Monday, 07 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Ghair Sciency Ilaj Aur Sehat Ke Khatrat

Ghair Sciency Ilaj Aur Sehat Ke Khatrat

غیر سائنسی علاج اور صحت کے خطرات

پاکستان میں متبادل طب کو مکمل علاج سمجھنے کا رجحان عام ہے، جس کی وجہ سے لوگ بغیر تحقیق کیے جڑیی بوٹیوں اور ہومیوپیتھی علاج کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس رجحان کے نتیجے میں صحت کے سنگین مسائل جنم لیتے ہیں، کیونکہ کسی بھی دوا یا علاج کو اختیار کرنے سے قبل سائنسی طور پر اس کی جانچ ضروری ہوتی ہے۔ دواؤں کی تحقیق اور تجربہ کسی بھی طبی طریقہ کار کی بنیادی شرط ہے، جس کے بغیر کسی علاج کو مؤثر اور محفوظ نہیں کہا جا سکتا۔

سائنسی اصولوں کے مطابق، کسی بھی دوا کو استعمال کرنے سے پہلے مختلف مراحل میں آزمایا جاتا ہے۔ ان مراحل میں پہلے لیبارٹری میں جانچ کی جاتی ہے، پھر جانوروں پر تجربات کیے جاتے ہیں اور آخر میں انسانوں پر کلینیکل ٹرائلز ہوتے ہیں۔ ان مراحل کے بغیر کسی بھی دوا کو مارکیٹ میں لانا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں، تاہم، نیم حکیم اور غیر مستند معالجین جڑی بوٹیوں اور ہومیوپیتھی دواؤں کو بغیر کسی سائنسی تحقیق کے فروخت کرتے ہیں، جس سے عوام کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر، پاکستان میں جگر کے امراض کے علاج کے لیے مختلف جڑی بوٹیوں کو استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ ان میں بعض زہریلے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ کئی بار ایسے مریض جو صرف دیسی علاج پر انحصار کرتے ہیں، جگر کی خرابی کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ حال ہی میں ایک شخص نے ہیپاٹائٹس کا علاج ایک مقامی حکیم سے کروایا، جس نے اسے جڑی بوٹیوں کا سفوف دیا۔ کچھ دنوں بعد اس کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور جب وہ اسپتال پہنچا، تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کے جگر کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔

ایک اور مثال شوگر کے مریضوں سے متعلق ہے، جہاں ہومیوپیتھی علاج کو انسولین کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ ہومیوپیتھی کی دوائیں سائنسی بنیادوں پر مؤثر ثابت نہیں ہوئی ہیں، لہٰذا ایسے مریض جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں، ان کی شوگر بے قابو ہو جاتی ہے اور انہیں سنگین پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک مریض نے انسولین کے بجائے ہومیوپیتھی دوا لینا شروع کر دی، جس کے نتیجے میں اس کے گردے فیل ہو گئے اور اسے ڈائلیسس کروانا پڑا۔

پاکستان میں دیسی علاج کی مقبولیت کا ایک سبب کم علمی اور سہ جہالت بھی ہے۔ لوگ روایتی حکیموں کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں اور جدید سائنسی طریقہ کار پر شک کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کینسر جیسے موذی مرض کے کئی مریض اپنی ابتدائی حالت میں اسپتال جانے کے بجائے جڑی بوٹیوں کے علاج پر انحصار کرتے ہیں اور جب ان کا مرض آخری مراحل میں پہنچ جاتا ہے، تب وہ اسپتال کا رخ کرتے ہیں، جہاں علاج تقریباً ناممکن ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جدید ادویات کو سخت سائنسی مراحل سے گزارا جاتا ہے تاکہ ان کے اثرات اور نقصانات کا تفصیلی تجزیہ کیا جا سکے۔

ایک بزرگ شخص کو ہائی بلڈ پریشر تھا، مگر اس نے ڈاکٹر کے مشورے کے بجائے ایک حکیم سے علاج کروانا شروع کیا، جس نے اسے ایک خاص جڑی بوٹی کا قہوہ پینے کا مشورہ دیا۔ چند ہفتوں بعد اس کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ گیا اور نتیجتاً وہ فالج کا شکار ہوگیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق، اگر وہ باقاعدہ دوائیں لیتا، تو یہ نقصان نہ ہوتا۔

متبادل طب میں موجود سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں استعمال ہونے والے اجزاء کی مقدار، معیار اور اثرات کے بارے میں کوئی مستند سائنسی تحقیق نہیں کی جاتی۔ مختلف جڑی بوٹیوں میں ایسے کیمیکل موجود ہو سکتے ہیں جو مخصوص بیماریوں کے علاج میں فائدہ مند ہوں، لیکن جب تک ان کا باقاعدہ لیبارٹری میں تجزیہ نہ کیا جائے، ان کے مضر اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر، ایلو ویرا کو عام طور پر جلد کی بیماریوں کے لیے مفید سمجھا جاتا ہے، لیکن کچھ افراد میں اس سے شدید الرجی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، ارک گاؤزبان کو دل کے امراض میں مفید سمجھا جاتا ہے، مگر اس کے غیر متوازن استعمال سے جگر کے افعال متاثر ہو سکتے ہیں۔

سائنس ہمیں سکھاتی ہے کہ کسی بھی دوا کو بغیر تحقیق کے استعمال نہیں کیا جا سکتا، چاہے وہ جڑی بوٹیوں پر مبنی ہو یا ہومیوپیتھی کی صورت میں ہو۔ اس کے برعکس، پاکستان میں متبادل علاج کے نام پر غیر سائنسی طریقوں کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عوام صحت کے بنیادی اصولوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی دوا کو مارکیٹ میں لانے سے قبل اس پر کئی سال تک تحقیق کی جاتی ہے، جبکہ پاکستان میں بغیر کسی تحقیق کے دوائیں عام دستیاب ہوتی ہیں۔

جدید دوائیں پہلے لیبارٹری میں مختلف کیمیکل ری ایکشنز سے بنائی جاتی ہیں، پھر جانوروں پر ان کے تجربات کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں چھوٹے پیمانے پر مریضوں پر آزمایا جاتا ہے اور آخر میں ہزاروں مریضوں پر تحقیق کے بعد انہیں عوام کے لیے منظور کیا جاتا ہے۔ اگر یہی اصول جڑی بوٹیوں پر بھی لاگو کیے جائیں، تو دیسی علاج کو زیادہ محفوظ اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو متبادل طب کے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور انہیں سائنسی بنیادوں پر مبنی علاج کی طرف مائل کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر مستند معالجین اور غیر رجسٹرڈ دواؤں کی فروخت پر سخت کارروائی کرے تاکہ عوام کی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔ جب تک ہم سائنسی اصولوں پر عمل نہیں کریں گے، اس وقت تک صحت کے مسائل کا مؤثر حل ممکن نہیں ہوگا۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mutwasat Tabqe Ki Safaid Poshi Se Mehroomi

By Nusrat Javed