Yaadein
یادیں

کبھی کبھی وہ یاد ذہن میں نیین سائین کی طرح جگمگ جگمگ کرنے لگتی ہے جیسے آپ بالکل بسرے بیٹھے تھے، وہ یاد جو کبھی بھولے سے بھی قریب نہ پھٹکی ہو۔
یہ ابتدائی اسی (80) کے عشرے کا ذکر ہے کراچی نے ہمیں اور ہم نے کراچی سے دوستی کر لی تھی مگر ڈھاکہ کی یادیں دھندلی نہیں پڑیں تھیں۔ ہر روز آنے بہانے شہرِ جمال ہماری گفتگو میں در ہی آتا مگر جدائی کے زخم پر کھرنڈ آ چکا تھا۔ زرین بی کام اور ہم غالباً بی ایس سی میں تھے۔ دن گرم مگر کراچی کی سمندری خوشگوار شامیں دن کی تپش کو معتدل کر ہی دیتی تھیں۔ اس زمانے میں کریم آباد کی وہ ہری بھری گلی اتنی گنجان نہیں تھی۔ ایسی ہی ایک شام تھی جب بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔
ہم نے بلند آواز سے کون ہے؟
پوچھتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔
سامنے ایک گٹھے بدن اور گہری سانولی رنگت کا حامل شخص کھڑا تھا۔
کون؟
جواب ندارد
وہ جو کوئی بھی تھا اس کے روم روم سے خوشحالی ہویدا تھی۔
وہ ایک دم سے بولا
چھوٹی آپا، پہچانا نئی
امار کے چینو نئی
آمی گفور (غفور)
غفور! تم یہاں کیسے؟
ہم نے اسے اندر آنے کا رستہ دیا۔
امی پاپا بیٹھک ہی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ اندر آتے ہی پاپا کا گھٹنہ پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔
پاپا نے اسے خوشی سے گلے لگایا۔
امی نے بھی چہکتے ہوئے اس کی خیریت پوچھی۔ یہ غفور میاں تھے، ہمارے پرانے ملازم۔ ڈھاکے میں گھر پر نورو، غفور، یاسین، شہید اور ماسی یہ پانچ ملازم ہوا کرتے تھے۔ گھر میں اتنے نوکروں کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔ دراصل یہ چاروں ریسٹورنٹ میں باورچی، ہیلپر اور ویٹر تھے بلکہ نورو سے تو کمپاؤنڈر صاحب، مکسچر کے لیے دوائیں بھی کٹوایا کرتے تھے۔ شہید میاں شیف، یاسین ان کے ہیلپر اور نورو اور غفور ویٹر اور کبھی کبھی سلیز مین بھی۔
Both of them had many feathers in their caps
نورو اور غفور بہت آپ ٹو ڈیٹ رہتے تھے، مروجہ فیش کی حجامت اور لباس ودھ کالا چشمہ۔ نورو خوش شکل و خوش اطوار بھی تھا۔ چھٹی کے دن جب اپنی سج دھج کے ساتھ فلم کا ایوننگ شو دیکھنے نکلتا تو بڑا معتبر لگا کرتا۔ غفور میاں کا نقشہ البتہ قدرے بھدا مگر چہرہ ہنستا ہوا۔
غفور فلم اسٹار رزاق کے ڈائی ہارڈ فین تھے سو اپنے لباس کی تراش اور حجامت کے انداز میں رزاق کے مقلد بھی۔
سب حیران تھے کہ غفور بنگلہ دیش سے کراچی کیسے آیا؟
اس سے بھی بڑی بات کہ ہم لوگوں کو کیسے کھوج نکالا؟
ہم تو اس کے اطوار دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔
ہنستے ہوئے پاپا سے کہنے لگا کہ چھوٹی آپا تو میرے کو پہچانا ہی نہیں صاحب! مگر ہم نے انہیں فوراً پہچان لیا۔ زرین نے اس کی تواضع چائے بسکٹ سے کی۔ ہم نے اس سے اپنے پسندیدہ ملازم " نورو " کی بابت پوچھا۔ غفور نے نورو کے متعلق لا علمی کا اظہار کیا جو جانے کیوں ہمیں مصنوعی لگا۔
پاپا نے پوچھا تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟
گھومنے آیا ہوں صاحب۔ (اس زمانے میں کراچی پاکستان کا پیرس ہوا کرتا تھا)
اس کی کایا کلپ کے استفسار پر اُس کا جواب، اُس کا روز افزوں پھلتا پھولتا کاروبار تھا۔ واقعی اس کا نو دولتیا ٹھسہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے ہم لوگوں کی حالتِ زار پر شدید دکھ کا اظہار بھی کیا بلکہ ہم لوگوں کے اپنے ہزار گز کے گھر سے پرائے ایک سو بیس گز کے گھر کہ سفر نے اسے بھی رنجیدہ بھی کیا اور وہ کچھ دیر سر جھکا کر چپکے چپکے اپنے آنسو بھی پونچھتا رہا۔
پتہ نہیں کیوں مگر ہمیں اس پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ میرا بڑا دل چاہ رہا تھا کہ غفور سے پوچھیں کہ تمہاری یہ نئی نئی دولت یقیناً بے بس بہاریوں سے لوٹے گئے مال ہی کی بدولت ہوگی؟ شاید یہ میرا گمانِ بد ہی تھا کہ ماضی میں وہ کبھی بھی بد نیت نہیں رہا تھا۔
اس کی موجودگی میرے باعث کلفت، جب ہمیں احساس ہوا کہ اب میرے لیے ضبط محال ہے تو ہم نے کمرے سے نکل جانے ہی میں عافیت جانی۔
ہم آج تک، اپنے اس دن کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر؟ اس دن میری وہ جھلاہت اپنی بے بسی کے سبب تھی یا اپنی موجودہ ابتری و کمتری کا رد عمل تھا؟ وہ میرا احساس محرومی تھا یا سقوط مشرقی پاکستان کی تلخی؟
آخر کیا تھا؟
ہم لوگوں کے گھر غفور کا وہ پہلا اور آخری دورہ تھا۔
اب جانے کون دنیا کے کس حصے میں ہے؟ ہے بھی یا نہیں مگر آج جانے کیوں میرا ذہن غفور میاں کو کھوج لایا۔
بقول اختر انصاری
وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے