Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Aziz
  4. Jahalat, Taleem Aur Nach Gana

Jahalat, Taleem Aur Nach Gana

جہالت، تعلیم اور ناچ گانا

اِن دنوں کچھ نوجوانوں کی ناچنے کی ویڈیوز بہت زیادہ وائرل ہورہی ہیں اور ان کے بھائی بند شرمندہ شرمندہ نظر آرہے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو تعلیم کی کمی بتا رہے ہیں کہ یہ نسل اس وجہ سے بگڑ گئی ہے۔ تعلیم کی افادیت سے بالکل بھی انکار نہیں ہے لیکن تعلیم یافتہ لڑکے لڑکیاں بھی ناچ گانے کی طرف مائل ہیں بالخصوص اچھے خاصے پڑھے لکھے گھرانوں کی لڑکیوں سڑکوں پر ناچ رہی ہیں بلکہ استغفراللہ! اب تو دلہنیں جو کبھی سٹیج پر نظر نہیں اٹھاتی تھیں اب سٹیج پر رقص فرماتی نظر آرہی ہیں تو آپ اس کو صرف اور صرف تعلیم سے نہیں جوڑ سکتے ہیں۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ یونیورسٹی یا کالجز کے طلباء بھی پکنک پر کہیں جاکر ناچ لیتے ہیں اور روایتی رقص بھی پیش کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ نوجوان تنقید کی زد میں اس لیے آئے کہ یہ بڑے بڑے گروپس کی شکل میں فیملی پارکس میں ہلڑ بازی کرتے نظر آئے اور فیملیز والے ان سے تنگ نظر آئے۔

آپس کی بات ہے کہ اس میں ان کا بھی قصور نہیں ہے کیونکہ کچھ عرصے سے اس ناچ گانے کو جو فروغ حاصل ہوا ہے اس کی کبھی ماضی میں مثال نہیں ملتی ہے اور لوگ اسے ایک نہایت مقدس چیز سمجھنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا پر باقاعدہ یہ دھندے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور لوگ دھڑا دھڑ پیسے بنا رہے ہیں۔

لڑکے لڑکیوں کا ناچ یہاں تک کہ فحش ویڈیوز بھی آچکی ہیں لیکن ہمیں جو اس صدی کے آغاز سے روشن خیالی کا بھوت چڑھا تھا وہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ اس دوران فحاشی عریانی کے خلاف بےشمار شقیں قانون سے نکال دی گئیں اور باقاعدہ فحاشی کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

بعد میں آنے والے ہر شخص نے اسے عروج پر پہنچایا ہے اور صرف زبانی کلامی شرم و حیا پر زور دیا لیکن عملی قدم نہ اٹھایا کیونکہ اس طرح کا قدم اسے روشن خیالوں سے دور کرسکتا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مٹھی بھر لوگ تھوڑا گڑ اور تھوڑا ذہر استعمال کرتے ہوئے پورے معاشرے کی ذہن سازی کررہے ہیں۔

اب اس معاشرے میں شرم و حیا و پردے کو گالی بنا دیا گیا اور ٹھنڈی آہیں لے لےکر وہ دور یاد کیا جاتا ہے جب گورے اور گوریاں پشاور میں چرس کے لیے اپنا جسم بھی باآسانی بیچ دیتے تھے۔ جب شراب عام تھی اور فحاشی و عریانی کو معیوب تصور نہ کیا جاتا تھا۔ اس وقت سوائے گورے گوریوں کی باآسانی دستیابی کے وہ تمام علتیں معاشرے میں دوبارہ آچکی ہیں جن پر بند باندھ دیا گیا تھا۔ اب میں اس پر مزید لب کشائی کرنا نہیں چاہوں گا کہ زبان میں تلخی نہ آجائے۔۔

نہ کسی امیر کی جستجو ہے نہ رہنما کی تلاش ہے
مرے کاروان نگاہ کو ترے نقش پا کی تلاش ہے

یہ جہاں ہے قلزم امتحاں یہاں اپنا خضر ہے ہر جواں
لگے اس کے ہاتھ کنارہ کیوں جسے ناخدا کی تلاش ہے

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan