Ye Sach Ka Qatal Hai
یہ سچ کا قتل ہے

سچ ہمیشہ طاقتوروں کے لیے خطرہ رہا ہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو، کسی بھی زبان میں لکھا جائے، یا کسی بھی ذریعے سے عوام تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی اقتدار کے ایوانوں میں لرزش پیدا ہونے لگتی ہے، جب بھی حکمرانوں کے چہروں پر سوالات کی روشنی پڑنے لگتی ہے، تو سب سے پہلے سچ کی کتابوں کو جلایا جاتا ہے، ریکارڈز کو مٹایا جاتا ہے اور سوال پوچھنے والوں کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ پرانی حکمت عملی ہے، جسے آج بھی جدید طریقوں سے دہرایا جا رہا ہے۔
امریکہ میں جان ایف کینیڈی کے قتل کی فائلیں جاری کی جا رہی ہیں اور بظاہر یہ سچ کی جیت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن دوسری طرف، اسی حکومت کے ہاتھوں ہزاروں سرکاری ریکارڈز کو ڈیلیٹ کر دیا جا رہا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کو مٹایا جا رہا ہے اور تحقیقاتی ڈیٹا کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف "شفافیت" کا نعرہ اور دوسری طرف حقائق کا گلا گھونٹنا—یہ دوہرا معیار دراصل ایک خاص سوچ کا عکاس ہے، جس میں سچ کا انکشاف ایک سیاسی ہتھیار ہے، نہ کہ اصول۔ پاکستان میں بھی یہ کھیل مختلف انداز میں کھیلا جا رہا ہے، جہاں معلومات کو یا تو چھپا دیا جاتا ہے، یا پھر اتنے مسخ شدہ انداز میں عوام کے سامنے لایا جاتا ہے کہ وہ سچائی سے زیادہ الجھن میں مبتلا ہو جائیں۔
یہاں بھی ایسے حقائق ہیں جنہیں سنسر کیا جاتا ہے، رپورٹیں جو کبھی مکمل طور پر شائع نہیں ہوتیں اور ایسے معاملات جن کے بارے میں "عوام کو جاننے کی ضرورت نہیں" کا بہانہ دے کر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ کبھی کسی تحقیقاتی رپورٹ کے حساس حصے غائب کر دیے جاتے ہیں، کبھی سرکاری ڈیٹا میں رد و بدل کرکے اصل حقائق کو چھپایا جاتا ہے اور کبھی کسی صحافی کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سوال پوچھنا چھوڑ دے، ورنہ نتائج کے لیے تیار رہے۔
ہمارے ہاں نصاب کی تبدیلی بھی اسی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ جو تاریخی حقائق حکومتوں کے لیے ناخوشگوار ہوتے ہیں، وہ نصاب سے حذف کر دیے جاتے ہیں اور وہ ابواب جو کسی خاص نظریے کی ترویج میں مددگار ہوں، انہیں زبردستی نصاب کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ پاکستان میں تعلیمی نصاب کو بار بار "دوبارہ مرتب" کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ دراصل تاریخ کو کنٹرول کرنے اور نئی نسل کو مخصوص نظریاتی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش ہے، تاکہ وہ وہی سچ دیکھیں جو انہیں دکھایا جا رہا ہے۔
لیکن یہ سب صرف تعلیمی نصاب تک محدود نہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی پر تحقیق کرنے والے ماہرین اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ان کے اعداد و شمار کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ جو رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ پاکستان میں موسمیاتی تباہی کس رفتار سے بڑھ رہی ہے، انہیں یا تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، یا پھر سیاسی وجوہات کی بنا پر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو سائنسدان ان حقائق کو سامنے لاتے ہیں، انہیں "ملک دشمن" یا "بیرونی ایجنڈے" کا حصہ قرار دے کر خاموش کر دیا جاتا ہے۔
یہ سب بالکل اسی طرح ہے جیسے امریکہ میں بعض سرکاری ویب سائٹس سے موسمیاتی ڈیٹا ہٹا دیا گیا، تاکہ عوام کو وہ سچ نہ معلوم ہو جس سے حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب بھی حقائق طاقتوروں کے لیے غیر آرام دہ ہو جاتے ہیں، وہ یا تو غائب ہو جاتے ہیں، یا پھر ان کا متبادل جھوٹ پیش کر دیا جاتا ہے؟
پاکستان میں صحافت کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ اگر کوئی صحافی کسی ایسے معاملے پر رپورٹنگ کر لے جو طاقتور طبقے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، تو یا تو اس کی رپورٹ منظر عام پر آنے سے پہلے روک دی جاتی ہے، یا پھر اس پر اتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ خود ہی پیچھے ہٹ جائے اور جو پیچھے نہ ہٹے، اس کے لیے یا تو عدالتوں میں مقدمات، یا پھر ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ اسے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنی پڑے۔ یہ طریقے پرانے ہیں، مگر آج بھی مؤثر ہیں۔
ایسے میں کچھ لوگ پھر بھی ہمت نہیں ہارتے۔ وہ ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کے لیے، سچ کو بچانے کے لیے اور حقائق کو مٹنے سے روکنے کے لیے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ امریکہ میں، جب سرکاری ویب سائٹس سے ڈیٹا غائب ہونے لگا، تو کچھ "دیوانے" افراد نے اس ڈیٹا کو بیک آپ کے ذریعے محفوظ کرنا شروع کر دیا۔ یہی کام پاکستان میں بھی کچھ بے لوث صحافی، محقق اور کارکن کر رہے ہیں۔ وہ وہ معلومات جمع کر رہے ہیں جو کہیں اور سے غائب ہو رہی ہیں، وہ وہ حقائق سامنے لا رہے ہیں جنہیں دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ وہ سوال پوچھ رہے ہیں جنہیں سننے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ چند افراد ہمیشہ کے لیے سچائی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ چند صحافی، چند محققین، یا چند ڈیٹا سائنسدان ہمیشہ اس آگ کے سامنے بند باندھ سکیں جس میں سچ کو جلا کر راکھ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اگر عام شہری اس جدوجہد کا حصہ نہیں بنتے، اگر عوام خود سچ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے، تو پھر ایک وقت آئے گا جب سچ محض ایک یاد بن کر رہ جائے گا اور جو کچھ ہمیں بتایا جائے گا، وہی ہماری حقیقت ہوگی۔
یہ جنگ محض ڈیجیٹل ڈیٹا کی نہیں، یہ جنگ صرف صحافت کی نہیں، یہ جنگ سچ اور جھوٹ کے درمیان ہے اور اس جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا مطلب یہی ہے کہ جھوٹ کو جیتنے دیا جائے۔ جو حکومتیں سچ کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، وہی اکثر سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ وہ سچ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اسے اپنے مفاد کے مطابق توڑ موڑ کر پیش کرتی ہیں اور جب یہ سب ناکام ہو جائے تو پھر سچ کو جلا دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ سچ کو ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کسی نہ کسی شکل میں، کسی نہ کسی راستے سے، کسی نہ کسی ذریعے سے دوبارہ ابھرتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ جب وہ لمحہ آئے گا، تو کیا ہم اس کے استقبال کے لیے تیار ہوں گے، یا پھر اسی اندھیرے میں رہنے کو ترجیح دیں گے جس میں ہمیں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
--
Muhammad Salahuddin
CEO
Ottran GK News
salahuddin@ottrangknews۔ com