Wednesday, 09 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Rasmi Shadiyan

Rasmi Shadiyan

رسمی شادیاں ‎

یہ جو ہم شادی کو ایک مقدس بندھن کہتے ہیں، شاید اب وہ صرف لغت کے صفحات پر ہی بچا ہے۔ زمینی حقائق میں تو شادی، رقصِ بے شرمی، مقابلۂ اسراف اور فخرِ جہالت کا ننگا ناچ بن چکی ہے۔ اب نکاح کی سادگی پر نہیں، ڈھول کی گونج اور ہوائی فائرنگ کی آواز پر رشتہ استوار ہوتا ہے۔ جہاں دو دلوں کا ملاپ ہونا چاہیے، وہاں دو بندوقوں کا رقص ہوتا ہے اور دو گھروں کا ملاپ نہیں بلکہ دو اسٹیجوں کا تصادم دکھائی دیتا ہے۔

دیہاتی بارات جب دلہن کے دروازے پر پہنچتی ہے تو لگتا ہے جیسے کسی راجکماری کے قلعے پر حملہ ہونے والا ہو۔ ڈھول کی تھاپ پر تھرکنے والے، نہ شرم جانیں نہ غیرت اور اس تھرکنے والوں میں اکثر وہ مخلوق ہوتی ہے جنہیں "ہیجڑا" کہا جاتا ہے، ایک ایسا لفظ جو اب ہماری تقریبات کی "جان" بن چکا ہے اور روح۔۔ وہ کہیں پیچھے رہ گئی ہے، کسی ویران نکاح نامے میں۔

کیا یہ وہی معاشرہ ہے جو اسلامی اقدار کی قسمیں کھاتا ہے؟ جہاں نبی مہربان ﷺ کی سادگی کا چرچا جمعے کے خطبوں میں ہوتا ہے اور ہفتے کو شادی ہال میں ہیجڑوں کا دھمال؟ گلی گلی میں لنگر کے نام پر دسترخوان بچھائے جاتے ہیں، جیسے دلہن کا ولیمہ نہیں، قوم کی معیشت دفن کی جا رہی ہو۔ گوشت، بریانی، قورمہ اور حلوہ، اتنا کچھ کہ بھوکے ملک میں رزق کی توہین چیخ چیخ کر معاشی تضاد کی گواہی دے۔

جہیز؟ وہ ناسور جو آج بھی ہر دلہن کے باپ کی نیندیں حرام کر رہا ہے۔ یہ رسم نہیں، جذبات کی چتا ہے، جس پر باپ اپنی محبت، عزت اور بسا اوقات جگر کا ٹکڑا جلا کر رخصت کرتا ہے اور اگر جہیز کم نکلے تو ساس کے چہرے پر ایسی جھریاں آ جاتی ہیں گویا دنیا کی سب سے بڑی توہین ہوگئی ہو۔ لڑکی کی تعلیم، اخلاق اور حسنِ سلوک کم از کم اس دلہن کی "ریٹنگ" میں کوئی خاص فرق نہیں ڈالتی۔

شادی کے دن آسمان پر فائرنگ کے ہار، زمین پر بے حیائی کے تار اور درمیان میں قہقہوں کی وہ گونج جو کسی کو ہلا نہیں پاتی، سوائے اُن ماؤں کے جو اپنے کمسن بچوں کو اس بدتہذیبی سے بچانے کی کوشش میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ کیا فائرنگ کے اس رسم میں کوئی نہیں مرتا؟ مگر میڈیا پر "یہ ایک روایت ہے" کہہ کر سب کچھ مٹی تلے دبا دیا جاتا ہے۔

شادیوں پر ہونے والا یہ تماشا دراصل معاشرتی قبر پر پڑھا جانے والا ایک ننگا ناچ ہے۔ ہم نے سادگی کو دقیانوسیت کا لیبل دیا اور اسراف کو تہذیب کا تاج۔ ہم نے تقویٰ کو جاہلوں کا کام سمجھا اور ناچ گانے کو مہذبوں کی محفل کا زیور۔

ہم وہ قوم ہیں جو شادی کے کارڈ پر "اللہ کے فضل سے" لکھ کر تقریب میں اللہ کی نافرمانی کے جھنڈے گاڑتی ہے۔ جو بارات میں قرآن کی تلاوت کی بجائے ڈی جے کی بیٹ پر ناچتی ہے۔ جسے نکاح کا خطبہ سننا بورنگ لگتا ہے اور ہیجڑے کا رقص تفریح۔

یہ صرف بگاڑ نہیں، یہ اجتماعی خودکشی ہے۔ یہ رسمیں نہیں، زنجیریں ہیں۔ ایسی زنجیریں جو ہماری نئی نسل کے ضمیر کو جکڑ چکی ہیں۔ ایسی زنجیریں جو ہماری ماؤں کی آنکھوں کا نور چھین لیتی ہیں اور باپوں کی جیبوں کا سکون۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم ان رسومات کے بت کو پاش پاش کریں۔ شادی کو عبادت بنائیں، معرکہ نہیں۔ ہم وہ چراغ بنیں جو اپنی روشنی سے جہالت کے اندھیرے کو شکست دے اور وہ قلم بنیں جو ان فضول رسموں کے گال پر سچ کا طمانچہ مار سکے۔

ورنہ وہ دن دور نہیں جب شادی ہالوں میں رقص کرنے والے ہیجڑے نہیں، ضمیر ہوں گے اور وہ بھی بغیر کفن کے دفن ہو چکے ہوں گے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Main Waqai Unka Saga Hoon

By Rauf Klasra