سے افلاطونی عشق ہوا۔ اُس کی یاد میں تو والٹ وھٹمین کی انگریزی شاعری تک چوری کرکے اُسے سامنے بٹھاکر مشاعرے میں سنائی۔ یہ مشاعرہ زکریا یونیورسٹی میں ڈاکٹر نجیب جمال نے کرایا تھا۔ میں اُن کا تمام عمر شکرگزار رہوں گا کہ اُنھوں نے مجھے یہ نظم سنانے کا موقع دیا۔ آج جو لڑکے لڑکیاں اساتذہ کے بھولپن سے فائدہ اٹھاکر پھولے نہیں سماتے وہ میری یہ مثال پلے باندھ لیں اور داد دیں کہ حافظ صفوان نے اُن کے استادوں کے بھی استادوں کے ساتھ کیسا کیسا استادی ہاتھ کر رکھا ہے۔

کارل مارکس کی اتباع میں ورک بک پر عشقیہ شاعری لکھنے کی میری مشق آج بھی جاری ہے۔ آج میں یہ شاعری فیسبک کی کاپی پر لکھتا ہوں جسے دور نزدیک کی دنیا پڑھتی رہتی ہے۔ نہیں سنتی تو وہ سادھارن بھاگوان جسے سنانے کے لیے یہ عرض معروض گنڈے دار جاری ہے۔ کبھی تو اُس کا دل پسیجے گا۔

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار؟
پھول جنگل میں کھلے "جن" کے لیے!

تاہم یاد رہے کہ کارل مارکس کی اتباع میں لکھی گئی یہ عشقیہ شاعری بھی، اُسی کی طرح، انتہائی پڑھی لکھی عورتوں کے لیے رہی ہے۔ ایف ایس سی کے دنوں میں نشانۂ شاعری بننے والی لڑکی آج برکلے یونیورسٹی میں اور ایم ایس سی کی کلاس فیلو آج میکگِل یونیورسٹی میں پروفیسرنیاں ہیں اور جو آج کل سن کے نہیں دے رہی وہ، سبھی جانتے ہیں کہ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں ڈین اور صدرِ شعبہ ہے۔ القصہ اِس ناچیز نے جس بھی لڑکی سے عشق کیا وہ پی ایچ ڈی کر گئی اور یونیورسٹی پروفیسر ہوگئی۔

تو پیارے بچو، نتیجہ آج کی کہانی اور کارل مارکس کا مردہ خراب کرنے کا یہ نکلا کہ حافظ صفوان نے کارل مارکس کی سنت پر چلتے ہوئے عشق بھی صرف پڑھی لکھی لڑکیوں سے کیا ہے اور عشقیہ شاعری بھی ایضًا صرف اُنہی کے لیے پیلی ہے۔ عباراتِ اکابر کا دفاع اور مسلکِ اکابر کی پیروی اِسی کو کہتے ہیں۔ ایں کار از تو آید۔

Check Also

Shohar Muhabbat Nahi Karta?

By Amer Abbas