Boycott (2)
بائیکاٹ (2)

یہ لفظ بائیکاٹ میں اس وقت سے سن رہا ہوں جب غالباََ 9/11 کے بعد امریکا افغانستان داخل ہوا تو ہمارے ہاں بہت غلغلہ مچا، حتی کہ کراچی میں ہمارے ایک قریبی رشتے دار جو خاصے معاشی حیثیت میں مضبوط تھے، ان کے ایک صاحبزادے مذہبی رجحان رکھتے تھے انہوں نے اپنا ایک بزنس لپیٹ کر سافٹ ڈرنک کی ایک لوکل برانڈ کی جو تازہ مارکیٹ میں وارد ہوئی تھیں، اس کی فرینچائز خاصی بڑی رقم کے عوض کراچی کے لئے لے لی تھی، شائد مکہ کولا یا زمزم کولا ٹائپ کا کچھ نام تھا۔
اس وقت بھی ایمانی حرارت والوں نے اپنی کافی پروڈکٹ مارکٹ میں لانے کی کوشش کی تھی، مگر شومئی قسمت ان کے ناقص معیار، گھٹیا مارکیٹنگ پالیسی اور منافع کی زیادہ شرح کی وجہ سے وہ تمام پروڈکٹس چند سالوں میں ختم ہوگئیں، پھر کچھ عرصہ اس معاملے میں خاموشی رہی، پھر کچھ عرصے کے بعد ہالینڈ اور ڈنمارک سے گستاخانہ خاکوں والا معاملہ ہوا تب ہمارے لوگوں نے ہنگامہ مچا کر اپنی ہی کئی دیسی پروڈکٹس کو زبردستی ہالینڈ اور ڈنمارک کے کھاتے میں ڈال کر ان کا بائیکاٹ کرنا شروع کر دیا۔
مجھے تو بنیادی طور پر یہی بات سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں پیپسی یونی لیور اور اس طرح کے جتنے بھی برینڈز ہیں ہمارے پاس تو مقامی تاجروں نے ان کی رائلٹی ہے ان کے برانڈ نیم لیا ہوا ہے، ان کی ساری پروڈکشن فیکٹریاں، سیلزآفس، وئیر ہاؤسز، ان سے وابستہ لاکھوں پاکستانیوں کا روزگار، ان میں استعمال ہونے والی لاجسٹک ہر چیز تو مقامی ہے، اس کے ذریعے کمانے والے سارے مقامی پاکستانی لوگ ہی ہیں، پھر ان پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرنے کی کوئی اصولی منطق سمجھ نہیں آتی، خصوصا گھریلو مصارف میں استعمال ہونے والی اشیاء اور کھانے پینے والا جتنا بھی پروڈکٹ ہے وہ زیادہ تر لوکل ہی بنتا ہے وہ کسی بھی صورت میں یورپ سے نہیں آتا، امریکہ سے بھی نہیں آتا اسرائیل سے تو آنے کا خیال بھی بالکل ممکن نہیں ہے، پھر بھی یہ پتہ نہیں کیوں اپنے ہی لوگوں کی روزی روٹی سے دشمنی کرنے والے کون لوگ ہیں؟
پھر فرانس کا معاملہ ہوا تب بھی ہر روز بائیکاٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا، کئی دفعہ دوستوں کو سمجھایا کہ بھائی ہماری عام عوام میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ فرانسیسی ڈیری پروڈکٹس، چاکلیٹس یا پرفیوم خرید سکیں، فرانسیسی پرفیوم پاکستان میں شاید ہی کوئی دو چار مخصوص دکاندار منگواتے ہوں گے اور وہ بھی مخصوص ایلیٹ کلاس وہ پرفیوم خریدتی ہے، جن کی قیمت ہلکے سے ہلکے پرفیوم کی بھی کسی بھی صورت 70 اور 80 ہزار روپے پاکستانی سے کم نہیں ہو سکتی، پاکستان میں اتنے مہنگے امپورٹڈ پرفیوم کی عام عوام میں کوئی گنجائش نہیں بنتی اسی طرح سے ڈیری پروڈکٹ مزید دوسرے کھانے پینے کی اشیاء جام جیلیز، یا ان کی تیار کردہ کولڈ ڈرنکس یا جوسز ہمارے ہاں بالکل نہیں آتے، اگر آتے بھی ہیں تو وہی خاص ایلیٹ کلاس کے لیے ہی آتے ہیں، عام شہری کی تو طاقت میں یہاں کی لوکل پروڈکٹس بھی بمشکل سے استمعال میں لانے کی طاقت ہوتی ہے۔
اب اسرائیل کے نام پر ہمارے ہاں جو لوگ جن پروڈکٹس کا نام لکھ رہے ہیں ان میں سے 99 فیصد تو ہماری مقامی پروڈکشن ہی ہیں، ان بے وقوفوں نے تو یہ کمال تک کیا ہوا ہے کہ جو لسٹیں یہ لوگ وائرل کرتے ہیں، اس میں اماراتی اور سعودی پروڈکٹس کا بھی نام لکھا ہوا ہے جو خالصتا عرب ملکوں کی پروڈکٹس ہیں، پاگلوں کی طرح اپنے ایمان کی حرارت دکھانے کے لیے اسے شیئر کر رہے ہیں لوگوں کو ابھار رہے ہیں، حتی کہ کے ایف سی اور میکڈونلڈ جیسے آؤٹ لیٹس بھی مقامی لوگوں کی سرمایہ کاری ہی ہے، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ انہیں نہیں سپورٹ کرنا چاہتے تو بالکل وہاں سے خریداری مت کریں، مگر ان کو جلانا اور اپنے ہی لوگوں کی روزگار کے پیچھے لگنا یہ کہاں کا انصاف ہے؟
یہ کیسے باولے ہیں یہ کبھی مرغی والوں کے بائیکاٹ کرنے کا کہتے ہیں کبھی پھل فروش کے پیچھے لگ جاتے ہیں، کبھی چینی نہ خریدنے کا مشورہ دیتے ہیں، پاکستان میں بکنے والی عام ضرورت کی اشیاء جو عام جنرل سٹور پر ملتی ہے وہ کسی بھی صورت کسی بھی ملک سے نہیں اتی وہ لوکل پروڈکشن نہیں ہوتی ہے اتنی سی بنیادی بات ہمارے ان بے وقوف لوگوں کو کیوں سمجھ نہیں آتی ہے کہ آپ کے اس گھٹیا طرز عمل سے اسرائیل کا تو کچھ نہیں ہونے والا صرف آپ کے اپنے ملک کے لوگوں کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔

