Thursday, 10 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Badar Habib Sipra
  4. Sartan e Khoon Aur 28 Din Ka Chilla

Sartan e Khoon Aur 28 Din Ka Chilla

سرطان خون اور 28 دن کا چِلّہ

بائیں پاؤں پر ایک چھوٹا سا نشان، جو وقت کے ساتھ زخم بنا، پھر ناسور اور آخرکار، ایک ایسی جنگ، جس میں زندگی اور موت دونوں سامنے کھڑی تھیں۔ وقت گزرنے لگا، زخم بڑھنے لگا، جلد تو جلد ماس کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔ یہاں تک کہ صفائی کرتے وقت ہڈی کی بیرونی سطح نظر آنے لگی۔ ہلکا ہلکا بخار رہتا، جسم تھکاوٹ سے چُور رہتا، وزن مسلسل کم ہونے لگا، جسم کمزور پڑنے لگا۔

ایک تیس سالہ محنت کش باپ جو بچوں کا پیٹ پالنے روزانہ کھڑا ہوتا، چاہے ٹانگ ساتھ دے یا نہ دے۔ زخم سے اٹھتی تکلیف چھپاتا، صرف رزقِ حلال کے لیے۔ مرتا کیا نہ کرتا؟ روٹی کے لالے پڑتے تو واپس ہمت سے کام لیتا۔ خُدا کی آزمائش سمجھ کر واپس کام پر لوٹتا اور دن بھر کھڑے ہو کر حمام پر کام کرتا۔ ہر گاہک کو دکھڑا سناتا، زخم دکھاتا۔ ہمدردی میں کوئی تسلی دیتا، تو کوئی ڈراتا کہ "فلاں کو بھی تو یہی مسئلہ تھا! بہت علاج کیے، مگر بیچارہ جان کی بازی ہار بیٹھا"۔ کوہ طور سر پر ڈھانے کے بعد دعا بھی کرتے، "خدا آپ کو صحت دے، آپ کے چھوٹے بچوں کا واسطے، ہائے آپ کے بچے! زندگی کے اس ستم ظریف پہلو کو خوب اجاگر کرتے تاکہ کوئی کسر باقی نہ رہے۔

نیم حکیم تو کیا، پُلوں تلے بیٹھے عامل بھی نہ چھوڑے۔

جہاں کسی نے ڈھارس بندھائی، وہیں چل پڑے۔ مرتا کیا نہ کرتا؟ ایک بار ایک قلندر کے ہاں جانا ہوا، جو اپنے چیلوں کے ہاں ایسا مقام رکھتا جیسے سقراط کی دہلیز۔ موصوف زخم کی حالت کو بغور دیکھتے ہوے گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر اچانک خاموشی توڑی اور ایک نیا فلسفہ آشکار ہوا۔ اس فلسفے کی بنیاد پر مرض کی جڑ ایک سانپ کا ڈسنا تھا۔ جس نے ڈسنے سے قبل ایک زہریلے بچھو کا شکار کر رکھا تھا۔ جس کا زہر اندر ہی اندر پھیل رہا تھا۔ اس فلسفے کی روشنی میں علاج کے طور پر ایک "اٹھائیس دن کا چِلّہ تجویز کیا گیا۔ جس کے اصول و ضوابط خاصے سخت اور کٹھن تھے۔ اٹھائیس دن تک گھر میں قید، کسی سے میل جول نہیں، غلطی سے بھی کسی کا چہرہ نہ دیکھنا، وغیرہ۔

ہمارے ہاں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔۔

جب بھی کوئی انوکھا مرض یا مسئلہ در پیش ہو، ہر کوئی اپنی گٹھری کھول کر فلسفے سناتا ہے۔ بعض اوقات وہ صحیح بھی ثابت ہوتے ہیں، جیسے اسی فلسفے کو جدید دنیا نے "آئیسولیشن" اور "قرنطینہ" کے نام سے جانتی ہے۔ مگر شاید اس صورت حال میں یہ فلسفہ کارگر نہ رہا۔

ابتدائی دنوں میں تنہا رہنے کے باوجود جب افاقہ نا ہوا، جسم میں مزید سستی آنے لگی تو مایوس ہو کر چِلّہ ہی توڑ دیا۔ گھر سے نکلتے ہی بائیک پر بیٹھے اور دکان کی راہ لی۔ دکان کا دروازہ کھولا، اللہ کا نام لیا، جو بھی آتا، وہی دعائیں دیتا۔ کہتے ہیں، دکھ بانٹنے سے دکھ کم ہو جاتا ہے۔ یہ بات شاید کارآمد ثابت ہوئی۔ کسی جاننے والے بھلے مانس کے کہنے پر ملتان کے ایک ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تجربے کی بنیاد پر معاملے کی نزاکت کو پرکھ لیا اور فوراً ایک بایوپسی کا مشورہ دیا۔ بایوپسی کی رپورٹ آنے پر، جب ڈاکٹر نے مریض کو حوصلہ مند اور باہمت پایا، تو بڑے ہی محتاط انداز میں تشخیص سنائی: "جناب، آپ کو خون کا کینسر ہے"۔ کونسلنگ کرتے ہوے اور شفا کی امید میں شوقِ حیات کو سہارا دیتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال ریفر کر دیا۔ اعصاب کو قابو میں رکھتے ہوئے، دل میں خدا پر توکّل کیے، بغیر کسی کو اطلاع دیئے، ملتان سے سیدھا لاہور کی راہ لی۔

شوکت خانم پہنچ کر مزید ٹیسٹ ہوئے۔ شکرِ خداوندی کہ کینسر زیادہ پھیلا نا تھا۔ سٹیج دوم پر تھا، جو کہ ایک قابلِ علاج مرحلہ مانا جاتا ہے۔ تشخیص کے فوری بعد مریض کو داخل کر لیا گیا اور کیموتھراپی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ چونکہ کینسر کا علاج بےحد مہنگا ہے، اس لیے ہر شخص اس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ ایسے مریضوں کے واسطے شوکت خانم جیسے ادارے کسی نعمت سے کم نہیں، جو آپ لوگوں کے عطیات کے مرہون منت ہے، ہزاروں زندگیاں بچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ایسے اداروں کو مزید ترقی دے، تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس موذی مرض سے لڑ سکیں، صحت مند زندگی کی طرف لوٹ سکیں۔

کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا افراد کی زندگی وبالِ جان بن جاتی ہے۔ زندگی کے جنجال میں ایسا الجھتے ہیں کہ ہر لمحہ ایک نئی آزمائش سے پالا پڑتا ہے۔ بار بار اسپتال کے چکر، مہنگے علاج، جسمانی کمزوری اور ذہنی تھکن، سب مل کر انسان کو توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے میں گھر محض ایک سایہ رہ جاتا ہے۔ اس کٹھن صورتحال میں بجاج نیازی صاحب کا ایک عمل قابلِ ستائش ہے۔ ایک ایسا قدم، جو نااُمیدی کے اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن ہے۔ کہ اس دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے کام آتے ہیں۔

کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا افراد کے لیے نیازی صاحب نے ٹرانسپورٹ مفت فراہم کرکے دل جیت لیے۔ انہوں نے سہولت کارڑ کا اجرا کر رکھا ہے جس کے تحت ملک کے کسی بھی کونے سے کینسر کا کوئی بھی مریض نیازی ایکسپریس کے ذریعے بالکل مفت سفر کر سکتا ہے۔ چاہے وہ اسپتال جائے، علاج کرائے یا چیک آپ کے لیے سفر کرے۔ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے کام آنا ہے، اپنے لیے تو سب جیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نیازی صاحب کو اس عظیم کارِ خیر کی جزا دے اور ان کے اس مشن کو مزید وسعت عطا فرمائے تاکہ سینکڑوں نہیں، ہزاروں زندگیاں آسان ہو سکیں۔

جب بھی کوئی ایسی صورتحال پیش آئے جس میں مسلسل وزن کم ہو رہا ہو، جسم کمزور پڑنے لگے، مسلسل بخار رہنے لگے، یا پھر جسم میں گلٹیاں یا دیگر غیر معمولی علامات ظاہر ہوں، تو یہ قابلِ توجہ علامات ہیں۔ ایسی صورت میں فوراً ایک مستند ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے کا قول یہاں سچ ثابت ہوتا ہے۔ اگر بیماری کی تشخیص جلد ہو جائے تو اس کی جڑوں کو اُکھاڑنا ممکن ہوتا ہے، مگر جب یہ جڑیں گہری ہو جائیں اور مرض پھیلنے لگے، تو پھر جسم کے دیگر اعضا بھی متاثر ہونے لگتے ہیں، جس سے علاج کا عمل کافی پیچیدہ اور مشکل ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ سٹیج تین اور چار میں بہت سی بڑی تنظیمیں جیسے شوکت خانم بھی مریضوں کو داخل کرنے سے گریز کرتی ہیں، کیونکہ علاج کی حدود اور وسائل کی کمی کی وجہ سے ان کی مدد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

Check Also

Boycott (2)

By Mansoor Nadeem