Thursday, 10 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. 58 Baras Baad

58 Baras Baad

اٹھاون برس بعد

یو ٹیوب پہ مشرقی پاکستان کی ایک پرانی اداکارہ کابوری کو تلاش کر رہا تھا کہ وہ ایسی فلم کی ہیروئن تھی جو وقفہ سے پہلے ایک فلم تھی اور وقفہ کے بعد دوسری۔

ایک میں اسے فلم میں بنتی فلم میں کام کرنے کے دوران ہیرو کے منہ سے بو آتی تھی اور وہ شاٹ ختم ہونے پہ منہ بناتی، خوب سناتی۔ دوسری میں وہ ہنستے ہنستے رو دیتی اور روتے روتے ہنس دیتی۔ بہت دلچسپ فلم تھی (تب کا یہی احساس تھا)۔

کابوری کی ایک موٹی سے عام شکل کی بنگالی عورت کے روپ میں فوٹو تھی اور لکھا تھا "پرانے زمانے کی کامیاب اداکارہ بستر مرگ پہ"۔ خبر سال سے پہلے کی تھی۔

جس فلم کا ذکر کیا۔ اس میں ایک حصہ میں کابوری کے مدمقابل وحید مراد بھی تھے اور فلم کا نام غالباََ "چاند سورج" تھا۔ تو وہ فلم بھی نہ ملی مگر فلم چکوری مکمل موجود تھی۔

دسویں تک قصبہ کی ٹورنگ ٹاکی میں کسی بڑے کے ساتھ فلم دیکھنے کی اجازت ملتی۔ لاہور جاتے تو عم زاد اور بہنوئی فلم دکھا لاتے۔ ہندوستان کی دو ایک فلمیں انہیں کے ساتھ دیکھیں جن میں سے ایک کا عنوان شاید مسٹر اینڈ مسز 55 تھا اور دوسری شاید شہید تھی۔

1967 میں سولہ برس کی عمر میں جی سی لاہور میں داخلہ لینے پہنچا۔ میرا بھانجا سعد جو مجھ سے ڈیڑھ برس چھوٹا ہے۔ اس نے مجھے ماما کبھی نہیں کہا میرے عرف سے مخاطب کیا۔

اگرچہ پڑھتا وہ لنزرڈے سکول گلبرگ میں تھا جہاں اس کے ہم جماعت جی اے گل اور مہدی حسن کے بیٹے تھے۔ ان سے دوستی تھی لیکن ساتھ ہی ہتھ چھٹ عام نیم غریب لڑکے بھی اس کے دوست تھے۔

اس وقت گلبرگ مین بلیوارڈ کا آریگا سینیما ہاؤس لاہور کا سب سے نیا اور مجہز ترین سینیما گھر تھا۔ وہاں ندیم کی پہلی فلم چکوری کی نمائش کا پہلا دن تھا۔ میں اور سعد، سعد کے ایسے ہی ایک زنجیر پہنے دوست منظور (جھورے) کو لے کے وہاں پہنچے۔

یہ اپنے طور پر کسی بڑے کی بجائے کم عمر لڑکوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا میرا پہلا موقع تھا۔۔ پہلا شو تھا، دیکھنا ضرور تھا اور شاید سینیما ہاؤس کی بھی یہ پہلی ہی فلم تھی۔ ٹکٹ کے لیے آدمی پہ آدمی گر رہا تھا۔ بلیک خریدنے کی استطاعت نہ تھی۔

جھورے نے تھوڑا سوچا، مجھ سے پیسے پکڑے۔ پہلے گلے سے زنجیر اتار کے سعد کو پکڑائی۔ پھر جینز کے اوپر پہنی بولڈ کلر سٹرائپس والی شرٹ جینز میں سے نکال کے مجھے پکڑائی، یاعلی کا نعرہ لگا کر اچھلا اور لوگوں کے کندھوں پہ پاؤں دھرتا کھڑکی تک پہنچا اور جھوجھ جھاج کے ٹکٹیں نکال لایا۔

تو جناب میں نے 58 برس بعد آج لیپ ٹاپ کی سکرین پہ فلم "چکوری" پھر سے دیکھی۔ 26 برس کے ندیم تب پاک و ہند کے سب سے کم عمر ہیرو تھے۔

فلم شاید تب اچھی لگی ہو لیکن اب ہنسی آئی کہ فارمولا فلم اور آج کے حوالوں سے بس یونہی سی۔ البتہ تب میں بنگال کی موسیقی سن کے ہی خوش ہو جاتا تھا کہ وہ پنجاب کی شور مچاتی دھنوں کی نسبت دھیمی اور مدھر ہوتی۔

بشیر احمد کی آواز میں گائے گیت۔ ٹانگ میں لنگ کے ساتھ اداکاری کرتے رحمان یا طویل قامت وجیہہ اداکار انورحسین، کیا زمانہ تھا کہ تب پاکستان دو حصوں میں تھا

آج فلم میں ایک عمارت پہ EPIDC یعنی ایسٹ پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن اور ڈھاکہ ریڈیو کے سیٹ پہ مائیک کے ساتھ ریڈیو پاک کی لگی پھٹی پڑھ کے دل میں ہوک اٹھی۔

Check Also

Boycott (2)

By Mansoor Nadeem