Wednesday, 16 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Pakistan Ka Nuclear Program

Pakistan Ka Nuclear Program

پاکستان کا نیوکلئیر پروگرام

پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ملکی سلامتی، سائنسی ترقی اور بین الاقوامی سیاست کے گہرے تانے بانے سے جڑی ہوئی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف پاکستان کی دفاعی ضروریات کا عکاس ہے بلکہ اس خطے کے تناظر میں اس کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان کا نیوکلئیر طاقت بننا ایک طویل مگر سنسی خیز پراسیس تھا جس میں مختلف کردار آئے اور چلے گئے لیکن مقاصد کے حصول کی خاطر سب نے اپنا فریضہ سر انجا م دیا۔

پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا جب خطے میں ہونے والے واقعات نے پاکستان کو اپنی سلامتی کے بارے میں سنجیدہ سوچنے پر مجبور کیا۔ 1971 کی جنگ میں پاکستان کی بھارت کے ساتھ جنگ پاکستان کے ملٹری ڈاکڑائن کو بدل دینے والی جنگ تھی۔ پاکستان کے طاقتور حلقوں نے اس جنگ سے معنی خیز نتائج اخذ کیے۔ مذکورہ جنگ نے پاکستان کی سلامتی پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کر دیا کہ وہ بھارت کے سامنے اپنی سلامتی کو کیسے یقینی بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ 1974 میں بھارت نے اپنا پہلا نیوکلیئر دھماکہ کیا۔ بھارتی دھماکوں کا کوڈ نام "سمائلنگ بدھا" تھا۔ یہ نام بظاہر امن کی نشانی تھا لیکن اس کے منظر میں پاکستان اور اس جیسے ممالک کی داخلی اور خارجی سلامتی کے لیے ایک کھلا پیغام تھا۔ اس دھماکے نے پاکستان کو یہ احساس دلایا کہ بھارت کے پاس نیوکلیئر صلاحیت موجود ہےاور پاکستان کو بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہے۔

خارجہ محاذ میں ایکٹو رہنے اور بین الاقوامی دنیا کو کھلا پیغام دینے کی خاطر اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیوکلیئر پروگرام کو قومی سلامتی کا اہم حصہ قرار دیا۔ بھٹو کا بیان بھارتی طاقتور حلقوں کے لیے ایک واضح اشارہ تھا کہ اب پاکستان اپنی سالمیت کی خاطر ایٹمی طاقت بن کر رہے گا۔ انہوں نے کہا تھا، "ہم گھاس کھائیں گے، بھوکے رہیں گے، لیکن ہمارے پاس ایٹم بم ہوگا"۔ یہ جملہ پاکستان کے عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنی سلامتی کو یقینی بنائے گا۔

پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی کامیابی کا سہرا بڑی حد تک ڈاکٹر عبد القدیر خان کو جاتا ہے۔ بنیادی طور پر خان ایک میٹلرجسٹ تھے اور نیدرلینڈز میں یورینکو نامی یورینیم انریچمنٹ سہولت پر کام کر چکے تھے۔ 1970 کی دہائی میں پاکستان واپس آنے کے بعد ڈاکٹر ای کیو خان نے گیس سینٹریفیوجز کی تکنیک اور ڈیزائن پاکستان لائے، جو یورینیم کو ہتھیاروں کے قابل بنانے کے لیے ضروری تھے۔ انہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز (کے آر ایل)کا سربراہ بنایا گیا۔ مذکورہ ادارہ پاکستان کے یورینیم کی افزودگی پروگرام کا مرکز تھا۔ دوسری طرف پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ منیر احمد خان تھے۔ انہوں نے پلوٹونیم پر مبنی ہتھیاروں کی تیاری پر کام شروع کر دیا۔ منیر خان نے خوشاب میں پلوٹونیم ری ایکٹرز کی تعمیر کی نگرانی کے علاوہ کئی ایسے مشنز سر انجام دیے جو آگے چل کر بہت کارگر ثابت ہوئے۔

پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو بین الاقوامی سطح پر شدید مخالفت اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دباؤ مختلف قسم کی پابندیوں اور امداد کے بند ہونے کی صورت میں ہوتا تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے سٹریٹیجک اور دفاعی پارٹنر امریکہ کی طرف سے پاکستان پر وقتا فوقتا کافی دباؤ آتا رہا۔ اس کے علاوہ دیگر مغربی ممالک کی طرف سے بھی پریشر تھا جو جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر پھیلاؤ کو روکنا چاہتے تھے۔ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی اور فوجی امداد کی پابندیاں عائد کر دی۔ تاہم پاکستان نے اپنے پروگرام کو خفیہ طور پر جاری رکھا اور ضروری ٹیکنالوجی اور مواد حاصل کرنے کے لیے غیر رسمی نیٹ ورکس کا سہارا لیا۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان کے نیٹ ورک نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ اے کیو خان پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے دیگر ممالک کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کی یا فروخت کردی۔ وہ الگ بات کہ یہ نیٹ ورک بعد میں متنازعہ ہوتا چلا گیا۔ یہ معاملہ پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا لیکن اس نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو جاری رکھا۔

1980کی دہائی تک پاکستان نے یورینیم انریچمنٹ میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر چکا تھا۔ تاہم پاکستان نے ایک مبہم پالیسی اپنائے رکھی جس میں نہ تو نیوکلیئر ہتھیاروں کے وجود کی تصدیق کی گئی اور نہ ہی انکار۔ پاکستان کے مختلف وزرا اعظم اور صدور نے ایسے بیانیے سے کام لیا کہ جس سے پاکستان کی سالمیت اول اور سیاست بعد میں تھی۔ وطن عزیز کی یہی پالیسی نہ صرف بھارت کو ڈرانے کے لیے تھی بلکہ ساتھ ہی بین الاقوامی برادری کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنے کے لیے بھی۔ جیسا کہ پاکستان نے ایک طرف تو دنیا کو اس بیانیے کی پیچھے لگایا کہ ہم ایک قسم کے پراسس سے یورینیم کو افزودہ کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف پاکستان نے چپکے سے دوسری قسم سے یورنیم کو افزودہ کرنا جاری رکھا۔ بیانیے کی سعی پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کی طرف جلد ہی لے گئی۔

سن 1998 میں بھارت نے اپنی نیوکلیئر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوکھران میں دھماکے کیے۔ ایٹمی دھماکوں کو آپریشن شکتی کا نام دیا گیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے 28 مئی 1998 کو چاغی کے پہاڑی سلسلے میں اپنے نیوکلیئر دھماکے کیے جنہیں چاغی-1 اور چاغی-2 کا نام دیا گیا۔ یہ دھماکے پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیتوں کا اعلان تھے اور اسے دنیا کے ساتویں نیوکلیئر طاقت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

ان دھماکوں کے بعد پاکستان نے اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کی حفاظت اور کنٹرول کے لیے ایک باقاعدہ نظام قائم کیا جو نیشنل کمانڈ اتھارٹی سے جانا جاتا ہے۔ مذکورہ ادارے کو نیوکلئیر ہتھیاروں کے انتظام و انصرام کا ذمہ دیا گیا۔ پاکستان نے "قابل اعتماد کم سے کم ڈیٹرنس" کی پالیسی اپنائی جبکہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کا مقصد بھارت کے خلاف جارحیت کو روکنے کے لیے ایک مناسب نیوکلیئر ذخیرہ برقرار رکھنا تھا۔

پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام نے خطے اور دنیا کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایک طرف اس پروگرام نے پاکستان کو بھارت کے خلاف ایک دفاعی صلاحیت فراہم کی ہے اور دوسری طرف اس نے جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پرپاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے خاص طور پر نیوکلیئر پھیلاؤ اور ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے۔ لیکن پاکستان نے خود کو ایک ذمہ دار نیوکلیئر ریاست کے طور پر پیش کیا ہے اور عالمی سطح پر خود کو ایک پر امن اور دہشت گردی کے خلاف آہنی ریاست کے طور پر منوایا ہے۔ بھارتی جنگی عزائم ایک لمبے عرصے سے پورے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ پورے خطے میں صرف پاکستان ہی ایسی واحد ریاست ہے جو بھارت کو اپنی پالیسیز اور متنوع دفاعی حکمت عملیوں کی وجہ سے طاقت کے توازن کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Khawaja Fareed Ke Rang Aur Jam Jamil Ka Business Model

By Muhammad Saqib