منشیات کا باپ آئس کانشہ ہے

پاکستانی معاشرہ منشیات کے زہر کے ہاتھوں سسک سسک کر دم توڑ رہا ہے۔ خاص طور پر دو نمبر سستی آئس غریب سے امیر تک بے دریغ استعمال کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق، بعض اوقات ڈیپریشن میں مبتلا لوگ نشے کا استعمال شروع کر دیتے ہیں اور پھر وہ مزید ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ آئس کا نشہ کرنے کے بعد بھوک و پیاس سے مبرا انسان 24 سے 48 گھنٹے بآسانی جاگ سکتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل بالخصوص لڑکیوں میں منشیات کا استعمال وبا کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ منشیات فروشوں کی ہٹ لسٹ پر کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ ہیں کیونکہ امیر اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں سے رقم آسانی سے مل جاتی ہے۔ آئس نشہ کیا ہے؟
آئس ایک ایسا نشہ ہے جس کو پہلی بار استعمال کرنے سے انسان کے اندر خوشی کے ہارمونز کو انتہائی ایکٹیو کردیتی ہیں جگا دیتے ہیں جس کے وجہ سے انسان انتہائی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ آئس کا نشہ 36 سے 72 گھنٹے تک ہوتا ہے اور وہ انسان 72 گھنٹوں تک جاگ رہتا ہے۔ پہلی دفعہ انسان کو آئس استعمال کرنے سے جو لذت اور خوشی ملتی ہے وہ آہستہ آہستہ کم ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ انسان آئس کی ڈوز بڑا دیتے ہیں تاکہ وہ پہلی والی خوشی محسوس کر سکے۔
وقت کے ساتھ ساتھ آئس انسان کی ہڈیوں کو پکڑ لیتا ہے اور پھر وہ انسان اس قبیح عمل کا عادی بن جاتا ہے۔ آئس استعمال کرنے والے انسان پر بھروسا کرنا بیوقوفی ہے۔ آئس استعمال کرنے والے انسان کے ہاتھوں سے کسی بھی وقت ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے جب وہ نشے کی حالت میں ہو تب۔ آئس نشہ نہ استعمال کرنے کی علامت یہ ہے کہ بندہ 24 گھنٹے سویارہتا ہے۔ اس میں کوکین، چرس، ہیروئن کی طرح بدبو بھی نہیں ہوتی، شفاف شکل اور بے بو خاصیت نے اس نشے کو دنیا بھر میں مقبولیت بخشی ہے۔
جب اس نشے سے پیدا ہونے والے احساسات ختم ہوتے ہیں تو اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے نشے کا عادی شخص دماغی خلل، چڑچڑے پن، گھبراہٹ، تھکاوٹ، ڈپریشن اور ہیجانی رویے کا شکار ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ مایوس کن کیسز وہ ہیں جن میں کم عمر افراد سمجھتے ہیں کہ آئس سے ڈپریشن میں کمی لائی جاسکتی ہے اور امتحانات میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ آئس کے مسلسل استعمال سے گھبراہٹ، غصہ اور شک کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔
طبیعت میں اتار چڑھائو رہتا ہے اور فیصلے کی قوت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسا شخص اپنی نظر انتہائی خود اعتماد بن جاتا ہے اور اسی لیے کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ یہی نہیں یہ نشہ پرتشدد طبیعت کو جنم دیتا ہے۔ ویسے تو منشیات کی ساری اقسام ہی انسان کو اندر سے کھوکھلا کرکے اس کو موت کے دہانے پر پہنچا دیتی ہیں لیکن ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق آئس نشہ دیگر تمام منشیات کی اقسام سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔
ایک نوجوان نے علی الصبح اپنے ہی گھر میں فائرنگ کرکے اپنے والد سمیت تین افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کی ایف آئی آر ملزم کے بھائی کی مدعیت میں درج کروائی گئی جس میں بتایا گیا کہ ملزم بھائی آئس کے نشے کا عادی تھا جس کے باعث اس کی ذہنی حالت ناکارہ ہو چکی تھی۔ نشے کا عادی ایک ایسا نوجوان بھی لایا گیا جس کی ذہنی حالت اتنی خراب ہو چکی تھی کہ اسے لگتا تھا کہ اس پر جنوں کا سایہ ہے۔ آئس کے نشے سے انسان کئی گنا زیادہ متحرک اور چست ہو جاتا ہے اور اس کے حواس اتنے متحرک ہوتے ہیں کہ جو چیز اور بات وجود نہیں بھی رکھتی، وہ انھیں نظر آنے لگتی ہے اور وہ اس پر بضد ہوتے ہیں اور بعض اوقات قتل تک کرنے سے نہیں کتراتے۔ آئس کے نشے میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں نوجوان لڑکے لڑکیاں اور بڑی عمر کے تمام لوگ شامل ہیں۔
ایک شخص نے بتایا کہ میرے جاننے والے کچھ دوست آئس کا نشہ کرتے تھے، میں نے بھی ٹرائی کی اور اس کے بعد تو جیسے میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔ ، مجھے اپنے آپ پر اتنا اعتماد تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی آئس وغیرہ لے اور پھر اسے نہ چھوڑ سکے مگر جلد ہی معلوم ہوگیا کہ جب آپ یہ نشہ شروع کرتے ہیں تو اس کے بعد آپ کو اور کچھ نہیں چاہیے ہوتا۔ بس یہی آئس آپ کی ساتھی ہوتی ہے، محبت کو چھوڑیے باقی تمام تر احساسات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس شخص کا اب دوسری مرتبہ علاج کروایا جا رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ علاج کے ساتھ ساتھ اپنے آپ پر قابو پانا بہت ضروری ہے وگرنہ نشہ چھٹنے کے بعد اس نشے کی طلب پھر بڑھ سکتی ہے اور یہی کچھ ان کے ساتھ پہلی مرتبہ علاج کے بعد ہوا تھا۔ اس دوران میں نے باقی نشے بھی کیے لیکن آئس کے نشے کے انسانی نفسیات اور جسم پر انتہائی خطرناک اثرات ہوتے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں نشے کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد اس لیے بھی زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نشے کے عادی افراد بھی یہاں آتے ہیں اور اس کی وجہ خیبرپختونخوا میں نشے کی آسانی اور سستے میں دستیابی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا کے افغانستان کے ساتھ طویل سرحد کی وجہ سے نشہ پاکستان پہنچ جاتا ہے۔ وہ پہلے ہیروئن کا نشہ کرتے تھے جو اب بہت مہنگی ہو چکی ہے جبکہ ایک گرام تک آئس پشاور میں صرف 400 روپے میں مل جاتی ہے چنانچہ انھوں نے آئس کا استعمال شروع کر دیا۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں اس وقت نشے کے شکار افراد کی مجموعی طور لگ بھگ 67 لاکھ کے قریب ہے جن میں 78 فیصد مرد جبکہ 22 فیصد خواتین ہیں۔ بعض دیگر اداروں کی رپورٹس میں یہ تعداد 76 لاکھ تک بتائی گئی ہے۔ آئس نشے کا عادی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، دوست میں تمیز کھو بیٹھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پھر وہ جرم کی جانب مائل ہونا شروع ہوجاتا ہے اس کے اندرسماج کے خلاف نفرت بیدار ہوتی ہے جو اسے جرم کے دوران سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ کئی سال تک آئس کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ہر نشے کا انجام دردناک موت ہی ہوتا ہے لیکن آئس نشے کا عادی پاگل پن کا شکار ہوکر اپنے خاندان و معاشرے کے لیے کسی پاگل کتے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔