کیا ہم اکٹھا رہ سکتے ہیں؟ (2)

ہمیں ابتدا ہی سے بات کرنا ہوگی یہی ضروری ہے۔ بٹوارے کے ہلے گلے میں جو ہوا اور کہا لکھا گیا اس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نئی مملکت کا جو بیانیہ پیشہ کیا اس سے انحراف کیوں ہوا؟
اس سے اگلے برس مختلف فرقوں کے مولویوں نے قرارداد مقاصد منظور کرکے لیاقت علی خان کے توسط سے ریاست کے گلے میں ایک مذہبی شناخت کے طور پر ڈال دی۔
ہم اس بنیادی اصول کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ جب کسی ریاست کا مذہب طے ہوگا تو لازم ہے کہ اس کا فرقہ بھی طے ہوگا پاکستان کا کیا فرقہ طے ہوا؟ کیا ہم میں سے کوئی اس سوال کے جواب کی حقیقت سے انکار کرسکتا ہے۔
اصولی طور پر قرارداد مقاصد نے سوشل ڈیموکریٹک ریاست کی جگہ جہادی رباست کی بنیاد رکھ دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کی قریبی تاریخ (اس وقت کے حساب سے) میں جن مسلم عقائد (فرقوں) کے حاملین نے جہاد کا دروازہ کھولا انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے مسائل ہی پیدا کئے ایک ایک کرکے متحدہ ہندوستان کی جہادی تحریکوں کے اٹھان و انجام کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے۔ آپ آسانی کے ساتھ سمجھ جائیں گے کہ قرارداد مقاصد سے طے ہوئے مذہب اور عقیدے سے تشکیل پانے والی جہادی ریاست اپنے حقیقی فرائض ادا نہیں کرپائی بلکہ اس نے مذہب کو ہتھیار بناکر نئی مملکت کی جغرافیائی حدود کی ہزاریوں کی تاریخ، تہذیب و تمدن مقامی شناختوں کی جگہ ماورائی شناخت مسلط کردی۔ اس شناخت کو رزق اس سوچ نے فرام کیا "مسلم ہیں ہم سارا جہاں ہمارا"۔
اس فہم پر اٹھائے گئے سوال غداری اور ملک دشمن قرار پائے۔ آپ اگر 1940ء کی دہائی کے آخری تین برسوں سے آج تک کی پاکستانی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو جان لیں گے کہ ہمارے یہاں ریاست ہمیشہ محب وطن رہی اور غدار بدلتے رہے۔ خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، عبدالصمد اچکزئی، خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، حسین شہید سہروردی یہ غداروں کا ابتدائی طبقہ تھا۔ بنگالیوں کو من حیث القوم ہمارے یہاں (مغربی پاکستان میں) ہندوئوں کا کاسہ لیس اور غیر محب وطن سمجھا و پیش کیا گیا غداروں کی اگلی نسل میں شیخ مجیب الرحمن تھے اور ذوالفقار علی بھٹو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں غدار قرار دینے والے رجعت پسندوں کے بڑے قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ ہم اگلی نسلوں کے غداروں پر بھی بات کریں گے لیکن فی الوقت کچھ پیچھے چلتے ہیں۔
پاکستان جن جغرافیائی حدود میں معرض وجود میں آیا ان میں سے ایک مشرقی پاکستان قدیم بنگالی شناخت کا حامل تھا۔ یہاں مغربی پاکستان میں پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی آباد تھے ان پانچوں اقوام کی اپنی تہذیبی شناخت تاریخ اور زبانیں تھیں۔
نئی مملکت کی چھ قدیم اقوام کی تاریخی و تہذیبی اور لسانی شناخت چھین کر پہلے دو قومی نظریہ مسلط کیا گیا پھر پاکستانی مسلم قومیت اور ہندوستان کی مسلم اقلیت کی اردو زبان کو قومی زبان کے طور پر مسلط کیا گیا۔
جناح صاحب سمیت کسی نے اس امر پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ قدیم قومی شناختوں اور زبانوں کی جگہ نئی قومی شناخت اور زبان کو مسلط کرنے سے پاکستان کے دونوں حصوں کے لوگ اپنی ہزاریوں پر پھیلی تاریخ سے کٹ جائیں گے ایک ستم اور ہوا وہ یہ کہ جناح صاحب سمیت متعدد سیاسی و مذہبی عمائدین یہ کہتے سنائی دیئے کہ پاکستان تو اس وقت ہی بن گیا تھا جب یہاں متحدہ ہندوستان میں پہلے مسلمان نے قدم رنجہ فرمایا تھا۔
کچھ مذہبی شخصیات نے مسلم قومیت کی ابتداء سندھ پر اموی دور خلافت کے حملہ آور محمد بن قاسم سے رکھی۔ مزید ستم یہ کہ کسی نے بھی ان سے سوال نہیں کیا کہ جس اسلام نے عربوں کو ان کی دیرینہ قومی شناخت تہذیب و تمدن اور تاریخ سے محروم نہیں کیا اسی اسلام سے ہمارے یہاں قدیم شناختوں کو حرف غلط کی طرح کیوں مٹایا جارہا ہے؟
ایک طالب علم کے طور پر ہم جب اس ستم ظریفی سے پیدا شدہ مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو سادہ سا جواب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر کوئی نئی مملکت روز اول سے ہی سکیورٹی اسٹیٹ بن جائے تو ایسی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن کا علاج مشکل ہوجاتا ہے۔
سکیورٹی اسٹیٹ رجعت پسندی اور مصنوعی شناخت کو دوام دینے کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزماتی ہے نیز کہ کسی بھی سکیورٹی اسٹیٹ میں عوام کے حق حکمرانی یعنی عوامی جمہوریت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی بلکہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی براہ راست حکمرانی اور طبقاتی جمہوریت کے گرد ہی وقت گھومتا رہتا ہے۔ عصری شعور کی قاتل سوچ اور نظام سے ریاست اپنے ہی لوگوں کا اعتماد کھونے لگتی ہے۔
14 اگست 1947ء سے 16 دسمبر 1971ء تک کے درمیانی برسوں کی تاریخ سیاسی اتار چڑھائو، طرز حکمرانی اور ریاستی جبر سے پیدا شدہ مسائل و بحرانوں کا تجزیہ ازبس ضروری ہے۔ یہ تجزیہ ہی ہمیں حقیقت سے روشناس کرانے کے ساتھ سقوط مشرقی پاکستان کی حقیقی وجوہات کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
تجزیہ کئے بغیر کتا کان لے گیا کی آواز پر دوڑ لگاتے چلے جانے والی مثال ہی صادق آئے گی۔ اسی طرح ہمیں بٹوارے کے پس پردہ حالات بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے ساتھ ایک سامراجی قوت کے محدود ہونے اور نئی سامراجی قوت کے ارتقائی سفر کوبھی بغور دیکھنا ہوگا تب ہم یہ جان سکیں گے کہ سامراجی قوتیں جب اپنے مقبوضات سے نکلتی ہیں تو کیا بیج بو کر جاتی ہیں۔
یہ بھی کہ سامراجی قوتوں کی بنائی یا بنوائی گئی سکیورٹی اسٹیٹس مذہب کو طاقت کا سرچشمہ کیوں بناکر رکھتی ہیں۔
ہم جب اس سوال پر غور کریں گے کہ "کیا ہم اکٹھا رہے سکتے ہیں؟" تو پھر بہت ضروری ہے کہ پہلے دن سے آج تک کا ورق ورق الٹ کر دیکھیں۔
ہماری دانست میں سکیورٹی اسٹیٹ سے ابتداً جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان میں مقامی شناخت اور تاریخ سے یکسر انکار کے ساتھ مذہب کے جہادی رجحان کو اپنانا تھا۔ مذہب کا جہادی رجحان کیا ہوتا ہے اسے آسانی کے ساتھ سمجھنے کے لئے سابق مشرقی پاکستان میں فوج کی حمایت میں بننے والی 2 تنظیموں البدر اور الشمس کے کردار کو سمجھنا ہوگا۔
غیر متوازن نظام اور ریاست مسئلہ تو تھے ہی مگر عوام کے حق حکمرانی کو کچلنے کے لئے غیرریاستی ایکٹروں کی سرپرستی نے جو نفرتیں کاشت کیں ان کی فصل آج بھی بنگلہ دیش میں کاٹی جارہی ہے خود ہمارے یہاں سابق مغربی پاکستان اور اب پاکستان میں آج بھی مذہب اور جہادی عقیدہ سکیورٹی اسٹیٹ کی طاقت ہے۔
اس طاقت کے بے رحمانہ استعمال کے پیچھے علاقے کا تھانیدار بننے کی خواہش کے ساتھ ساتھ "ہم غالب لانے کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں" کی سوچ کا عمل دخل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں چھہتر ستتر برسوں میں انسان سازی کے لئے ایک بھی ادارہ نہیں بنایا گیا کیوں؟ سادہ سا جواب ہے وہ یہ کہ سکیورٹی اسٹیٹ کو انسان وارے نہیں کھاتے انسان سوال کرتے ہیں جبکہ سکیورٹی اسٹیٹ کو اطاعت گزار مخلوق کی ضرورت ہوتی ہے۔
بار دیگر عرض ہے کہ بنیادی حقیقتوں سے آنکھیں چراکر سرابوں کے تعاقب میں بھاگتی ریاست نے ہم 25 کروڑ لوگوں کو جہاں لاکھڑا کیا ہے یہ کوئی قابل فخر مقام ہرگز نہیں۔
جاری ہے۔۔