Sunday, 13 April 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Bangladesh Se Taluqat Par Nazar

Bangladesh Se Taluqat Par Nazar

بنگلہ دیش سے تعلقات پر نظر

ضروری ہے کہ چند ایک ممالک پر انحصار کرنے کی بجائے پاکستان ایسی تجارتی منڈیاں تلاش کرے جو نزدیک، نفع بخش اور ملکی مفاد سے ہم آہنگ ہوں دور دراز ممالک تک سامان پہنچانے میں مشکلات کے ساتھ لاگت بھی زیادہ آتی ہے۔ اب جبکہ پاکستانی اشیا پر محصولات میں امریکہ نے 29 فیصد اضافہ کر دیا ہے نیز یورپی یونین کی طرف سے حاصل ترجیحی سلوک پر بھی خطرات منڈلانے لگے ہیں، اِن حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ تجارت کے فروغ اور علاقائی مفاد کے تحفظ کے لیے نئے افق تلاش کیے جائیں۔

تجارتی حوالے سے حکومتی ترجیحات سے واضح ہے کہ حاصل منڈیوں کے ساتھ اُس کی توجہ کا محور خاص طور پر ایشیائی ممالک ہیں بنگلہ دیش سے قریبی شراکت داری پاکستان کے مفاد میں ہے۔ باعثِ اطمینان امر یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی اہمیت کا حکومت کو ادراک ہے بنگلہ دیش کی عبوری انتظامیہ سے روابط کو فروغ دینے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری نظر آنے لگی ہے، دو طرفہ تعاون بڑھانے پر متفق دونوں ممالک کی حکومتیں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے عملی طور پر کوشاں ہیں۔

رواں ماہ کے تیسرے ہفتے 22 اپریل کو نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار تین روزہ دورے پر بنگلہ دیش جا رہے ہیں جسے اِس بنا پر نہایت اہمیت کا حامل اور تاریخ ساز قرار دیا جا سکتا ہے کہ اِس دوران نہ صرف عبوری چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقات ہوگی بلکہ ہم منصب توحید حسین کے علاوہ بنگلہ دیشی کابینہ کے دیگر ارکان سے بھی باضابطہ ملاقاتیں اور مذاکرات طے ہیں۔

ملاقاتوں میں متعدد معاہدوں اور ایم اویوز پر دستخط متوقع ہیں یہ اِس بنا پر ایک تاریخی پیش رفت ہے کہ 2012 کے بعد کسی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا پہلا دورہ ہے جس سے دوطرفہ تعاون کی نئی راہیں کُھلنے کا امکان ہے۔ حنا ربانی کھر پاکستان کی آخری وزیرِ خارجہ تھیں جو ڈی 8 سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے بنگلہ دیش گئیں مگر تعلقات میں بہتری نہ آ سکی۔ دراصل تعلقات بہتر بنانے کی پاکستانی کاوشوں کی عوامی لیگ حکومت نے کبھی حوصلہ افزائی نہ کی اور ہمیشہ بھارت کو ترجیح دی حالانکہ دونوں ممالک ماضی کی تلخیاں بُھلا کر ساتھ چلتے تو عوام کا بھلا ہوتا۔

سفاک اور متعصب شیخ حسینہ واجد کی معزولی سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوئے اعلیٰ سطح رابطے بحال ہونے پر بنگلہ دیش نے پاکستانی برآمدات پر پابندیاں ختم کیں جس کا دونوں ممالک کی تجارت پر مثبت اثرہوا۔ براہ راست پروازوں پر اتفاق کے ساتھ طویل عرصے بعد سمندری راستے سے براہ راست تجارت کا آغاز ہوا۔ رواں برس جنوری میں بنگلہ دیش کے اعلیٰ فوجی حکام نے پاکستان کا دورہ کیا جس سے دوطرفہ دفاعی تعاون کی راہیں ہموار ہوئیں، اب اسحاق ڈار کا دورہ بڑھتے روابط میں مزید تیزی لا سکتا ہے۔

پاک بنگلہ دیش روابط کی خواہش یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہے، دونوں متفق ہیں کہ دوطرفہ تجارت بڑھانے کے لیے عوامی روابط ناگزیر ہیں بنگلہ دیش کی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے چاول، چینی سمیت دیگر اجناس برآمدکی جا سکتی ہےں جبکہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے تجربات سے پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں فروغ پذیر تجارتی اور دفاعی تعاون کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارتی سازشوں کا امکان موجود ہے کیونکہ بھارتی قیادت اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ پاک بنگلہ دیش روابط سے اُس کی مشرقی ریاستیں عدمِ استحکام سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ ایسے خدشات کو پاکستان اور بنگلہ دیش سختی سے مسترد کرتے ہیں مگر شیخ حسینہ کی طرف سے بھارت کو مشرقی ریاستوں تک حاصل راہداری ختم ہوتی ہے تو اِس میں شائبہ نہیں کہ بھارتی قومی سلامتی متاثر ہو سکتی ہے۔

شیخ حسینہ بظاہر بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم تھیں لیکن اقتدار کے دوران بھارتی دفاع کی مضبوطی کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں مشرقی ریاستوں تک راہداری دینے کے ساتھ دریاؤں کو بھارتی تصرف میں دینے جیسے بنگلہ دیشی مفاد سے متصادم فیصلے کیے اُن کے دور میں بنگلہ دیش کی حیثیت محض بھارت کی طفیلی ریاست رہی اب جبکہ بنگلہ دیش میں ایک ایسی قیادت کے پاس عنانِ اقتدار ہے جس کے پیشِ نظر اپنے ملک کا مفاد و سلامتی ہے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو بخوبی معلوم ہے کہ بنگلہ دیشی کا تعلیمی نصاب غلط اور متعصب ہاتھوں نے بنایا جو تصویر کا ایک رُخ اُجاگر کرتا ہے اسی بنا پر نصاب میں تبدیلی کے ساتھ جنگ 1971 کی یادگار

دیوار کو بھی گرا دیا گیا ہے جس پر 1950 کا زبان کی تاریخ کا پس منظر، سات مارچ کی تقریر، جنگِ آزادی، مجیب نگر حکومت کی تشکیل، آزاد سرزمین پر سورج کا طلوع ہونا اور سات عظیم ہیروز سمیت دیگر لمحات کو تاریخی کہہ کر نمایاں کیا گیا تھا اس سے قبل شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے گرانے اور گھر نذر آتش کرنے کا کام ہو چکا۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی نئی نسل جھوٹ کو بے نقاب کرنے کا تہیہ کر چکی ہے۔ ڈھاکہ میں نہ صرف قائدِ اعظم کا دن منایا جا نے لگا ہے بلکہ پاکستان سے محبت سے سرشار لوگ برسر عام شیخ مجیب کو ایک غدار اور اغیار کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔

اسلام آباد کے لیے یہ لمحات بہت اہم اور نادر ہیں تبدیل شدہ حالات میں ماضی کے حوالے سے پھیلائی جانے والی من گھڑت کہانیوں کو غلط ثابت کرنا آسان ہوگیا ہے بلکہ اسلام آباد، ڈھاکہ قریبی اتحادی بننے کی راہ ہموارہوئی ہے۔ شیخ حسینہ بھارتی مفاد پر بنگلہ دیشی مفاد قربان کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں جس سے مشرقی ریاستوں کی شورش پر قابو پانے میں دہلی کو تو بڑی مدد ملی مگر بنگلہ دیش کو کوئی فائدہ نہ ہوا وہ توانائی کے لیے بھارت کا محتاج بن کر رہ گیا لیکن موجودہ حکومت غیر جانبدار ہے اور اُس کی توجہ ملک کو معاشی و دفاعی حوالے سے مضبوط بنانے پر ہے جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ بھارت کی مشرقی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگی ہیں ناگا لینڈ، منی پور اور آسام جیسی ریاستوں نے تو آزادی کے باقاعدہ اعلانات کر دئیے ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے متصل بھارت کا بنگالی زبان بولنے والا علاقہ بھی آزادی کے نعروں سے گونجنے لگا ہے۔

شیخ حسینہ کی عدم موجودگی میں دہلی حکومت کے لیے برپا شورش پر آسانی سے قابو پانا ممکن نہیں رہا معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ سمیت اُن کی جماعت عوامی لیگ کے با رسوخ عہدیداروں کی ایک لاکھ کے قریب تعداد بھارت میں مقیم ہے جس کی تصدیق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے مشیر برائے اطلاعات محفوظ عالم نے بھی کی ہے۔ بقول اُن کے شیخ حسینہ نے اپنے والدین کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ملک میں جبری گمشدگیوں اور قتل و غارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا، اِس بارے قائم تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں متعدد افراد کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔

بھارت کے یہ خیر خواہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات بگاڑنے کی سازشوں میں بطورآلہ کار استعمال ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضا ہے کہ دونوں حکومتیں کوئی ایسا مشترکہ بندوبست کریں جس سے بدگمانیاں پیدا کرنے والے نہ صرف بے نقاب ہوں بلکہ بدگمانیوں کو ناسور بننے سے قبل ہی ختم کرنا ممکن ہو۔

Check Also

Falasteen, Bandar Ki Bala Tawelay Ke Sar (2)

By Wusat Ullah Khan