گندم کی خریداری اور مریم نواز حکومت

یہ مریم نواز حکومت کا بڑا فیصلہ تھا کہ وہ سرکاری سطح پر گندم کی خریداری نہیں کرے گی جس کا بہت ردعمل آیا۔ اس فیصلے نے گندم کی سرکاری(یا امدادی) قیمت کا تصور بھی ختم کرکے رکھ دیا کیونکہ جب حکومت اپنی دی ہوئی قیمت پر خریداری نہیں کر رہی تو وہ قیمت مارکیٹ ریٹ نہیں بن سکتی، آڑھتی اپنا ریٹ ہی دے گا۔ کسان آڑھتی کو اس کے دئیے ریٹ پر گندم فروخت کرنے پر مجبور ہوگا کیونکہ اس کے پاس متبادل نہیں ہے اور ایک مرتبہ خریدی سستی خریدی ہوئی گندم بعد ازاں منافع کے ساتھ بیچی جائے گی کہ یہی تجارت ہے۔
ایک تجویز ہے کہ کسان خود گندم روک لے مگر دوسوال ہیں کہ قرض لے کر گندم کے پیداواری اخراجات پورے کرنے والا کسان کس طرح اپنی پراڈکٹ کو ہولڈ کرے کہ وہ کسان ہے تاجر نہیں اور دوسرے وہ اپنی فصل کو کہاں ذخیرہ کرے۔ جب ہم پاکستانی پنجاب کے کسان کا موازنہ بھارتی پنجاب کے کسان کے ساتھ کرتے ہیں تو وہ ہمیں زیادہ سہولتیں لیتا اور زیادہ فی ایکڑ پیداوار دیتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہ عشروں سے آزمودہ اور آسان فارمولہ نظر آتا ہے کہ حکومت گندم کی خریداری میں اپنا کرداربرقرارر کھے تاکہ کسان کو گندم میں منافع ملتا رہے۔ وہ گندم اگاتا رہے اور ہماری فوڈ سیکورٹی برقرار رہے۔ میں نے بہت سارے کسانوں، آڑھتیوں اور زراعت کے ماہرین سے بات چیت کی، ان کی بھاری اکثریت اسی فارمولے کی حامی ہے کہ کسان کو اوپن مارکیٹ کے منافع خوروں کے رحم و کرم پرنہ چھوڑا جائے۔
تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور وہ بھی کافی دلچسپ ہے۔ غیر کسان (اس میں صنعتکار شامل کر لیں یا اکنامک رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سمیت دیگر) کہتے ہیں کہ صرف کسان ہی اہم نہیں بلکہ وہ مزدور بھی اہم ہے جو کسان کو منافع دینے کے لئے غیر معمولی طور پر مہنگی کی گئی گندم کے نتیجے میں بہت مہنگا آٹا خریدتا ہے اوراسے ریلیف دینے کے لئے سرکار کو پھر سبسڈی دینی پڑتی ہے یعنی پہلے وہ کسان کو امدادی قیمت دیتی ہے، گندم مہنگی کرتی ہے اوراس کے بعد غریب کو سبسڈی دیتی ہے تواس میں کون سی سائنس کون سی اکنامکس ہے، یہ تو نری حماقت ہے۔
پنجاب کی حکومت ہر برس گندم کی خریداری کے لئے کئی کئی سو ارب روپے قرض لیتی ہے۔ میں لاہور کے مشہور کامرس رپورٹر اور انویسٹی گیٹو جرنلسٹ ذوالفقار علی مہتو کی ایک خبر آپ کے ساتھ حرف بہ حرف شئیر کرتا ہوں جو گذشتہ برس 8مئی کو شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق، وفاق کی جانب سے پنجاب کو گندم کی خریداری کے لئے زیر التوا 552 ارب روپے قرض کی منظوری دے دی گئی ہے جبکہ وزارت خزانہ نے گندم قرض کے اجرا کے لئے سٹیٹ بنک کو بھی خط لکھ دیا ہے۔
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق 196 ارب روپے 20لاکھ ٹن گندم کی خریداری کے لئے دئیے گئے ہیں جبکہ 356 ارب روپے گندم کے پرانے قرضوں کے رول اوور کے لئے ہوں گے۔ دستاویزات کے مطابق پنجاب حکومت نے ڈیڑھ ماہ قبل قرض منظوری کی سمری وفاق کو بھیجی تھی۔ ذرائع کے مطابق نئے گندم قرض کے لئے 22 فیصد شرح مارک آپ ہوگی، پنجاب بینک سمیت متعدد بینکوں نے 16اپریل کو قرض کی بولی دی تھی۔
یہ خبر بتاتی ہے کہ گندم کی خریداری کے لئے پنجاب حکومت ہر برس کئی سو ارب روپوں کے قرض تلے دب جاتی ہے اور پھر اس پر بھاری شرح سود کیونکہ یہ قرض محدود مدت کے لئے ہوتا ہے۔ جب حکومت یہ گندم خریدتی ہے تواس کے سٹوریج کے اخراجات کافی ہوتے ہیں۔ محکمہ خوراک کی کرپشن بھی ایسی ہی ہے جیسے محکمہ انہار کی۔ یہ بہت زیادہ نظر نہیں آتی مگر ایسی خبریں آپ نے دیکھی ہوں گی کہ سرکاری طور پر ذخیرہ کی گئی گندم مٹی بن جاتی ہے، ضائع ہوجاتی ہے یعنی سود کے بعد مزید نقصان۔ سو حکومت اگر اس پورے عمل سے نکلنا چاہتی ہے تو اس کے بھی جواز موجود ہیں۔
آپ سرکاری افسران کو ایک خریداری کے عمل کا حصہ بنا دیتے ہیں اور وہ اس میں وہی رویہ اختیار کرتے ہیں جو سرکاری افسران کا ہوتا ہے یعنی اس خریداری میں بھی کرپشن۔ کسان کو فائدہ دینے کے لئے کرپشن اور خرچے کا ایک گھن چکر شروع ہوجاتا ہے جس کا تمام پیسہ آخر کار عوام کی جیب سے ہی نکلتا ہے جیسے نگران دور میں ساڑھے چار ہزار روپے من والی گندم اوراس کا مہنگا ترین آٹا، جس نے عوام کی چیخیں نکلوا دی تھیں۔ اس دور میں یہ بھی ہوا کہ امپورٹڈ گندم گوداموں میں پڑی تھی اور کسانوں سے خرید کی گئی گندم باہر یعنی نقصان در نقصان۔
بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اگر حکومت گندم کی خریداری کے عمل سے باہر رہی تو کسان گندم اگانا بند کر دیں گے، اس سے گندم کا بحران پیدا ہوگا مگر اس کا جواب ہے کہ اگر وہ گندم نہیں اگائیں گے تو اس کی جگہ کوئی دوسری قیمتی فصل کاشت کر لیں گے یوں نہ کسان گھاٹے میں رہے گا اور نہ حکومت کہ وہ گندم امپورٹ کرکے کمی پوری کر لے گی۔
معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ ایک وقت ہماری گندم افغانستان بہت سمگل ہوتی تھی مگر اب دو وجوہات پر کوئی اس کا نام تک نہیں لیتا ایک، مرد مجاہد سید عاصم منیر نے سمگلنگ کا دھندا ہی بند کروا دیا ہے اور دوم، ہماری گندم حکومتی امدادی قیمت کی وجہ سے پورے خطے میں سب سے زیادہ مہنگی ہوگئی لہٰذا اب پاکستان میں سمگل ہوکے تو منافع دے سکتی ہے پاکستان سے سمگل ہو کے نہیں۔ ابھی کچھ عرصے کی بات ہے کہ کسان بھی ایکا کر لیں گے اور وہ اپنا ریٹ دیا کریں گے۔
مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ کسان آپس میں اتحاد کرکے اس کی سٹوریج کے نظام بھی بنا سکتے ہیں اور جو منافع آڑھتی یا فلور ملز کماتی ہیں وہ خود بھی کما سکتے ہیں، اس میں کسان کارڈ ان کا معاون ہوسکتا ہے۔ کسان کے گھاٹے کا جواب یہ بھی ہے کہ جب بہت سارے کسان گندم نہیں اگائیں گے تو رسد کم ہونے پر مارکیٹ ریٹ خودبخود بہتر ہوجائے گا۔ ایگریکلچرل مارکیٹنگ ایک بڑا ٹیکنیکل ٹاپک ہے، مجھے یقین ہے کہ انٹرنیٹ سے جڑے کسان بہت سارے نئے راستے تلاش کر لیں گے۔
میں یہ ضرور کہوں گا کہ گندم کی سرکاری خریداری سے نکلنے کا فیصلہ کوئی بہت بہادراور مہم جو حکمران ہی کر سکتا تھا جومریم نواز ہیں جنہوں نے اپنے ووٹ بینک کی پروا کئے بغیرتجاوزات کا صفایا کیا اور یہ کام بھی ماضی میں کوئی نہیں کرسکا۔ مجھے لگتا ہے کہ گندم کی خریداری اور سٹوریج سے نکلنے کے بعدمحکمہ خوراک کی بہت ساری آسامیاں بھی اضافی ہوجائیں گی اور یہ محکمہ گندم کی خریداری کے پلئیر کی بجائے محض ریگولیٹر بن کے رہ جائے گا۔ پھر کہوں گا گندم کی سرکاری خریداری ایک محفوظ راستہ ہے مگر اس میں سرکار کی ہر طرح سے کھپت بہت زیادہ ہے، سرکار نے اس شعبے میں کم کھپنے کا فیصلہ کیا ہے۔