Main Inqilab Hoon Bas Araha Hoon
میں ہی انقلاب ہوں بس آ رہا ہوں

کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ اخبار کو چائے میں ڈبو کر پی جاؤں، شاید کوئی "انقلابی" ذائقہ ہی نکل آئے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں انقلاب ایک نظام کا نام ہے، کچھ کہتے ہیں تبدیلی کی لہر ہے اور کچھ کو لگتا ہے کہ یہ کوئی بندہ ہے جو اب تک نیند میں ہے اور الارم بند کرکے پھر سو جاتا ہے اور وہ الارم ہم عوام کے خواب ہیں۔
لیکن سچ بتاؤں؟
یہ انقلاب دراصل اقوامِ برصغیر کا وہ کزن ہے جو ہر شادی میں بارات سے پہلے آ کر دھمال ڈال کے کہتا ہے، "بس اب نظام بدلے گا"
اور پھر جیسے ہی کھانا ختم ہوتا ہے، وہ بھی چپکے سے بوٹیاں جیب میں ڈال کے نکل جاتا ہے۔
اب قومیتوں کی سنیں۔
سندھی بھائی بڑے شریف اور سادہ دل۔ انقلاب کا ذکر سن کر ہاتھ میں اجرک تھام کے کہتے ہیں: "بھلا ہمیں انقلاب سے کیا؟ ہمیں تو بس تھر میں بارش دے دو اور پکوڑے کی چٹنی میٹھی ہو! "
پنجابیوں کا انقلاب بڑا دبنگ ہوتا ہے۔ وہ جب کہتے ہیں انقلاب آئے گا، تو ساتھ میں لسی کا جگ، تندور کی روٹی اور پانچ کلو مکھن بھی لاتے ہیں۔
ان کے لیے انقلاب وہی ہے جو شادی پر چچا زاد بہن سے ڈھول پر زبردستی ڈانس کرانے کا بہانہ ہو۔
بلوچی سردار بڑے باوقار۔ انقلاب کا نام سن کر چشمہ اتارتے ہیں، سگریٹ سلگاتے ہیں اور کہتے ہیں: "انقلاب؟ آ جائے گا، بس میرے مویشی واپس مل جائیں اور وہ واپڈا والا میرے بیل کو واپس کرے، پھر دیکھو کیا طوفان آتا ہے! "
پشتون بھائی کا انقلاب تو بندوق کی نال میں چھپا ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "ہم نے انقلاب کو کپڑے پہنائے تھے، مگر وہ شہر آ کر TikTok پہ لگ گیا! "
مہاجر بھائی انقلاب کو لغت میں تلاش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں انقلاب "سرکاری ملازمت کی ٹائپنگ اسپیڈ" کی طرح ہے ہوتا ہے، مگر نظر نہیں آتا۔
کراچی میں انقلاب کا مطلب ہوتا ہے: "بجلی آئے، پانی ہو اور چرسیوں نے گلی کا کنٹرول نہ لیا ہو! "
سرائیکی کہتے ہیں، "انقلاب پہلے لاہور جائے، ساہیوال میں تو ٹریکٹر بھی انگریزی بولتا ہے! "
اور گلگتی؟
وہ کہتے ہیں، "جناب! ہم تو پہلے ہی پہاڑوں میں پھنسے ہیں، یہاں انقلاب آئے یا برف، ہمیں تو ایک ہی بات لگتی ہے! "
کشمیریوں کا انقلاب تھوڑا شاعر مزاج ہوتا ہے۔ وہ ہر جلسے میں ایک غزل سناتے ہیں، ہر دھرنے میں قوالی گاتے ہیں اور ہر احتجاج میں مٹن پلاؤ بانٹتے ہیں۔ انقلاب ان کے لیے بس ایک قافیہ ہے، جو ہر تقریر میں فٹ ہو جاتا ہے۔
اور ان تمام اقوام کو دیکھ کر انقلاب خود بھی کنفیوژ ہو جاتا ہے۔
کہتا ہے، "یار، میں تو صرف ایک لہر تھا، ان سب نے تو مجھے اقوامِ متحدہ کی میٹنگ بنا دیا ہے! "
انقلاب کا حال آج کل اس مرغی جیسا ہے جسے ہر کوئی پکڑنا چاہتا ہے، لیکن کوئی نہ چھری لاتا ہے، نہ مصالحہ۔ بس تصویریں لے کر کہتا ہے: "دیکھو، انقلاب میرے پاس آیا تھا! "
اکثر انقلاب خود کو آئینے میں دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے: "کیا میں اتنا بیکار لگتا ہوں؟"
پھر سوشل میڈیا کھول کر دیکھتا ہے تو اسے اپنی تصویریں memes میں نظر آتی ہیں: "انقلاب آ رہا ہے، راستے میں چائے پی رہا ہے! "
سچ پوچھیں تو ہم قومیت کے نام پر ایسے لڑتے ہیں جیسے بارات میں دو چچا دولہا کی جوتی پر۔
یہ سندھی، پنجابی، بلوچ، مہاجر، پٹھان، سب "انقلابی" دال میں اپنی اپنی چھوٹی سی ہڈی ڈالنا چاہتے ہیں، مگر دیگ کسی کے بھی بس کی نہیں!
اگر واقعی انقلاب آنا ہے تو پہلے ہمیں اپنے اپنے "علاقائی بتوں" کو ریٹائرڈ کرنا ہوگا۔ لیکن وہ تو VIP لاؤنج میں بیٹھے ہیں اور ہم عام لوگ لائن میں کھڑے ہیں، ہاتھ میں، انقلاب کی ٹوکن لیے، جو کب کا Expire ہو چکا ہے۔
شاید انقلاب بھی اب online آنا چاہتا ہو، جیسے "انقلاب ڈاٹ پی کے"، جہاں لاگ اِن کرو، 3 memes شیئر کرو اور ایک ووٹ فری میں پاؤ!
Premium انقلاب کا پیکیج لیں تو جلسہ بھی آپ کے گھر کی چھت پر ہو سکتا ہے۔
ابھی کل ہی ایک چاچا سے پوچھا، "انقلاب کب آئے گا؟"
کہنے لگے: "بیٹا، جب سندھی، پنجابی، بلوچ اور پٹھان مل کر مچلی کا سالن کھائیں گے اور کوئی لڑائی نہ ہو تب انقلاب خود پیدل چل کر آ جائے گا! "
انقلاب کے لیے جلسے بھی ہوتے ہیں، مگر ہر جلسے میں ایک ہی شخص mic سنبھال کر کہتا ہے: "بھائیو! وقت قریب ہے! "
اور پھر بیچ میں گانا لگا کر لوگ چکن رول کھانے لگتے ہیں۔
اور نوجوان؟
وہ انقلاب کو status پر لگاتے ہیں، Bio میں رکھتے ہیں اور ہر تصویر کے نیچے لکھتے ہیں: "#RevolutionIsComing"
لیکن جب ماں کہتی ہے، "بیٹا بازار سے دہی لے آؤ"۔
تو وہ کہتا ہے، "امی آج چھٹی ہے، میں تو انقلابی ہوں! "
تحریکوں کا حال یہ ہے کہ ہر گاؤں میں ایک "تحریکِ عظیم" بنی ہوئی ہے، جس کا صدر چچا عتیق، سیکریٹری بھتیجا نعیم اور نعرہ ہوتا ہے:
"بدلو سب کچھ، سوائے صدر کے! "
الغرض، انقلاب ہم میں سے ہر ایک کے گھر کے Wi-Fi کا نام ہے، مگر سگنل صرف دروازے کے باہر آتے ہیں۔
یہ قومیں جب تک اپنے اپنے انقلاب پالتی رہیں گی۔
انقلابی مرغی انڈا نہیں دے گی۔
اور ہم صرف اس کے انڈے کی تصویریں بنا بنا کر status لگاتے رہیں گے۔
تو اے میری قوم کے Netflix زدہ نوجوانو، TikTok زدہ بزرگوں اور meme زدہ سیاست دانوں:
انقلاب اب myth بن چکا ہے، جس پر thesis لکھی جا سکتی ہے، فلم بن سکتی ہے، مگر حقیقت میں وہ گلی کے نکڑ پر کھڑا وہ بندہ ہے جس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔
کیونکہ وہ ہر بار صرف ایک ہی جملہ کہتا ہے:
"بس آ رہا ہوں! "