شام، بشار رفت و ہئیت التحریر آمد (5)
اتوار 8 دسمبر کو 24 سالہ اقتدار سے محروم ہونے والے بشارالاسد 2000ء میں ا پنے والد حافظ الاسد کے انتقال پر ان کے جانشین کے طور پر شام کے صدر بنے اس سے قبل ان کے مرحوم والد جنرل حافظ الاسد لگ بھگ 30 برس تک صدر رہے۔ الاسد خاندان کے نصف صدی سے 4 برس اوپر کے دور اقتدار پر ملی جلی آراء ہیں۔ "ہیرو، ولن اور زیرو" 54 سالہ سفر کے یہی تین مرحلے ہیں جن کا اختتام 8 دسمبر کو ہوگیا۔
اب شام ہئیت التحریر الشام کے زیرنگیں ہے۔ یہ تنظیم جیسا کہ پہلے عرض کرچکا دولت اسلامیہ عراق والشام، النصرہ فرنٹ، جہاد اسلامی الجہاد الاسلامیہ برائے خلافت، جندالشام اور القاعدہ کی باقیات کا اجماع ہے ان میں ایرانی بلوچستان کے سنی اور پاکستان سے دیوبندی مسلک کے جنگجو بھی شامل۔
مختلف تنظیموں کے ان جنگجوئوں میں قدر مشترکہ ان کا سلفی اور دیوبندی عقائد کی جانب رجحان کا ہونا ہے۔ ان میں سے بعض لوگ ماضی میں ان تنظیموں میں بھی رہے جو امریکہ اور اسرائیل کو مسلمانوں کا دشمن سمجھتی کہتی تھیں لیکن ان کی حالیہ فتح شام امریکہ اور اسرائیل کے تعاون کی مرہون منت ہے۔
دس سے گیارہ روز میں شامی سیاست اور ایوان اقتدار کا نقشہ بدل دینے والی "ہئیت التحریر الشام" کا مزاج، عزائم اور طرز حکمرانی سمجھنے میں بہت زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔
اس کی ایک وجہ ابو محمد الجولانی کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے اصل دشمن حزب اللہ اور ایران ہیں اور دوسری وجہ الجولانی کا شامی علویوں کو اپنے عقیدے پر نظرثانی کا مشورہ ہے۔
علویوں ان کے عقیدے اور شام میں مسلکی تقسیم کے تناسب پر ہم آگے چل کر بات کریں گے البتہ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ مرحوم حافظ الاسد نے کبھی اپنے علوی ہونے سے انکار نہیں کیا تھا مگر ان کے صاحبزادے بشارالاسد اپنے دور اقتدار میں ایک سے زائد بار دمشق کی جامعہ مسجد میں نماز جمعہ اور نماز عید کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں خود کو سنی مسلمان کے طور پر پیش کرتے رہے۔
پچھلی صدی کے وسط سے کچھ آگے مصر میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والے جمال عبدالناصر نے عرب نیشنل ازم کی تحریک شروع کی پان عرب ازم کی اس تحرک کو "ناصریت" کا نام دیا گیا۔
ابتداً اس تحریک نے عرب ممالک کے نوجوانوں کے قلوب کو متاثر کیا مگر عملی طور پر اس عرب نیشنل ازم سے متاثر ہونے والا دوسرا ملک شام تھا۔ مصر اور شام 1958ء سے 1961ء تک ایک اتحاد کی صورت میں اکٹھے رہے لیکن عرب ایک ہوجائو اور جغرافیائی حد بندیوں کو توڑ کر ایک مملکت بنالو کا یہ نعرہ زیادہ دیر تک نہ چل پایا۔
1961ء میں ساڑھے تین چار برس کے مختصر اتحاد کے بعد شام میں سوشلسٹ خیالات کی علمبردار بعث پارٹی کے ہمدردوں نے فوج کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اب اگر ہم بعثی رجحانات اور نظریات کا تجزیہ کریں تو یہ بات قدرے آسان انداز میں سمجھ میں آتی ہے کہ 1950ء، 1960ء اور 1970ء کی تین دہائیوں میں بلاد عرب کے مختلف ملکوں کے نوجوانوں میں عرب نیشنل ازم اور سوشلسٹ نظریات نے خاصی مقبولیت حاصل کی البتہ عرب نیشنل ازم کے بانی ملک مصر میں جمال عبدالناصر کے دور میں ہی اخوان المسلمین کے لوگ دوبارہ تازہ دم ہوکر منظم ہونا شروع ہوئے۔
اخوان کی نشاط ثانیہ مصر (مجموعی طور پر عربوں) کی اسرائیل کے ہاتھوں شکست کی بدولت ہوئی۔ شام میں مصر شام عرب اتحاد ٹوٹنے کے بعد اقتدار سنبھالنے والی بعث پارٹی نے اپنے سوشلسٹ نظریات کے ساتھ عرب قوم پرستی کو بھی بڑھاوا دیا۔ اس کی جو بنیادی وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ شام میں ایک جانب تو علویوں، شعیہ جعفریوں، سنی (اس میں صوفی سنی او دوسرے شامل ہیں) اور میسحوں میں اپنے مذہب اور عقائد کا تعصب تو تھا ہی اس کے ساتھ قدیم قبائلی شناختوں کا تعصب بھی تھا۔
شام میں علوی 15 سے 18 فیصد ہیں۔ شیعہ 7 فیصد، مسیحی 3 سے 5 سنی 50 فیصد اور باقی ماندہ 22 فیصد آبادی میں سلفی اور دیگر شامل ہیں۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو بعث پارٹی کے سوشلسٹ نظریات اور اس سے قبل جمال عبدالناصر کے عرب نیشنل ازم (ناصریت کے عنوان سے معروف) کے شام میں ابتدائی پرجوش حامی علوی، شیعہ، مسیحی اور کسی حد تک صوفی سنی بھی تھے۔
بعث پارٹی کے دور ا قتدار میں ہی علویوں اور مسیحوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول اور مسلح افواج میں شمولیت کا رجحان پروان چڑھا جس کے نتیجے میں اگلے برسوں اور عشروں میں علوی مسلح افواج اور ایوان اقتدار میں چھاگئے۔
بعث پارٹی اپنی ابتدائی مقبولیت کو زیادہ دیر تک نہ سنبھال پائی اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں ان میں ایک وجہ عرب بادشاہتوں کا امریکی بلاک میں ہونا اور نتیجتاً سوویت یونین کے ہم خیالوں کے خلاف بادشاہتوں کی سرمایہ کاری بھی ہے۔
یہ سرمایہ کاری قبائلی تعصبات کو ہوا دینے کے لئے کی جاتی رہی۔ 1970ء میں وزیر دفاع جنرل حافظ الاسد کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کی کامیابی نے حافظ الاسد کو ایوان اقتدار تک پہنچادیا۔
حافظ الاسد لگ بھگ 30 برس صدر مملکت کے منصب پر فائز رہے ا ن کے دور میں شام میں کچھ نہ کچھ ترقی ضرور ہوئی ابتدائی دس بارہ برسوں کے دوران وہ خاصے مقبول رہے اس مقبولیت کی وجہ سماجی بہتری اور تعلیم کے فروغ کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ہی تھے لیکن جیسا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فوجی بغاوتوں کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والے خود کو ناگزیر سمجھ لیتے ہیں بالکل اسی طرح حافظ الاسد نے بھی خود کو شام کے لئے حرف آخر سمجھ لیا تھا
البتہ ان کے دور میں مختلف الخیال عقائد اور قبائلی شناختوں کے حامل ملک میں سب سے زیادہ اور نمایاں ترین ترقی علویوں نے کی۔
حافظ الاسد کے اقتدار میں آنے سے قبل علوی آبادی 13 سے 15 فیصد تھی البتہ 50 برسوں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب میں اس کا حصہ 18 فیصد تک پہنچ گیا ان 15 سے 18 فیصد علویوں کو حافظ الاسد اور بشار الاسد کے ادوار میں ہمیشہ خصوصی حیثیت حاصل رہی۔ مسلح افواج خفیہ ایجنسیوں، حکومتی عہدوں میں علوی اپنی عددی تعداد کے کے مقابلہ میں زیادہ رہے۔ تعلیم اور تجارت کے شعبہ میں بھی ان کا کردار ترجیحی اہمیت کا حامل رہا۔
حافظ الاسد اپنے نظریات اور رجحانات کی بدولت اخوان الشام کے شدید مخالف تھے ان کے دور میں اخوان الشام کے لوگ رائندہ درگاہ ہی رہے البتہ انہوں نے عقائد اور قبائلی شناختوں کے تعصبات میں دھنسے ہوئے شام کو ایک پابند جمہوریت کے ذریعے چلانے کا تجربہ کیا۔
صدارتی انتخابات براہ راست 7 برس کی ایک مدت کے لئے کرائے جاتے تھے پابند سوشلسٹ جمہوریت میں یہ انتخابات تقریباً ویسے ہوتے تھے جس طرح ہمارے ہاں ایوب خان کے صدارتی انتخابات یا جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم ہوئے جن میں 90 سے 95 فیصد رائے دہندگان نے فوجی آمروں کی محبوبیت پر اپنا ووٹ نچھاور کیا۔
حافظ الاسد اپنی سخت مزاجی کے باوجود عقائد و قبائلی تعصبات میں بٹے شامیوں کو متحد رکھنے میں کامیاب رہے ان کے دور میں مسئلہ فلسطین پر شام کا موقف دوٹوک رہا ان کے پڑوس عراق میں بھی پہلے حسن البکر اور پھر صدام حسین فوجی بغاوتوں سے اقتدار میں آئے اور یہ دونوں بھی عراقی بعث پارٹی سے ہی منسلک رہے البتہ صدام کے مقابلہ میں حافظ الاسد نے اپنے مذہبی عقیدے سے مختلف عقائد رکھنے والوں سے تعلقات استوار رکھنے کو ترجیح دی، مقابلتاً حسن البکر اور صدام حسیین کا رجحان اور طرز حکمرانی یکسر مختلف رہا۔
بشار الاسد نے اپنے والد کے مقابلہ میں یکسر رویہ اپنایا گو وہ اپنے یکسر مختلف رویہ کی وجہ سے عراق ایران جنگ اور پھر خلیج کی جنگ میں غیرجانبدار رہے لیکن ان کی اس غیرجانبداری کا خطے کے ساتھ شام میں متحرک ہونے والی مذہبی قوتوں نے برا منایا یہ مذہبی قوتیں اولاً تو اخوان کی ہم خیال ہی تھیں بعدازاں ان میں القاعدہ کے ہم خیالوں کی ایک تعداد بھی سامنے آئی۔
بشار کے والد حافظ الاسد نے 1988ء اور 1993ء میں اپنے مخالفین کے لئے عام معافی کا اعلان کیا ابو محمد الجولانی کے والد جوکہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے تھے حافظ الاسد کی دی گئی معافی پر ہی اپنے خاندان کے ہمراہ شام واپس آئے۔
حافظ الاسد نے بلیک ستمبر کے بعداردن سے نکل کر عرب ملکوں میں بکھرے ہوئے فلسطینیوں کے لئے بھی اپنے ملک کے دروازے کھولے۔ شام ہی وہ پہلا عرب ملک تھا جس میں پی ایل او کے سفارتی و سیاسی نمائندوں کو حکومتی مراعات دی گئیں۔
آگے چل کر بشار الاسد کے دور میں حماس کا سیاسی دفتر بھی دمشق میں قائم ہوا۔ اسماعیل ہنیہ، خالد مشعل اور حماس کے دوسرے بڑے ڈیڑھ عشرہے سے اوپر شام میں مقیم رہے۔
جاری ہے۔۔