Bhao Tao
بھاؤ تاؤ
ہمارے پاکستانی معاشرے کی ایک بڑی مزے کی عادت ہےجو اب باقاعدہ رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ وہ واحد عادت ہے جو صاحب اقتدار اور اشرافیہ سے لے کر عام عوام تک سب میں موجود ہے۔
یہ عادت بھاؤ تاؤ کی عادت ہے۔ ہم عام عوام جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو سب سے پہلے سواری کا بھاؤ تاؤ شروع کرتے ہیں۔ کسی بھی لوکل ٹرانسپورٹ کا بتایا گیا کرایہ ہمیں ہمیشہ زائد لگتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے چالاک ڈرائیور ہمیں لوٹ کر اپنے محل میں توسیع کر لے گا۔ ریڑھیوں پر پھل بیچنے والے ہمیں ہمیشہ خرانٹ لگتے ہیں۔ جو سو فیصد منافع کما کر عالمی منڈی میں اپنے شئیرز کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ جنرل اسٹورز والے تمام اشیاء خوردونوش پر دو سو فیصد منافع کما رہے ہیں۔ اس لیے ہم لازم بھاؤ تاؤ کرتے ہیں۔
کپڑے والے سستا مال مہنگے داموں بیچ کر برج خلیفہ پر چھٹیاں منانے جاتے ہیں۔ اس لیے ہم ایک ہزار کے کپڑے کی قیمت چار سو بتا کر دکاندار کے تڑپنے کا مزہ لیتے ہیں۔ ہم دس ہزار کا قالین ایک ہزار میں خرید کر لے آتے ہیں۔ ہمیں تو آن لائن رائڈ بھی وہی اچھی لگتی ہے، جو کرایے پر بھاؤ تاؤ کرتی ہے۔ دو ہزار کا جوتا پانچ سو میں خریدنا ہمارا من پسند مشغلہ ہے۔ ہم دو کروڑ کا گھر بھی سوا کروڑ میں خریدنے کے آرزو مند رہتے ہیں۔
یقین کریں جہاں قیمت متعین ہو وہاں خریداری کا عمل ہمیں اداس کر جاتا ہے۔ اس اداسی کو دور کرنے کے لیے ہم اپنے گھر والوں سے بھی بھاؤ تاؤ کر جاتے ہیں۔
ہمارے صاحب اقتدار اور اشرافیہ کا بھاؤ تاؤ زرا معیاری ہوتا ہے۔ وہ عوام کی طرح روپوں میں نہیں بلکہ ڈالروں میں بھاؤ تاؤ کرکے مختلف ڈیل میں پیسہ بچاتے ہیں۔ کبھی اس بچت کا شور مچایا جاتا ہے اور کبھی خاموشی سے ہضم کر لیا جاتا ہے۔
یہ ڈیل اور بھاؤ تاؤ ہماری وہ عادت بن چکے ہیں۔ جس سے اب چھٹکارہ ممکن نہیں۔ اسی لیے ہمارے سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ بھی ڈیل ہے۔ کیوں کہ ڈیل کے کامیاب انعقاد کے بعد ہی انھیں ڈھیل ملتی ہے۔
ہر سیاسی جماعت اس ڈیل سے فیضیاب ہوتی ہے۔ بس ہر ایک کا طریقہ مختلف ہے۔ کچھ جماعتیں اپنی عزت کو مقدم رکھتے ہوئے ایک عمدہ ڈیل کرتے ہیں۔ جس سے وہ اپنے ساتھ دوسرے فریق کا بھی فائدہ کر جاتے ہیں اور بچا کچا عوام کو بھی مل جاتا ہے۔ مگر کچھ تو قدموں میں لوٹ کر اپنے مفادات پورے کرواتی ہیں۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ ڈیل کرنے والوں کا کامیاب بزنس مین اور تجربہ کار ہونا ضروری ہے۔ مخصوص وقت کے اندر ٹیسٹ میچ، ٹی ٹوئنٹئی اور ون ڈے کھیل کر ہار اور شکست کا فیصلہ کرنے والا کھلاڑی، صرف ذاتی انا کے زور پر اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا ہے۔ جب کھونے کو کچھ نا ہو تو ایسا شخص اپنے ساتھ سب کی بربادی پر بالکل پشیمان نہیں ہوتا اور خاص طور پر جب ذہن اپنی جگہ سے کھسک چکا ہو۔
اقتدار اور انا اس دور میں دو مختلف چیزیں ہیں۔ ذاتی انا کو مقدم رکھنے والا شخص سیاستدان تو دور کی بات ایک بہترین لیڈر بھی نہیں بن سکتا ہے۔ پھر بہترین بھاؤ تاؤ کیسے کرے گا؟ اس نے کبھی کچھ خریدا ہی نہیں، اسے تو ہر شے مفت میں ملی تھی۔ اسے ڈیل اور بھاؤ تاؤ کے "آداب" کا کیا علم؟
کیا ہوگا؟ کیا ہو رہا ہے؟ اور کب تک ہوگا؟ یقیناً سب طے ہے۔ جب دل چاہے گا۔۔ سب کو بتا دیا جائے گا۔۔ تب تک سب اپنا اور دوسروں کا دل بہلاتے رہیں اور وقت کو اچھے طریقے سے گزارتے رہیں۔