Bache, Screen Time Aur Waqt
بچے، سکرین ٹائم اور وقت

ہم دیکھتے ہیں کہ آج بچوں کے ہاتھ میں سمارٹ فونز، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور بعض بچوں کے پاس سمارٹ واچ بھی ہیں۔ بچوں کا سکرین ٹائم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ان کی پڑھائی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں بچے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ گھر میں ایک نہیں کئی سمارٹ فونز ہوتے ہیں جو بچوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ باپ دال دلیہ کے لیے سارا دن باہر رہتا ہے اور رات گئے گھر پہنچتا ہے۔ بچے زیادہ تر ماں اور فیملی کے دیگر ممبرز کے ساتھ وقت گذارتے ہیں۔ بنیادی طور پر تعلیم و تربیت ماں کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے کیونکہ بچوں کے ساتھ وہ زیادہ وقت گزارتی ہے۔ جب کہ باپ معاشی صورتحال کو بحال رکھنے کے لیے کولہو کا بیل بننے پر مجبور ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ بچوں کو زیادہ وقت دینے سے قاصر رہتا ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ سکرین کا زیادہ استعمال بچوں کی صرف جذباتی، نفسیاتی اور جسمانی صحت کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ ان کی تعلیمی قابلیت کو بھی زنگ لگا دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے تعلیمی نتائج دھڑام سے نیچے گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سمارٹ فونز کے مسلسل اور زیادہ استعمال سے بچوں کی کسی کام پر توجہ دینے اور توجہ کو مرکوز کرنے یعنی قوتِ ارتکار کی کم ہو جاتی ہے جو کہ براہ راست ان کی تعلیم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کی حاضردماغی بھی غائب ہو جاتی ہے جو کہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔
اس سارے مسئلے میں بچوں کو ہم قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ وہ تو معصوم ہیں اور ابھی اچھے بُرے میں تمیز کرنے کی صلاحیت کے مالک نہیں بنے۔ سمارٹ فونز کے نتیجہ میں بچوں کو جو بھی نقصان ہو رہا ہے اس کی تمام تر ذمہ داری والدین اور گھر کے ممبرز پر عائد ہوتی ہے۔ چونکہ یہ مسئلہ گھر گھر کا مسئلہ ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے نونہالوں کل کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے او رپھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے کہ وقت نے پھر پلٹ کر نہیں آنا ہوتا۔
صحت ہو، جوانی ہو، دولت ہو، عیش و عشرت ہو، خوشی ہو، الغرض کسی بھی چیز کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ ہاتھ سے نکل جائے۔ یہی صورتحال وقت کی بھی ہوتی ہے۔ وقت جب گزر جاتا ہے تو پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ زندگی کا جو لمحہ گزر جاتا ہے وہ لوٹ کر نہیں آتا۔
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
والدین کو سمجھنا چاہیے کہ ایک سیکنڈ بھی قیمتی ہے اگر اسے قیمتی سمجھ کر صَرف کیا جائے اور ایک سال بھی رائیگاں ہے اگر اسے غفلت میں کھو دیا جائے۔ ابتدا نیک انتہا نیک کے پیش نظر بچوں پر خصوصی توجہ دینا آج وقت کی ضرورت ہے۔ والدین کو نظام قدرت سے ہی کچھ سیکھ لینا چاہیے۔ سورج اپنے وقت پر طلوع ہوتا ہے اور وقت پر غروب ہوتا ہے۔ موسم اپنے وقت پر بدلتے رہتے ہیں۔ درخت اپنے وقت پر پھل لاتے ہیں۔ فصلیں اپنے وقت پر ہوتی ہیں جیسا کہ رواں دن گندم کی فصل تیار ہے۔ اگر قدرت میں وقت کی اہمیت و پابندی کا اہتمام نہ ہوتا تو دنیا درہم برہم ہو جاتی۔
جانوروں اور پرندوں کو دیکھیں۔ وقت پر سوتے اور جاگتے ہیں۔ مُرغا دو چار تولے دانہ دنُکا کھاتا ہے اور علی الصبح بانگ دیتا ہے۔ برعکس مُرغے کے انسان سیروں کھانا کھاتا ہے اور لمبی تان کر سوتا ہے گویا مُردوں سے شرط لگا کر سو رہا ہے۔ ہر جانور تک کا اپنا ایک پروگرام ہے مگر انسان کا کوئی پروگرام نہیں۔ ہرکام کے لیے ایک وقت ہے او ر ہر وقت کے لیے ایک بہتر کام ہے۔ باقاعدہ زندگی وقت کی قدر کرنے اور وقت کی پابندی سے پیدا ہوتی ہے۔
والدین سمارٹ فونز بچوں کے ہاتھ دے کردرحققیت بچوں کا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں جس کا انہیں بعد میں اندازہ ہو پائے گا۔ والدین کو مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح وقت کا مورخ بننے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے بچوں کا مستقبل آج ہی دیکھ سکیں اور مستقبل کی بہتری کے لیے جامع، ٹھوس اور بے باک پالیسی اور فیصلے صادر کر سکیں۔ یہ ابوالکلام آزاد ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے قیام سے پہلے ہی پاکستان کے حالات کو بھانپ لیا تھا اور ایک موقعے پر فرمایا تھا کہ پاکستان کا قیام جتنے مسائل حل کرے گا، اس سے دوگنے مسائل پیدا کرے گا اور وقت کے مورخ کی یہ بات آج پتھر پر لکیر کی طرح ثابت ہے جب ہم غیر جانبداری سے فرقہ واریت، غربت، سرمایہ داری نظام، بیروزگاری، بے راہ روی، سماجی مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ، دہشتگردی، مارشل لاؤں کی زمین، جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور ادارہ جاتی دہشت کا جائزہ لیں!
سکرین ٹائم کے معاملے میں حکومت کو بیچ میں گھسیڑنا ممکن نہیں۔ اس مسئلے کا حل صرف والدین کے پاس ہے۔ بچوں کے ابتدائی سال ان کی بنیاد بناتے ہیں۔ اگر بنیاد درست خطوط پر اور روشن مستقبل کو ذہن میں رکھ کر بنائی جائے توآج کے بچے کل کے معمار ثابت ہوں گے۔ حقیت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی اُمیدوں کا صحیح مرکز نہ اُس کے سائنس دان ہوتے ہیں، نہ سیاستدان، نہ جرنیل کرنیل، بلکہ یہ صرف اس کے بچے ہوتے ہیں۔ ہر قوم ایک باپ کی طرح اپنی تشنہ خواہشات کی تکمیل اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتی ہے۔ بچوں کی اہمیت بے حد اور بے حساب ہے کیونکہ یہی وہ لوگ ہوں گے جو ہمارے ملک، تہذیب و تمدن اور ثقافت و روایات کی حفاظت کریں گے۔
والدین کے سامنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا مسئلہ حل طلب ہے۔ ایڈولف ہٹلر جرمن قوم کو دنیا کی بہترین قوم منوانے کا نصب العین پیش نظر رکھتا تھا۔ اُس نے اس مقصد کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کیا۔ اس نے تمام ناکارہ اور کمزور آدمیوں کو یا تو ختم کر وا دیا یا انہیں اولاد پیدا کرنے کے ناقابل بنا دیا۔ وہ ہزاروں صحت مند نوجوان لڑکیوں کے سامنے تقاریر کرکے انہیں زیادہ سے زیادہ صحتمند اولاد پیدا کرنے کے لیے کہا کرتا تھا۔ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب رہا۔ جرمن قوم نے میدان جنگ میں ثابت کر دیا کہ کس طرح اس کا ایک ایک سپاہی خود اعتمادی کے لحاظ سے ایک فوج سے کم نہیں۔ ہٹلر نے اپنے قومی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تمام ممکن ذرائع استعمال کیے۔ وہی بچے آج جرمنی کو پھر سے نئی زندگی دے رہے ہیں۔
ہمارے پاکستان میں بچوں کی تعلیم و تربیت کو کوئی منصوبہ نہیں ہے، کوئی نصب العین نہیں ہے۔ ہر سکول دوسرے محلے کے سکول سے متضاد نظریات ٹھونس رہا ہے۔ یہی حال والدین کا ہے۔ ایک کے والدین جماعت اسلامی سے ھپنا ٹائز ہیں، دوسرے کے محکمہ زراعت سے، تیسرے کے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے سے، چوتھے کے بانوے کے ورلڈ کپ سے اور پانچویں کے اتفاق فاؤنڈری سے۔ ان میں فاصلہ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے اوریہی باتیں اپنے بچوں کے اذہان میں ٹھونس رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ والدین سب نطریات بچے کو بتا دیں اور کہیں کہ جو نظریہ اسے عقل کی کسوٹی پر زیادہ درست معلوم ہوتا ہے، اُسے اپنا لے۔ مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ یہاں پر وراثتی سیاست کی طرح وراثتی نظریات ہی چل رہے ہیں۔
حاصل بحث یہ کہ بچوں کی تعلیم، ذہنی و جسمانی صحت اور سیکھنے کی لگن کے بحال رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کا سکرین ٹائم فوراً کم کر دیا جائے یعنی ایک گھنٹہ فی دن۔ بچہ ضد کرے، موڈ خراب ہو، روئے چلائے تو بھی سمارٹ فون بچے کو نہ دیا جائے بلکہ سمارٹ فون کے نقصانات بار بار بتائے جائیں۔ فیملی ممبران کو سختی سے واضح کر دیا جائے کہ بچے کو سمارٹ فون نہ دیا جائے اور اس کی ویری فیکیشن کے لیے سرپرائز وزٹ کا اہتما م والدین کریں۔ بچوں کو روزانہ آوٹنگ کے لیے لے جانا سمارٹ فون کے نقصانات میں کمی کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ بچوں کی کمپنی پر خصوصی توجہ رکھی جائے۔ بصورت دیگر کل کلاں کو بچہ تعلیم، تخلیقیت اور صحت میں پیچھے رہ گیا تو اس کی ذمہ داری بچے پر نہیں بلکہ والدین اور فیملی ممبرز پر عائد ہوگی۔ یاد رہے گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا! بقول ساحر لدھیانوی:
وقت سے دن اور رات، وقت سے کل اور آج
وقت کی ہر شے غلام، وقت کا ہر شے پہ راج
وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں
وقت ہے پھولوں کی سیج، وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے، وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی، وقت کا بدلے مزاج