Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. Gilgit Baltistan Ke Madani Wasail

Gilgit Baltistan Ke Madani Wasail

گلگت بلتستان کے معدنی وسائل

گلگت بلتستان کی سنگلاخ وادیوں اور فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں چھپی معدنی دولت، ایک طرف قدرت کی فیاضی کی علامت ہے تو دوسری طرف ایک فکری اور سیاسی سوال بھی۔۔ یہ سوال صرف وسائل کے کنووں پر بیٹھنے کا نہیں، بلکہ ریاست، عوام اور انصاف کے مابین تعلق کو سمجھنے کا ہے۔ جب ہم ریاستِ پاکستان کے گلگت بلتستان پر معدنی وسائل کے حق ملکیت کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں اس بات کو نہ صرف قانونی اور سیاسی بنیادوں پر پرکھنا ہوتا ہے بلکہ عوامی مفاد، علاقائی ترقی اور قومی سلامتی کے تناظر میں بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ یہی وہ زاویہ ہے جہاں قانون، سیاست اور عوامی فلاح ایک نکتے پر یکجا ہوتے ہیں۔

ہینس مورگنتھاؤ، حقیقت پسندی (Realism) کے مکتب فکرکے بانی اور اس نظریے کے پرچارک ہیں کے مطابق ریاستوں کا اولین مقصد قومی مفاد اور طاقت کا تحفظ ہوتا ہے۔۔ ان کے مطابق جو ریاست اپنے زیر انتظام متنازع علاقے میں عوام کو تحفظ، انصاف اور سہولیات فراہم کر رہی ہو، اسے اس علاقے کے قدرتی وسائل پر قانونی و اخلاقی حق حاصل ہے۔۔ پاکستان برسوں سے گلگت بلتستان کے باسیوں کو بنیادی سہولیات، تعلیمی ادارے، ہسپتال، عدالتی نظام اور دفاعی تحفظ فراہم کرتا آ رہا ہے۔ یہی وہ قومی مفاد ہے جس کی نگہداشت میں معدنی وسائل کا استعمال بھی شامل ہے۔ پاکستان یہاں کے وسائل کو صرف اپنے مفاد کے لیے نہیں بلکہ مقامی آبادی کی ترقی کے لیے استعمال کرنے کا بھی خواہاں ہے۔

کارل شمٹ، جو نوموس (Nomos) کے نظریے کے بانی ہیں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کسی بھی خطے پر جو ریاست مؤثر طور پر کنٹرول رکھتی ہو اور وہاں اپنے قوانین نافذ کرے، وہی ریاست اس سرزمین اور اس کے خزانوں کی اصل مالک ہوتی ہے۔۔ پاکستان نہ صرف گلگت بلتستان پر مؤثر انتظامی کنٹرول رکھتا ہے بلکہ یہاں کے عوام کو با اختیار مقامی حکومت، عدالتیں، بلدیاتی نظام اور تعلیمی ڈھانچے بھی فراہم کیے جا چکے ہیں۔۔ یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ ریاست یہاں صرف کنٹرول نہیں رکھتی، بلکہ ایک منظم سماجی معاہدے کی نمائندہ بھی ہے۔۔ یہی کارل شمٹ کا اصل مقدمہ ہے، کنٹرول نہیں بلکہ مؤثر قانون نافذ کرنے والی ریاست کو زمین اور وسائل کا حق حاصل ہوتا ہے۔۔

ہیوگو گروٹسئیس، جنہیں بین الاقوامی قانون کا بانی کہا جاتا ہے، کا فطری قانون پر یقین ہے۔ ان کے مطابق کسی زمین یا وسائل پر ریاستی ملکیت کا حق صرف اس وقت بنتا ہے جب ریاست اس علاقے پر مؤثر کنٹرول رکھتے ہوئے عوام کی خدمت میں مصروف ہو۔۔ فطری قوانین کی روشنی میں پاکستان نے گلگت بلتستان میں جو نظام قائم کیا ہے، وہ نہ صرف کنٹرول کا بلکہ عوامی فلاح کا مظہر بھی ہے۔۔ سڑکیں، بجلی، ہسپتال، اسکول، مقامی کونسلیں اور دیگر ادارے ریاست کی سنجیدہ موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے میں معدنی وسائل کا استعمال نہ صرف ریاست کا حق بلکہ مقامی آبادی کی ترقی کا واحد ذریعہ ہے۔۔

یہ کہنا کہ چونکہ گلگت بلتستان ایک متنازع علاقہ ہے، اس لیے یہاں کے وسائل پر پاکستان کا دعویٰ کمزور ہے، ایک ناقص دلیل ہے۔ بین الاقوامی قانون کا اصول "Effective Control" یہی کہتا ہے کہ جو ریاست کسی علاقے پر مؤثر اور مستحکم کنٹرول رکھتی ہو اور وہاں کے عوام کو تحفظ، سہولیات اور انصاف مہیا کر رہی ہو، وہ اس زمین کی مالک شمار کی جائے گی۔ پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں، معدنی وسائل کی تلاش و تحقیق اور مقامی لوگوں کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست کا مقصد صرف وسائل کا حصول نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود اور خطے کی ترقی بھی ہے۔

مخالف بیانیے اکثر اس بنیاد پر جنم لیتے ہیں کہ ریاستیں عوامی رائے کو نظر انداز کرتی ہیں، مگر گلگت بلتستان کی صورتحال اس سے مختلف ہے۔۔ یہاں عوامی نمائندوں کو صوبائی اسمبلی میں حق رائے دہی حاصل ہے، مشاورتی کونسلیں موجود ہیں اور اکثر ترقیاتی منصوبے عوامی مفادات کے پیش نظر مقامی لوگوں کی مشاورت سے شروع کیے جاتے ہیں۔ اگر معدنی وسائل کو ترقی دی جاتی ہے تو اس سے نہ صرف قومی معیشت مضبوط ہوگی بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار، تعلیمی وظائف اور صحت کی بہتر سہولیات میسر آئیں گی۔۔ ریاستی دعوے کی بنیاد عوامی خدمت اور تحفظ پر ہو تو وہ دعویٰ صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب بھی ٹھہرتا ہے۔۔

پاکستان اگر گلگت بلتستان کے معدنی وسائل کو بروئے کار لاتا ہے، تو اسے چاہیے کہ شفافیت، مقامی رائے کی شمولیت اور منافع کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔۔ کیونکہ ایک مضبوط ریاست وہی ہے جو اپنے وسائل کو عوامی امانت سمجھ کر استعمال کرے۔۔ مذکورہ بالا نظریات اور بین الاقوامی قانون کے مفکرین کے افکار کی روشنی میں ریاستی دعوے کا دفاع صرف اصولوں کی بات نہیں بلکہ عوامی فلاح کی ضمانت بھی ہے۔۔

لہٰذا گلگت بلتستان کے معدنی وسائل پر پاکستان کی ریاستی ملکیت ایک عقلی، قانونی اور جائز اخلاقی مقدمہ ہے۔ جس کی بنیاد صرف طاقت نہیں بلکہ خدمت، عوامی مفاد اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری پر رکھی گئی ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ ان وسائل کا مثبت استعمال کرکے مقامی عوام کے لیے ترقی، روزگار اور خوشحالی کا ذریعہ بنائے تاکہ یہاں کے باسی خود کو محض تماشائی نہیں بلکہ اپنے وسائل کے شریکِ کار محسوس کریں۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں ریاستی بیانیہ اور عوامی مفاد ایک ہو جاتے ہیں۔۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari