Imran Khan Ki Rihai
عمران خان کی رہائی

پاکستان میں آج کل ایک عجب تماشا چل رہا ہے۔ عمران خان اب بھی جیل میں ہیں، لیکن بحث و مباحثے ایسے ہو رہے ہیں جیسے وہ بس کسی بھی لمحے باہر آ جائیں گے۔ سوشل میڈیا پر ہلچل ہے، ٹی وی پر تجزیے اور گلی محلوں میں چائے کے ہوٹلوں پر بحثیں۔ ہر زبان پر بس ایک ہی موضوع ہے: "کیا عمران خان جیل سے نکلنے والے ہیں؟" حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اب بھی قید میں ہیں اور رہائی کا کوئی واضح عندیہ موجود نہیں۔
مگر سوال یہ نہیں کہ وہ باہر کب آئیں گے، سوال یہ ہے کہ اگر وہ آ بھی گئے، تو کیا فرق پڑے گا؟ کیا اُن کی رہائی سے اس ملک کی قسمت بدل جائے گی؟ کیا مہنگائی ختم ہو جائے گی؟ کیا انصاف کی فراہمی بہتر ہو جائے گی؟ یا بس چہرہ بدل جائے گا، باقی سب ویسا ہی رہے گا؟
اصل خوشی تو تب ہو جب عمران خان کی جدو جہد کامیاب ہو۔ وہ جدو جہد جس کا نعرہ تھا کہ پاکستان کو ایک نیا نظام دیا جائے گا، جہاں ادارے آزاد ہوں گے، قانون سب کے لیے برابر ہوگا اور عوام کو اُن کا حق ملے گا۔ مگر اگر عمران خان بھی کسی "سمجھوتے" کے نتیجے میں باہر آئیں، تو پھر وہ بھی اسی نظام کا حصہ بن جائیں گے جس کے خلاف وہ بولتے رہے۔ پھر اُن کی رہائی بھی محض ایک اور قسط ہوگی اُس پرانی ڈرامے کی جو ہم تین دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا صرف جیل سے باہر آ جانا ہی کامیابی ہے؟ کیا وزیراعظم بن جانا ہی اصل مقصد تھا؟ اگر ہاں، تو پھر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم نے کبھی تبدیلی کا خواب ہی نہیں دیکھا، بلکہ صرف اقتدار کا رقص پسند کیا۔
آج جیل میں ہونا، کل وزارتِ عظمیٰ میں بیٹھنا، پرسوں نیب سے کلین چٹ لینا اور اگلے دن پھر جلسوں میں انقلاب کے نعرے لگانا یہ سب کچھ ایک چلتی پھرتی سیاسی سرکس سے زیادہ کچھ نہیں لگتا اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہم سب اس سرکس کے تماشائی بن چکے ہیں۔
کبھی نواز شریف جیل گئے، پھر آئے، پھر وزیراعظم بنے۔ کبھی زرداری قید میں رہے، پھر اقتدار میں آئے اور اب عمران خان بھی اسی راہ پر ہیں اور جب عوام یہ سب دیکھتے ہیں، تو اُن کے لیے فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون محض چالاک۔
اگر عمران خان واقعی اُس مقصد پر قائم رہیں، جس کے لیے وہ قید ہوئے ہیں، تو وہ ایک تاریخ رقم کریں گے۔ لیکن اگر وہ بھی کسی سودے بازی کے تحت باہر آئے، تو وہ صرف اپنا ہی نہیں، لاکھوں چاہنے والوں کا بھی دل توڑیں گے۔ وہی چاہنے والے جنہوں نے اُن پر یقین کیا، جنہوں نے اُن کے لیے قربانیاں دیں اور جنہوں نے انہیں امید کی کرن سمجھا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں جیل جانا یا باہر آنا کوئی بڑی بات نہیں رہی۔ اصل بات یہ ہے کہ کوئی لیڈر اس نظام کو للکارے اور اُسے بدلنے کی جرات کرے۔ اگر عمران خان بھی واپسی کے بعد انہی پرانی پارٹیوں کی طرح "مفاہمت" کی سیاست کرنے لگے، تو پھر فرق کیا رہ گیا؟ کیا وہ بھی محض باریاں لینے کے کھیل میں شامل ہو جائیں گے؟
مقتدر حلقوں کے لیے سب سے اچھا منظر وہی ہے جس میں سب بڑی پارٹیاں اُن کے کنٹرول میں رہیں۔ اگر عمران خان بھی اُن کے ساتھ "ایک صفحے" پر آ جائیں، تو ان کے لیے سب کچھ آسان ہو جائے گا۔ پھر جلسے جلوس بھی ہوں گے، جمہوریت کا راگ بھی گایا جائے گا اور عوام کو بس تالی بجانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔
اور سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ عوام خود بھی اب ان چیزوں کو معمول سمجھنے لگے ہیں۔ وہی لوگ جو کل تک "چور چور" کے نعرے لگا رہے تھے، آج اُنہی لیڈروں کو کندھوں پر اُٹھا کر پھرتے ہیں۔ وہی جو خود کو انقلابی کہتے تھے، اب اُسی سسٹم سے "سیٹنگ" کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک طویل اور تھکا دینے والا دھوکہ ہے۔ عمران خان کی رہائی کی خوشی صرف اُسی وقت معنی رکھتی ہے جب وہ بغیر کسی سمجھوتے کے، بغیر کسی مصلحت کے اور بغیر کسی خفیہ ہاتھ کے، اصولوں کی بنیاد پر ہو۔ ورنہ یہ خوشی، محض وقتی سرور ہے، جو چند دن بعد پھر مایوسی میں بدل جائے گا۔
اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں، تو ہمیں شخصیتوں کے پیچھے نہیں، نظریات کے پیچھے چلنا ہوگا۔ اگر ہم ہر اُس شخص کو نجات دہندہ سمجھنے لگیں جو جیل سے باہر آتا ہے، تو پھر ہم کبھی بھی اُس غلامی سے آزاد نہیں ہو سکیں گے جو اسٹیبلشمنٹ، مفاد پرست سیاستدانوں اور جھوٹے وعدوں نے ہمارے ذہنوں پر مسلط کر رکھی ہے۔
یاد رکھیے، لیڈر وہ نہیں جو جیل سے باہر آئے۔ لیڈر وہ ہے جو قوم کو جمود سے نکالے، جو سچ بولے اور سچ پر قائم رہے۔ چاہے وہ جیل میں ہو یا اقتدار میں۔
عمران خان جیل میں ہیں اور ہو سکتا ہے جلد باہر آ جائیں۔ مگر ہم سب کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس تماشے کے محض تماشائی بنے رہیں گے، یا واقعی کچھ بدلنے کی کوشش کریں گے؟ کیونکہ جب مسئلے کی جڑ پہچان لی جائے، تو پھر وقتی نعروں سے بہلنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
میرے لیے تو یہ سب ایک دھند میں لپٹا ہوا کھیل ہے اور میں اب مزید دھند میں راستہ تلاش کرنے کا شوقین نہیں رہا۔