Thursday, 10 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Chalte Ho To Baku Chalte Hain (4)

Chalte Ho To Baku Chalte Hain (4)

چلتے ہو تو باکو چلتے ہیں (4)

بس 28 مئی نامی مرکزی بس اڈے پر رکی، سواریوں کے اترنے تک میں سیٹ پر براجمان رہا، آخر میں نیچے اتر کر سامان وصول کیا، بہت وسیع و عریض جگہ ہے، نہایت منظم اور ترتیب سے بسیں کھڑی تھیں، یہاں سے اندرون و بیرون شہر کیلئے بسیں روانہ ہوتی ہیں۔ مجھے کرنسی تبدیل کروانے کیلئے 28 مئی مول جانا تھا، بس اڈے سے باہر نکل کر ارد گرد کا جائزہ لیا، صاف ستھرا علاقہ، ہر طرف رونق، خوش شکل اور خوش لباس لوگ، جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی، کھلی کھلی سڑکیں، پیدل چلنے کیلئے بہترین فٹ پاتھ، سائیڈوں پر کیوسک نما چھوٹے چھوٹے کھوکھے۔

قریب سے گزرتی ایک خاتون سے 28 مئی مول کا پوچھا تو اس نے سامنے ایک بڑی بلڈنگ کی طرف اشارہ کیا، میں سفری بیگ گھسیٹتا پیدل چلنا شروع کیا، اچانک بائیں ہاتھ جم غفیر نظر آیا، رش دیکھ کر میں غلطی سے اسے ہی 28 مئی مول سمجھا، مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوا، کچھ اندر تک پیدل چلتا گیا، ہر طرف نوجوان لڑکے و لڑکیوں کے غول در غول، شکلوں سے سب رشین یا ٹرکش نظر آتے تھے یعنی خوب صورتی کے سب سے اعلیٰ پیمانے، اجلی، صاف شفاف، بے داغ رنگت، تب مجھے پیر نسیم کا ایک قول یاد آیا "دنیاوی جنت میں حوروں کی فراہمی کیلئے آذربائیجان اور شمالی روس میں سخت مقابلہ چل رہا ہے"۔

خوبصورتی بے شمار شکلوں میں آتی ہے، ہر ایک اپنی ذات میں منفرد اور دلکش ہے، ایک گوری چمڑی والی قفقازی عورت ایک آسمانی رغبت رکھتی ہے، جیسے ہاتھی دانت اور کریم کے نرم ترین رنگوں سے پینٹ شدہ کینوس، اس کی رنگت، نازک چینی مٹی کے برتن کی طرح، ایک لازوال خوبصورتی کو ظاہر کرتی ہے جو اسے دیکھنے والے کی آنکھ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور روح کو ہلا دیتی ہے، اس کی موجودگی میں، کوئی اس کی سراسر چمک دار رنگت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، جیسے چاندنی کی نرم چمک میں ٹہل رہا ہو، یہ نسوانی خوب صورتی کی ایک ایسی کسوٹی ہے جو رجحانات اور دھندلاپن سے بالاتر ہے اور مرد کے دل میں ایک لازوال رغبت کا احساس پیدا کرتی ہے جو پرفتن اور سحر انگیز دونوں ہے۔

درحقیقت، ایک خوبصورت جلد والی خاتون کی خوبصورتی ایک نایاب اور قیمتی جواہر کی مانند ہے، جسے اس کی شاندار شان و شوکت کے لیے سراہا جانا چاہیے، عورت کی خوبصورتی محض جسمانی شکل سے بالاتر ہے، یہ اس کے وجود کی گہرائیوں سے نکلتی ہے، اس کی طاقت، شان اور لچک کی عکاسی کرتی ہے، یہ اس کی مسکراہٹ کے نرم پن میں پوشیدہ ہے، اس کی آنکھوں میں چمک جو خوشی اور غم کی کہانیاں یکساں بیان کرتی ہے اور اس کے گلے ملنے کی گرمجوشی جو ان دیکھے زخموں کو مندمل کر سکتی ہے، حقیقی خوبصورتی اس کی مہربانی، اس کی ذہانت اور اس کی ہمدردی میں ہے، جو اس کے آس پاس کے لوگوں کی زندگیوں کو چھونے کے لیے اندر سے پھیلتی ہے، یہ اس طرح ہے کہ وہ خود کو اعتماد کے ساتھ اپنی انفرادیت اور خامیوں کو قبولیت اور شان کے ساتھ قبول کرتی ہے، عورت کی خوبصورتی معاشرتی معیارات یا وقتی رجحانات تک محدود نہیں ہے، یہ ایک لازوال جوہر ہے جو اس کے اعمال، اس کے الفاظ اور اس کی اٹل روح میں چمکتا ہے۔

میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر برصغیر کا کوئی دیہاتی پہلی مرتبہ باکو میں ان دنیاوی حوروں کا درشن کرے تو غش کھا کر گر پڑے اور اسے جوتے سونگھا کر ہوش میں لانا پڑے گا۔ قفقازی عورت کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر ہی کسی نے کہا تھا کہ یہ لڈو کھا کر پچھتانا بہتر ہے، اس کے خیالات کی داد دینی پڑے گی کہ کیا خوب کہا تھا اور سو فیصد سچ کہا تھا، خوب صورتی کے کسی بھی پیمانے کو معیار مقرر کرلو تو کوہ قاف کی یہ پریاں ٹاپ پوزیشن پر براجمان ہوں گی، سامنے سے آتی چار لڑکیوں کے گروہ نے خوش آمدید جملے بھی کسے اور میں خوش دلی سے ان کو دیکھ کر فقط ہاتھ ہلانے پر اکتفا کیا، اتنے میں سامنے سے ایک باوردی گارڈ مجھے دیکھ کر میری طرف آیا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا "تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟"

میں شستہ رشین زبان میں جواب دیا "ٹورسٹ ہوں اور 28 مئی مول جانا ہے"، اس کا قہقہہ برآمد ہوا اور دائیں طرف اشارہ کیا، اس کے ہاتھ کا تعاقب کرتے میری نظروں نے جب دیکھا تو رشین زبان میں لکھا آذربائیجان نفط و صناعی یونیورسٹی کا بورڈ نظر آیا، اس یونیورسٹی کی بیرونی دیوار کے پار ایک بڑی سڑک ہے جس کے دوسری طرف 28 مئی مول کی بلڈنگ نظر آرہی تھی، وہ بھی سمجھ چکا تھا کہ نیا ٹورسٹ غلطی سے راستہ بھول کر آگیا ہے، اس نے مجھ سے پوچھا " کنٹری؟"، میں جواب دیا "پاکستان"، یہ سن کر اس نے چٹاخ چٹاخ میرے دونوں گالوں پر بوسے دیئے، "پاکستان آذربائیجان برادر برادر" گرمجوشی سے ہاتھ ملایا، خود اپنی ہمراہی میں واپس مرکزی دروازے تک چھوڑنے آیا اور راستہ بھی سمجھایا۔

میں دوبارہ فٹ پر نمودار ہوا، پیدل سڑک عبور کی، اب میرے دائیں طرف شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیوں والی عمارت 28 مئی کا مرکزی ریلوے سٹیشن تھا، اس کی اوپری سطح پر ریلوے سٹیشن جبکہ زیر زمین میٹرو سٹیشن واقع ہے، یہاں سے گرین اور ریڈ دونوں لائنوں کیلئے ٹرین چلتی ہے، اس کا سابقہ نام 28 اپریل تھا، اس کی تعمیر سوویت دور میں 6 نومبر 1967 کو شروع ہوئی تھی، اسے "شہر کا دروازہ" بھی کہا جاتا ہے، شہر کے مرکز سے قربت اور اہم عوامی سماجی اور ثقافتی سہولیات کی بدولت سب سے زیادہ مسافروں کا بوجھ ہوتا ہے، پچھلا نام آذربائیجان میں سوویت اقتدار کے قیام کے اعزاز میں دیا گیا تھا۔

پتھریلا واک ٹریک بہت وسیع اور خوب صورت بنا ہے، ایک پرانے زمان کا متروک ٹیلی فون بوتھ بھی نصب تھا جو اب بھی کام کرتا تھا لیکن اس کا استعمال کرتے کسی کو نہیں دیکھا، یہ شاید ایمرجنسی لینڈ لائن کال وغیرہ کیلئے مختص تھا، اس کے بعد بائیں ہاتھ نیچے جاتی انڈر گراؤنڈ سیڑھیاں، یہاں سے انڈر گراؤنڈ پیدل سڑک کے دوسری طرف جا سکتے تھے، ایک بلند و بالا 6 میٹر کا مجسمہ بھی نصب نظر آیا، اس پر آذری زبان میں لکھا نام و وجہ شہرت میں ٹھیک سے نہیں پڑھ سکا، ایک لوہے کا بنا قدیم سٹریٹ لیمپ اس جگہ کی خوب صورتی بڑھا رہا تھا، کاریں بڑی ترتیب سے پارک تھیں، سامنے بڑھا تو مدمقابل بلڈنگ کے دائیں کنارے پر بڑے بڑے حروف میں 28 لکھا نظر آیا۔

زیبرا کراسنگ سے پیدل سڑک عبور کی، یہاں سے دائیں بائیں دونوں اطراف سڑکیں اور ہر طرز کی دکانیں، عمارت کے مرکزی داخلی دروازے پر دھوپ سے بچاؤ کیلئے بنا چھجا نہایت خوش نما منظر پیش کر رہا تھا، اندر داخل ہو ا تو ایک وسیع ہال، کالے کھردرے پتھر پر نظریں نیچے کئے چلا تو ان پر گوریوں کے گورے گورے پاؤں اور ایڑھیوں پر سے نظر نہ ہٹے، اسی دھیان میں شیشے کے دروازوں سے گزرا اور شکر ادا کیا کہ کسی سے ٹکر نہ ہوئی ورنہ سنگین نتائج برآمد ہونے کے خدشات تھے۔

Check Also

Jahalat, Taleem Aur Nach Gana

By Mubashir Aziz