Thursday, 10 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aamir Mehmood
  4. Falsafa e Shukr

Falsafa e Shukr

فلسفہ شکر

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔

کسی نے سوال کیا جی کوئی وظیفہ بتائیں، کوئی ورد بتائیں، جواب دیا گیا کہ نیت اور خیال کو درست رکھو تو الحمدللہ اور استغفر اللہ ہی کافی ہیں۔

طوطا طوطا ہی رہے گا چاہے جو بھی ورد کرے، جو بھی پڑھائی کرے جب تک کہ خیال اور نیت درست نہیں ہوگی۔

کسی بھی عبادت میں یا ورد میں خیال کی بڑی اہمیت ہے۔ درود شریف میں بھی خیال ہی بنیادی کردار ادا کرتا ہے الفاظ تو صرف آپ کو عطا ہوئے ہیں کہ آپ اِس خیال، ادب، یاد کی کیفیت میں چلے جائیں۔

شکر ادا نہیں کیا جاتا بلکہ پہنا جاتا ہے۔ سطحی طور پہ شکر الحمدللہ کا ورد کرنا ٹھیک ہے، لیکن شکر آپ کے اندر سے نکلنا چاہیے۔ جب آپ کے اندر سے شکر الحمدللہ ادا ہوگا تو وہ پہنا جائے گا وہ آپ کے چہرے پر سکون کی صورت نظر آئے گا اور دیکھنے والے بھی اِس شکر کو محسوس کر سکیں گے۔

روز مرہ زندگی میں جب ہم کسی کا حال پوچھتے ہیں تو وہ عام طور پر کہتا ہے جی اللہ کا شکر ہے یا شکر الحمدللہ لیکن باتوں میں وہ گلا شروع کر دیتے ہیں۔

انسانوں کا اور پھر قدرت کا کہ میرے ساتھ یہ ہوا، میرے ساتھ یہ زیادتیاں ہوئیں اور کمی کوتاہی رہ گئی تو یہ شکر ادا تو نہ ہوا، شکر پہننے والے شخص پر ایک سکون کی کیفیت ہوتی ہے، نہ وہ کسی کا گلا کرتا ہے اور نہ شکایت کرتا ہے، ہر کسی سے ایک اخلاق اور ایک تہذیب کے ساتھ پیش آتا ہے کیونکہ اِس کا اندر سکون میں ہوتا ہے، تو الحمدللہ کے الفاظ ضرور ادا کرنے چاہیے لیکن یہ نظر بھی آنا چاہیے کہ آپ اللہ تعالی کے شکر گزار بندے ہیں۔

یہ آپ کے رکھ رکھاو نشست و برخاست اور ادب و اداب سے ظاہر ہوگا۔ نظر رکھنے والے دیکھ لیتے ہیں کہ یہ صرف ظاہری طور پر ہی شکر ادا کر رہا ہے اس کا اندر مطمئن نہیں ہے۔ شکر والے ہر حال میں شکر میں رہتے ہیں اصل شکر تو تب ہی ادا ہوتا ہے جب آپ کسی تکلیف یا مصیبت میں گر گئے ہیں آسانی میں تو سبھی شکر ادا کرتے رہتے ہیں یہ پیغمبروں نبیوں اور بزرگوں کا طریقہ ہے کہ گلا نہ زبان پہ آنے پائے ہر وقت وجود تسلیم و رضا کا پیکر بنیں رہیں۔

تمام راحتیں تمام تکلیفیں اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہیں، تو جس نے تکلیف دی ہے اُس نے آرام بھی دیا تھا، تو تکلیف میں زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے نسبت آسانی کے۔ اگر دھوپ اور چھاؤں، تکلیف اور آرام ایک ہی ذات کی طرف سے ہے تو پھر تکلیف میں گلا کیوں، اصل میں شکر گزار بندے وہی ہیں جو کہ تکلیف میں اللہ تعالی کا شکر بجا لاتے ہیں۔

اور اللہ تبارک و تعالی کا نظام ایسا ہے کہ اپنی ماننے والوں کو جتنا کوئی قریب ہوگا اتنی ہی تکلیف میں مبتلا کریں گے اس کا امتحان لیں گے اور جو سب سے قریب ہوگا اس کو کربلا عطا کر دی جائے گی۔

کربلا والوں کی مثال ہمارے سامنے ہے تمام تر تکلیفوں اور ظلمتوں کے باوجود تاریخ میں کہیں ایک لفظ بھی نہیں ملتا کہ گلا کیا ہو، کربلا سے پہلے یا کربلا کہ بعد، عجیب مقام تسلیم و رضا ہے بنی نو انسان کے لیے مرتے دم تک مشعل راہ ہے۔

اگر آپ یہ مشاہدہ کریں تو یہ واضح نظر آئے گا کہ ناشکرے انسان کے چہرے پہ ایک کرب، اداسی اور تفکر نمایاں ہوتا ہے اس کی بدن بولی آپ کو بتائے گی کہ یہ شکر میں نہیں ہے، ایک اداسی ایک ڈپریشن جانے والے واقعات پہ افسوس آنے والے واقعات کا خدشہ اِس کی طبیعت کا حصہ ہوگا اور وہ مسلسل ایک کرب میں مبتلا نظر ائے گا۔

اس کے برعکس ہر وقت شکر پہننے والے انسان پر آپ کو اللہ تعالی کی رحمت سکون اور تجلی نظر ائے گی اور ایک سکون نظر آئے گا۔

شکر بھی ایک بہت بڑا راز ہے اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ جس چیز پر تم شکر ادا کرو گے میں اُس کو بڑھا دوں گا تو بعض اوقات انسان ایسی چیزوں پر شکر ادا کرتا ہے جو کہ بڑھا دی جاتی ہیں لیکن مستقبل میں وہ اِس شکر کی وجہ سے ہی مصیبت میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

اس لیے یہ ضرور دیکھتے رہنا چاہیے کہ کن عطاؤں پر انسان شکر گزار ہے۔ عام طور پر اج کل ہم دھن دولت روپیہ پیسہ گھر کاروبار پر شکر ادا کرتے ہیں اور معاشرے میں دیکھنے میں ایا ہے کہ جتنی یہ چیزیں لوگوں کو عطا ہو رہی ہیں اتنی ہی وہ پریشانی اور اضطراب کا شکار ہیں اس کی کیا وجہ ہے، جو چاہتے تھے آپ کو مل تو گیا ہے پھر پریشانی کس بات کی ہے تو ہمیں اپنی دعاؤں پر بھی غور کرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان کی سمت غیر موضوع تو نہیں ہوگئی۔

ہم اللہ تبارک و تعالی سے وہ چیز تو نہیں مانگ بیٹھے جو کہ ہمارے لیے موضوع نہیں ہے اور ہمارے لیے راحت کا باعث نہیں ہے بزرگوں نے یہ ورد بتایا ہے کہ الحمدللہ کے ساتھ استغفراللہ کا ورد بھی جاری رکھنا چاہیے اس خیال کے ساتھ کہ استغفراللہ جو ہم نے اللہ تعالی کے ساتھ کیا ہے اور الحمدللہ کہ جو اللہ تعالی نے ہمارے ساتھ کیا۔

اللہ تعالی آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

Check Also

Khuda Ke Wajood Par Professor Aur Taliba Ka Mukalma

By Rao Manzar Hayat