Safar o Hizr
سفر و حضر

جن لوگوں کی تحریریں اخبارات میں آتی ہیں یا جن کی کتابیں چھپ جاتی ہیں، ان سے عام قاری واقف ہوجاتا ہے۔ لیکن جو دانشور اپنی تحریر یا تقریر کو منظر عام پر نہ لائے، اس کا سراغ مجھ جیسا بے خبر شخص کیسے لگائے۔ بھائی وجاہت مسعود نے ہم پر احسان کیا کہ ہم سب کے عنوان سے ویب سائٹ قائم کی اور ایک سے بڑھ کر ایک لکھنے والے اس پلیٹ فارم پر جمع کیے۔ اس کی بدولت میں نئے زمانے کے اخوان الصفا سے واقف ہوا۔ ان سے نیاز مندانہ دوستی ہوئی۔ ان میں حاشر ابن ارشاد، وسی بابا، عدنان کاکڑ، حسنین جمال، فرنود عالم، ید بیضا ظفر اللہ خان، حسن معراج اور جمشید اقبال شامل ہیں۔
انھیں دوستوں میں عثمان قاضی بھی ہیں۔ کئی دوستوں سے قلبی تعلق کے باوجود ان سے آج تک نہیں مل سکا۔ لیکن ایک بار دفتر نے زبردستی کسی کام سے اسلام آباد بھیجا تو خوش قسمتی سے عثمان صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ اس موقع پر بھائی ظفر اللہ خان اور بھائی سلمان حیدر بھی آئے۔ یادگار شام تھی۔ عثمان بھائی کا کتب خانہ دیکھا اور اس کی وسعت پر حیران ہوا۔ اب اس میں اور سیکڑوں ہزاروں کتابیں شامل ہوچکی ہوں گی۔
میں میٹرک میں تھا جب ابن انشا کے سفرنامے پڑھے۔ ایک زمانے تک ان کے سحر میں مبتلا رہا۔ خیال آتا تھا کہ ابن انشا جیسی ملازمت ملتی تو کتنا مزہ آتا۔ اقوام متحدہ کی نمائندگی اور اس کی جانب سے ملک ملک گھومنا۔ معلوم نہیں عثمان صاحب کی بھی ایسی خواہش تھی یا نہیں۔ لیکن ویسی زندگی انھیں ملی۔ تقریباََ پوری دنیا گھوم چکے ہیں۔ شکر ہے کہ ہم سب کی محفل میں انھوں نے سفر و حضر کا احوال رقم کیا۔ اب اسی عنوان سے ان کی کتاب شائع ہوگئی ہے۔
سفر و حضر کو سفرنامہ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ کالم جتنی تحریریں ہیں جو دو تین صفحات میں ختم ہوجاتی ہیں۔ اس سے کچھ تشنگی کا احساس رہ جاتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارا اٹینشن اسپین یعنی توجہ کا عرصہ جس قدر کم ہوچکا ہے، مختصر تحریریں ہی بہتر ہیں۔ عثمان صاحب کی تحریر مشکل نہیں ہے لیکن میری طرح صحافیانہ بھی نہیں۔ وہ ایسے الفاظ لکھ جاتے ہیں جن کا چلن کم ہوگیا ہے۔ انھوں نے خود اسے مولویانہ زبان کہا ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اس میں ادبی چاشنی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ تحریر پر محنت کرتے ہیں یا فطری طور پر ان کا قلم ایسے چلتا ہے، بہرصورت لطف میں کمی نہیں آتی۔
کتاب میں چھ براعظموں کے سفر ہیں لیکن سچ پوچھیں تو سفرنامہ کہیں کہیں ہے۔ بس یوں ہے کہ مصنف اطلاع دیتا ہے کہ بشکک سے آداب، موغادیشو سے سلام، دمشق سے تسلیمات۔ پھر کچھ تاریخ ہے، کچھ حالات ہیں، کہیں ذاتی معاملات اور ملاقاتیں بھی ہیں۔
سفر اور قیام ناموں کے علاوہ اس کتاب میں چند خاکے ہیں۔ سیاست پر تبصرے بھی۔ بین الاقوامی امور کے جائزے بھی۔ نوک جھونک بھی۔ بھائی عامر ہاشم خاکوانی کا ذکر کئی مقامات پر ہیں جن سے نظریاتی اختلاف ہے۔ مجھے حسد ہوا کہ کسی بہانے سہی، ان کا نام کتاب میں ہے۔ لیکن پھر ایک تحریر میں اپنا نام دیکھ لیا۔ دل میں ٹھنڈ پڑ گئی۔
عثمان صاحب کی تحریر کیسی ہے، نمونے کے طور پر ایک خاکے کا ٹکڑا دیکھیں جو آصف فرخی کے انتقال پر لکھا گیا:
یہ خادم دمشق آتے ہوئے دنیا زاد کا تازہ شمارہ ساتھ لے آیا تھا۔ اس کے آخر میں آصف کا، شعور کے بہائو میں لکھا ہوا ایک مضمون ہے جس میں انتظار صاحب کے کسی افسانے میں مذکور" کھنڈال" کے درخت کا تذکرہ ہے۔ جب آصف کے نامی والد ڈاکٹر اسلم فرخی حیات تھے تو وہی نہیں، ہم سب دوست ایسے معاملات میں مسکت رہ نمائی کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے۔ آصف نے لکھا کہ اس مینارہ نور کے بجھ جانے کی کمی کا انہیں اس درخت کی تلاش کرتے ہوئے مزید شدت سے احساس ہوا۔ انہوں نے نذر الحسن صدیقی سے لے کر شمس الرحمن فاروقی تک بہت سے علماء سے رابطہ کیا مگر تشفی بخش سراغ نہ مل سکا۔
اس خادم کو خیال آیا کہ اس درخت کا سرا ادبی ذخیروں اور علماء کے قاموسوں میں نہیں، اتر پردیش کے کسانوں کی بولی ٹھولی میں ملے گا۔ چنانچہ اپنے ہندی کے استاد اور مہربان دوست سید صولت عباس کی خدمت میں یہ اڑچن پیش کی۔ انہوں نے کمال مہربانی سے اپنے گاوں والے بزرگوں سے استفسار کرکے، بذریعہ صوتی پیغام اس درخت کی شناخت بہم پہنچائی۔ اس خادم نے وہی پیغام، بذریعہ یارِ عزیز عرفان خان، آصف کی جانب ترسیل کردیا۔ آصف علمی کھوج کے جنونی تھے۔ کسی لفظ کا پتا نہ ملتا تو بے چین رہتے۔ امید ہے کہ آنکھیں بند ہوتے وقت کم از کم "کھنڈال" کی الجھن کی بے چینی نہیں رہی ہوگی۔
سفر و حضر کو اردو اکیڈمی کوئٹہ نے چھاپا ہے اور چار سو صفحات کی کتاب صرف 1400 میں فروخت کے لیے پیش کی ہے۔ اس قدر مہنگائی میں اتنی کم قیمت کا مطلب یہ ہوا کہ پبلشر نے دیوالیہ ہونے کا ارادہ کر رکھا ہے۔