Kill The Door
کِل دا ڈور (1)

فی زمانہ کسی بڑے اداکار سے پوچھیں کہ آپ کیسے اس کام میں آئے تو آفاقی (یونیورسل) سا جواب سننے کو ملتا ہے کہ بس اتفاقیہ یا حادثاتی طور پہ آ گئے۔ کوئی باقاعدہ منصوبہ سازی یا کوئی اور جذباتی قسم کی کاوش نہیں تھی۔ کسی ڈائریکٹر، پروڈیوسر یا اداکار سے غیر رسمی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آج کل کی مصروفیات کا پوچھا اور ساتھ ہی اپنے آنے والے پراجیکٹ کا بتایا اور لگے ہاتھوں انہوں نے شمولیت کی پیشکش بھی کر دی تو بس ذرا تجرباتی طور پہ کرنا چاہا اور پھر یوں باتوں باتوں میں ہم بہت دور نکل آئے۔ یونیورسٹی کی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی لوگ کم وبیش ایسے ہی شامل ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی کا دوسرا سال تھا۔ گرمیوں کے سیلن زدہ دن تھے کہ پنکھے کے عین نیچے بیٹھنے پہ ہی سکون کا سانس نصیب ہوتا تھا۔ فراغت تو کچھ ایسی نہ تھی لیکن ماحول کے محیطی حالات (ایمبیئنٹ کنڈیشن)سے سستی، بیزاری، کاہلی اوربے ترتیبی بڑھ رہی تھی۔ تو ایسے ماحول میں تھوڑی سنسنی اور ہلچل پیدا کرنے کے لئے ہمارے دوست کو کلاس پارٹی کی سوجھی۔ لیکن اس خیال کو متوقع پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ کیونکہ انہی دنوں میں تین ماسٹروں نے مشکل قسم کے کلاس ٹیسٹ بھی دے رکھے تھے اور فوراً بعد ہی امتحانات کی داغ بیل ڈلنی شروع ہو جانی تھی۔
تو اس پارٹی کو تڑکا لگانے کے لئے ایک اور خیال نتھی کیا گیا کہ اپنی سے کوشش کی جائے گی کہ یہ تینوں ٹیسٹ بھی منسوخ (کینسل) ہو سکیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، اس بات کو نہ صرف ہاتھوں ہاتھ لیا گیا بلکہ احباب نے بڑھ چڑھ کر اس میں مالی اور فنی حصہ ڈالا۔ اپنے اصل ٹارگٹ یعنی ٹیسٹ منسوخی کو کامیاب بنانے کے لئے پارٹی میں خصوصی طور پہ اک خاکہ تیار کیا گیا کہ جس میں اپنی حدود و قیود کی پاسداری کرتے ہوئے ماسٹروں کو ' ڈائریکٹ حوالدار' کے حضور پیش کرنا تھا اور باقی منسوخی کی ساری معاونت اور کاروائی جنابِ 'جعفر حسین ' نے اپنی حکمتِ عملی سے پوری کرنی تھی۔
' ڈائریکٹ حوالدار' کی گفتگو اور دفتری کاروائی میں مزاح کا رنگ بھرنے کے لئے اس کی ' دہہ جماعت پاس' کی خصوصیت کو خصوصی طور پہ استعمال کیا گیا۔ ظاہری طور پہ تو ' ڈائریکٹ حوالدار' عام سی بات کرتا ہے لیکن بھیتر یہ پیغام بھی دینا مقصود تھا کہ جب کوئی بھی معاشرہ یا قوم یا فرد اپنی اصل کو چھوڑ کو دوسروں کی بے ڈھنگی اور بے ہنگم نقالی کی کوشش کرتا ہے تو وہ کس قدر مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہو جاتا ہے۔ ' ڈائریکٹ حوالدار' جب اپنی اردو اور پنجابی زبان کو ' ولایتی ٹچ ' دینے کی کوشش کرتا ہے تو زبانوں کے امتزاج اور اپنی زبان سے ولایتی زبان میں ترجمہ کرنے سے کچھ اور ہی طرز کی اصطلاحات جنم لیتی ہیں اور یہ الگ بات کہ ان اصطلاحات کو خوب پذیرائی ملی۔
اس سارے ہنگامےمیں ٹیسٹ منسوخی کے لئے لڑکے ' ڈائریکٹ حوالدار' کے پاس تھانے میں شکایت لاتے ہیں کہ کیسے ماسٹر ٹیسٹ پہ ٹیسٹ لے رہے ہیں اور سالانہ امتحان بھی آنے والے ہیں، گھروں کو بھی جانا ہے، ہاسٹل کے کھانے اب مزید برداشت کرنے مشکل ہو رہے ہیں۔ اسی اثنا میں ' نواں پروہنا ' داخل ہوتا ہے تو ' ڈائریکٹ حوالدار' اس کے لتّے لینے لگ جاتا اور جاتے ہوئے کو کہتا ہے کہ جاتے ہوئے کِل دا ڈور پلیز۔ یہ کِل دا ڈور کی اصطلاح نئی تھی تو ' نواں پروہنا ' پوچھ ہی لیتا ہے کہ اس کا کیا مطبل (مطلب) ہے۔
' ' ڈائریکٹ حوالدار' اس نا سمجھی پہ بھی ' نویں پروہنے ' کو کوستا ہے کہ کبھی سکول کی بوتھی (شکل) دیکھی ہو تو پتا ہو کہ میں نے انگریزی میں بات کی ہے اور اس اصطلاح کا مطلب بتاتا کہ کِل دا ڈور کا مطلب ہے کہ ' دروازے کو مار دو یعنی دروجا بند کر دو '۔ کِل دا ڈور کا ایسا معنی سن کے یونیورسٹی کے شکایت کنندہ لڑکے بھی ششدر رہ جاتے ہیں کہ کہیں یہاں آنے کا فیصلہ غلط تو نہیں کر لیا۔ ایسی سمجھدانی والا بندہ ہمارے ماسڑوں کو کیسے قائل کرے گا کہ ان کے ٹیسٹ منسوخ کریں۔
اس سارے کھیل میں جنابِ 'جعفر حسین ' کا کردار کسی طور ' ڈائریکٹ حوالدار' سے کم نہیں تھا۔ جہاں ' ڈائریکٹ حوالدار' نے محفل چٹکلوں سے گل و گلزار کی وہیں جنابِ 'جعفر حسین ' نے اپنی معاملہ فہمی اور ماسٹروں کو دبے لفظوں کی دھمکیوں سے ٹیسٹ منسوخی کے لئے راہ ہموار کی۔ اس ساری کاروائی میں ٹیسٹ جو منسوخ ہوئے سو ہوئے، ' ڈائریکٹ حوالدار' کی نت نئی اصطلاحات نے سوچ کے نئے در، نئے زاویے اور نئی جہتیں کھول دیں۔ جیسے ' کِل دا ڈور ' جیسی سادہ اور عام سی بات ہونٹوں پہ صرف مسکراہٹ بکھیرنے کا باعث ہی نہیں ہے بلکہ ' ڈائریکٹ حوالدار' کی اس ' کِل دا ڈور ' کے بھیتر بھی کئی راز ہیں۔