میری آپا اماں، سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ
سال بھر کم نصف صدی (اب 55 برس) قبل لاہور سے کراچی جانے والی ٹرین میں ملنے والے 9 سالہ بچے کو پہلے تو انہوں نے گھر واپس جانے کیلئے رسان اور محبت سے سمجھایا اور پھر گود لینے کا اعلان کردیا۔
کراچی کے ریلوے سٹیشن پر اتریں تو بچے کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ بھائیوں نے پوچھا، آپا یہ کون ہے؟
جواب میں بولیں عباس یہ میرا بیٹا ہے۔ فرمانبردار بھائی نے فقط اتنا کہا جو آپ کا حکم آپا۔
گود لئے بیٹے کے ہمراہ وہ محمود آباد میں اپنے دو کمروں کے گھر پہنچیں۔ مشکل سے تین مرلے کے اس مکان میں ایک کمرے میں ان کی رہائش تھی، دوسرے بیٹھک نما کمرے میں لائبریری قائم تھی۔
"سیدہ لائبریری" نصف صدی قبل کے گلی محلوں میں یہ آنہ لائبریریاں مطالعہ کے شوقین خواتین و حضرات کے مطالعہ کی تسکین کا سامان کرتی تھیں۔
گھر پہنچے تو بولیں آج سے آپ مجھے آپا کہو گے۔ آپا تو آپ کو سب کہتے ہیں۔ بچے نے کہا، شفقت سے بولیں چلو تم آپا اماں کہہ لیا کرو۔
یہ میری آپا اماں تھیں۔ سیدہ فیروزہ خاتون نقوی۔
لگ بھگ 1927ء میں متحدہ ہندوستان کی ریاست حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئیں۔ اپنے عہد کے صاحب علم و دانش علامہ سید فیض عالم نقوی دکنی کی نواسی اور سید خورشید حیدر نقوی کی دختر نیک اختر 1947ءکے بٹوارے میں خاندان کے ہمراہ حیدر آباد دکن سے پاکستان چلی آئیں۔
قیام پاکستان کے ڈیڑھ عشرہ بعد ان کے مجازی خدا دنیائے سرائے سے رخصت ہوگئے۔ بھائیوں نے بہت زور دیا کہ وہ اکیلے گھر سے اٹھ آئیں اور جس بھائی کے ساتھ رہنا چاہیں بخوشی رہیں۔ وضع داری اور انا میں گندھی آپا نے اپنے ہی گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔
میاں بیوی کی چھوٹی سی لائبریری "سیدہ لائبریری" میں تبدیل ہوئی۔ شوہر کی وفات پر ان کے محکمے سے ملنے والے واجبات میں سے کچھ رقم پس انداز کرلی اور کچھ کی کتابیں لے کر لائبریری کو وسعت دی۔
اگلی صبح گود لیے بچے کو ہمراہ لئے چنیسر گوٹھ کے نصرت الاسلام ہائی اسکول جاپہنچیں۔ ان کے بھائی سید عباس نقوی اسی اسکول میں معلم تھے۔
اسکول اب تک کی تدریس کا امتحان ہوا اور بچے کو چوتھی جماعت میں داخل کرلیا گیا۔
آپا اماں حیدر آباد دکن سے ایف اے کرکے پاکستان آئی تھیں۔ مرحوم شوہر نے ساتھ دیا انہوں نے باقی ماندہ تعلیم مکمل کی۔ تاریخ میں ایم اے کیا۔
پاک و ہند کی مقامی زبانوں میں سے انہیں ہندی، اردو، سندھی پر مکمل عبور تھا۔ انگریزی، عربی اور فارسی بھی باکمال تھی۔ تہجد گزار، نماز اول وقت میں ادا کرنے کی عادی۔ سید زادی اپنی مثال آپ تھیں۔
لے پالک بیٹے کو انسان سازی کے مراحل سے گزارنے کے لئے انہوں نے بہت محنت کی۔ محنت مزدوری، چھابڑی اور پھر سال دو سال بعد اپنی لائبریری پر بٹھادیا۔
آپا اماں کہتی تھیں، محنت میں عظمت ہے، خدا جانے کب بلاوا آجائے۔ چاہتی ہوں میرا بچہ زمانے کے رحم و کرم پر نہ ہو بلکہ میری تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے سفر حیات طے کرے اور اپنی شناخت بھی برقرار رکھے۔
حضرت سعدی، حافظ شیرازیؒ، مرشد شاہ لطیف بھٹائی، غالب و میر، ولی دکنی، ان کے پسندیدہ شاعر تھے اور فیض اپنے انقلابی افکار کی بدولت، تلاوت قرآن، نہج البلاغہ اور "صحیفہ کاملہ" ان کے معمول میں شامل تھے۔
جب کبھی اپنے اماں ابا اور آبائی وطن کو یاد کرتیں تو حافظ شیرازی کو گنگنانے لگتیں۔
"کیا نصیبا ہے ہم یہاں ہیں اور خوشبوئے مادر و وطن دونوں بہت دور۔ جب تیز ہوائیں چلتی ہیں تو ان خوشبوؤں کو بھی ہمراہ لے آتی ہیں"۔
آپا اماں کے پڑھانے سمجھانے اور رہنمائی کا انداز اچھوتا تھا۔ کبھی کسی کتاب کے چند اوراق پڑھ کر سنانے کو کہتیں اور کبھی کہتیں یہ صفحات پڑھ لو۔ پھر اگلے دن امتحان شروع۔ وہ جو کل پڑھا تھا اس سے کیا سمجھ میں آیا؟
ان کے سائے میں جتنے برس بیتے بہت شاندار تھے ہر اعتبار سے تعلیم و تربیت، انسان سازی ہر دو انہیں جی جان سے پسند تھے۔ اخلاقی اقدار اور تعلیم کے حوالے سے کسی رعایت کو درست نہیں سمجھتی تھیں۔
عالمہ فاضلہ آپا اماں کے نانا، علامہ سید فیض عالم دکنی مرحوم نے 1880ءکے لگ بھگ اردو میں پہلی بار نہج البلاغہ، صحیفہ کاملہ اور دیوان ابو طالب کا ترجمہ کیا تھا۔ نہج البلاغہ امام علیؑ کے خطبات، خطوط اور اقوال پر مشتمل ہے۔ صحیفہ کاملہ سید الساجدین امام زین العابدینؑ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے۔ دیوان ابو طالب کا ترجمہ انہوں نے کلام ابو طالبؑ کے نام سے کیا تھا۔ انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں تینوں کتابیں حیدر آباد دکن اور لکھنو سے شائع ہوئیں۔
یہ تینوں کتب آپا اماں کی ذاتی لائبریری (وہ چند ذاتی کتب کو ایک جستی ٹرنک میں سنبھال کر رکھتی تھیں) میں موجود تھیں۔ (چند برس ہوتے ہیں جب ایک جعلی لبرل آئیت اللہ عمران لیاقت نے سید فیض عالم نقوی دکنیؒ کا ترجمہ شدہ دیوانِ ابوطالبؑ اپنے نام سے شائع کر لیا اب جعلی آیت اللہ بھی رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہے)۔
کراچی میں کنونشن لیگ کے رہنما سید علی کوثر زیدی اور ان کی اہلیہ محترمہ، معروف ماہر تعلیم محترمہ شبنم محمود، ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو اور چند دیگر صاحبان علم خواتین و حضرات آپا اماں کے مستقل ملاقاتیوں اور مہمانوں میں شامل ہوتے تھے۔ محترمہ شبنم محمود اور ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو تشریف لاتیں تو آپا اماں کی ان سے خوب محفل جمتی۔ علم و ادب، تاریخ اور سیاست پر گھنٹوں باتیں ہوتیں۔ محترمہ شبنم محمود تو جب بھی آپا سے ملنے تشریف لاتیں کوئی نہ کوئی نئی کتاب ضرور تحفہ میں پیش کرتیں۔
خود آپا اماں بھی دس پندرہ دن بعد مجھے ہمراہ لئے کراچی صدر کا چکر ضرور لگاتیں۔ کتابوں کی دکانوں سے کچھ کتب لائبریری کیلئے اور ایک آدھ ذاتی مطالعے کے لئے خرید کرتیں۔
سچ یہ ہے کہ وہ علم کا سمندر تھیں اور عمل کا انمول شاہکار۔ ہم ماں بیٹا ہی ایک دوسرے کی کل کائنات تھے یا پھر پڑھی جانے والی کتابیں۔
پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے میں انہوں نے انتھک رہنمائی کی۔ سکول سے واپسی پر وہ سب سے پہلے کاپیوں پر اساتذہ کرام کے لکھے ریمارکس چیک کرتیں۔ پھر ہوم ورک بارے سوال ہوتا۔ جو دوپہر کے کھانے کے بعد ان کی نگرانی میں مکمل کیا جاتا کیونکہ سہ پہر کے بعد سے عشاءکے وقت تک مجھے لائبریری پر بیٹھنا ہوتا تھا جہاں کچھ لوگ کتابیں واپس کرنے آتے اور کچھ کتابیں اور رسالے لینے کے لئے۔
یاد پڑتا ہے کہ ابن صفی کے جاسوسی ناول تو پڑھنے والے ایک دوسرے سے پہلے حاصل کرنے کے لئے پیشگی اپنا نام لکھواجاتے۔ ایک دن میں نے کہا آپا اماں پڑھنے والے بہت سارے لوگ نسیم حجازی کے ناول مانگتے ہیں۔
مسکراتے ہوئے بولیں انہیں کیا پتہ کیا پڑھنا ہے۔
ایک بار کسی ہم جماعت سے نسیم حجازی کا ناول لے آیا۔ آپا نے پڑھتے ہوئے دیکھ لیا۔ ایک تھپڑ جڑ دیا انہوں نے۔ کہنے لگیں"صاحبزادے ہم آپ کو انسان بنانے کیلئے محنت کرتے ہیں اور آپ ہیں کہ ہماری محنت رائیگاں کرنے پر تلے ہوئے ہیں"۔
20 اکتوبر 1973ء کی صبح نماز فجر ادا کرکے معمول کے مطابق درود و سلام کا ہدیہ پیش کرنے میں مصروف تھیں کہ وقت رخصت آن پہنچا۔
آپا اماں اپنے خالق حقیقی، سرکار دو عالم اور حضرت سیدہ فاطمہؑ سے ملاقات کیلئے دنیائے سرائے سے رخصت ہوگئیں۔ اس دن وہ تہجد کے لئے بیدار ہوئیں تو انہوں نے خلاف معمول مجھے بھی بیدار کیا۔ تہجد پڑھ چکیں تو ڈھیروں باتیں کیں۔ کہا "جو ہونے جارہا ہے وہ اچھا نہیں ہوگا مگر تم گھبرانا نہیں بلکہ سنبھل سنبھل کر میری تربیت کی رہنمائی میں چلتے رہنا اور اپنی آپا اماں کا خواب پورا کرنا۔ وہ ہمیشہ مجھے راجی کہہ کر بلاتیں مگر اس دن وہ پورا نام لے کر بات کررہی تھیں۔ ڈھیروں باتیں کرچکیں تو انہوں نے کہا ماموں عباس سے کہنا جنازہ پڑھانے کے لئے قبلہ رشید ترابی کو زحمت دیں۔
آپ ایسی باتیں کیوں کررہی ہیں میں نے کہا۔ محبت سے انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں"جناب سیدہ بتول سلام اللہ سے ملاقات کا وقت آن پہنچا میرے بچے۔ یاد رکھنا تمہاری تربیت میں نے کی اور تمہیں ہمیشہ حق کا ساتھ دینا ہے"۔
"غیرجانبداری کی رام لیلا سے جی بہلانے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بھی ایک طرح سے ظالموں کی مدد ہی ہوتی ہے"۔
20 اکتوبر 1973ء کی دوپہر آپا اماں سیدہ فیرزہ خاتون نقوی منوں مٹی کی چادر اوڑھ کر تربت میں سوگئیں۔ انہیں قبر میں اتارے چوالیس (اب 50) برس ہوتے ہیں۔ میرے سینے میں دو قبریں ہیں ایک جنم دینے والی اماں حضور کی اور دوسری آپا اماں کی۔ دونوں کا حق ادا کرتے زندگی کی شاہراہ پر گامزن ہوں۔ کوئی دم آتا ہے کہ دم جائے گا۔
خواہش فقط اتنی ہے کہ حق ادا ہوجائے۔
نوٹ: (اپنی آپا اماں کے سانحہ ارتحال کی 45 برسی پر ان کی یادوں سے گندھی ایک پرانی تحریر آج ان کی پچاسویں برسی کی مناسبت سے قند مقرر کے طور پر دوستوں اور عزیزان کے استفادے کیلئے حاضر ہے۔۔
دوستانِ عزیز سے سورة فاتحہ کی تلاوت کی درخواست ہے)۔