کچھ تلخ و شیریں باتیں

تاریخ و سیاسیات اور صحافت کے ایک طالبعلم اور قلم مزدور کی حیثیت سے ہمیشہ یہی عرض کرتا ہوں کہ کسی کتاب مختصر تحریر یا کسی شخص کی رائے کو مکمل طور پر پڑھے سمجھے بغیر دانش وری کی لٹھ لئے کود پڑنا اور لٹھ کے زور پر اپنی رائے منوانا فقط زور آوری یعنی غنڈہ گردی ہے دانشوری ہرگز نہیں مگر اس کا کیجے کہ ہمارے چار اور لٹھ بازوں اور زبان درازوں کے ٹھٹھ ہیں اور یہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔
میں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ فرد کی پسند و ناپسند نہیں ہوتی ہے۔ سادہ فہم انداز میں یہ کہ یہاں ہر شخص کسی نہ کسی جماعت کیلئے ہمدردی رکھتا ہے خود مجھے نیپ کی وراثت کی دعویدار عوامی نیشل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی پسند ہیں۔ میرے حلقہ انتخاب میں اگر ان دونوں جماعتوں کے امیدوار موجود ہوں تو قومی اور صوبائی اسمبلی کا ایک ایک ووٹ دونوں کے امیدواروں کو دوں گا۔
صوبہ پنجاب میں چونکہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار نہیں ہوتے اس لئے میں پیپلز پارٹی کو 1988 سے ووٹ دے رہا ہوں۔ 2013 کے انتخابات کے وقت میرا ووٹ خانپور ضلع رحیم یار خان میں درج تھا تب میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کے اسرار کے باوجود ووٹ ڈالنے خانپور نہیں گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی پیپلز پارٹی نے اس حلقے سے 2008 میں جیت کر جنرل مشرف کی گود میں جابیٹھنے والے میجر ر سید تنویر حسین کو ٹکٹ دے دیا تھا۔ میں نے دوستوں اور عزیزوں سے کہا پیپلز پارٹی کو حق ہے جسے ٹکٹ دے اسی طرح مجھ ووٹر کو بھی یہ حق ہے کہ اس کے نامزد امیدوار کو ووٹ دوں یا نہ دوں بہر حال 2013 کے علاوہ میں آٹھ مرتبہ ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دے چکا۔
مسلم لیگ، جماعت اسلامی یا پنجاب میں موجود کسی دوسری سیاسی جماعت کو ووٹ نہ دینے کی وجہ ان جماعتوں سے فہمی اختلاف ہے۔ آپ کہیں گے کہ پاکستان تحریک انصاف کا نام نہیں لکھا یہ بھی تو سیاسی جماعت ہے، بہت احترام کے ساتھ عرض ہے تحریک انصاف کو میں سیاسی جماعت نہیں سمجھتا یہ بھان متی کا کنبہ ہے اس میں اخیرالمومنین عمران خان کے قدیم و جدید عاشقوں کا بڑا حصہ ہے۔
ان عشقانِ عمران خان کی بڑی تعداد کا تعلق نام نہاد مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے ہے۔ ایک حصہ پیپلز پارٹی کے سابقین پر مشتمل ہے اس کا دعویٰ ہے کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پارٹی کو پہلے تباہ کیا اور پھر اسے مسلم لیگ ن کی بی ٹیم بنا دیا "کالم کی تمہیدی سطور ہیں اس لئے نام نہاد مڈل کلاس و لوئر مڈل کلاس کی فہمی سطح اور پیپلز پارٹی کے سابقین کے موقف پر بحث اٹھانے کی بجائے ہم آگے بڑھتے ہیں"۔ انشااللہ چند دنوں میں ہر دو طبقوں کے موقف پر تفصیل کے ساتھ عرض کروں گا۔
ہمارے ہاں کے جس المیئے یا رجحان کا بالائی سطور میں عرض کیا اس پر اہل دانش کو کھل کر مکالمہ کرنا چاہئے۔ میری دانست میں یہ صرف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے متعلقین و ہمدردوں کا فہم نہیں ایک عمومی سوچ ہے جو سرطان کی طرح پھیل چکا۔ یہاں لوگ اخبارات کی سرخیاں اور ضمنیاں (کیچ لائنز) کے علاوہ ٹی وی چینلوں کے ٹکرز اور سینہ گزٹ چلتی روایات اور کہانیوں پر دانش کی گھڑسواری کرتے ہوئے کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جانے کو رائے کا اظہار اور نظریہ سمجھتے ہیں۔
مثلاً ان دنوں عاشقان عمران خان میں شامل تمام طبقات کا خیال بلکہ ایمان ہے کہ دستور تباہ ہو رہا ہے، عدلیہ کا قتل عام جاری ہے، ملک میں آزادی نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ اس کے ساتھ وہ یہ دعویٰ بھی تواتر کے ساتھ ٹھوکتے ہیں کہ عمران خان سسٹم کا باپ ہے اور وہ جیل میں بیٹھ کر سسٹم کو انگلیوں پر نچا رہا ہے ہم اگر اس دعوے کو مان لیں تو پھر خرابیاں و بربادیاں بتائی جارہی ہیں ان کا اصلی ذمہ دار تو سسٹم کا وہ باپ ہوا جو جیل میں بیٹھ کر سسٹم کو انگلیوں پر نچارہا ہے۔
لیکن حقیت اس کے مختلف ہے اور بہت تلخ بھی مثال کے طور پر عمران خان خود ایک سے زائد مرتبہ یہ کہہ چکے کہ میں اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کو تیار ہوں لیکن مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کرتا۔
دوسری تلخ حقیقت یہ ہے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں صلح صفائی یا معافی تلافی کی پچھلے اڑھائی تین برسوں میں چار کوششیں ہوئیں۔ ایک کوشش فوج کے ریٹائر بڑے افسروں کے وفد نے کی اور تین عدد اوورسیز پاکستانیوں کے امریکی وفود نے کیں۔ ان تین میں ایک ڈاکٹرز کا وفد تھا دوسرا کچھ بااثر شخصیات کا تیسرا پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین تنویر خان کا یک رکنی وفد یہ چاروں کوششیں عمران خان کی بدزبانی کی عادت کی وجہ سے ناکام ہوئیں۔ اس کے باوجود ان کے عشاق اور پیروکار جھوٹ کی ناو چلاتے ہیں۔
میں ان سطور میں 9 مئی 2023 سے پہلے سے عرض کررہا ہوں کانوں کے کچے اور فیصلہ سازی کی اہلیت سے محروم لائی لگ عمران خان کی سیاسی تباہی کے ذمہ دار وہ ہارڈ لائنرز ہیں جنکی روزی روٹی اور سیاست کا دھندہ عمران خان سے چلتا ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھا ہوا شخص توہم پرست بھی ہے۔ آج کے معروضی حالات میں وہ اور ان کی جماعت جہاں کھڑے ہیں یہاں تک انہیں ان پر اثرانداز ہونے والے لائے ہیں بدقسمتی سے ان کے قریب و دور کا ہرشخص یہ چاہتا ہے وہ جیل میں ہی رہیں تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔
مجھے اندازہ ہے کہ بالائی سطور میں کہی گئی باتیں ان کے عشاقان کو بری لگیں گی اور وہ گالیوں کی سوغات بھیجیں گے لیکن مجھے فرق نہیں پڑتا مجھے جو سمجھ میں آیا اور قلم مزدور کے طور پر معلومات سے جو جان سکا ان کی روشنی میں اپنی رائے پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دی۔
مزید یہ کہ اگر عمران خان صرف اپنی بدزبانی کی دیرینہ عادت پر قابو پالیں اور اپنے سیاسی مخالفین کو گالی دینے یا ان سے بات کرنے کو توہین سمجھنے کی عادتِ بد سے نجات حاصل کرکے ایک سیاسی رہنما کی حیثیت سے سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا دروازہ کھول دیں تو حبس بھی کم ہوسکتا ہے اور سیاسی عدم استحکام بھی۔
انہیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ انہوں نے سیاسی جماعت بنائی تھی گوریلہ فورس ہرگز نہیں۔ سیاسی عمل میں برداشت تحمل اور درگزر کرکے آگے بڑھا جاتا ہے اپنی جماعت کے منشور پر سو فیصد نہ سہی پچیس فیصد بھی عمل کرلیا جائے تو سیاسی مخالفین کو دندان شکن جواب مل جاتا ہے۔
سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں مثلاً انہوں نے جنرل فیض حمید کے ذریعے چوہدری شجاعت حسین کو کہلوایا کہ میں "مونس الہٰی جیسے لوفر کرپٹ اور بدکار کو وزیر نہیں بناوں گا ق لیگ مجھ سے ملاقات کیلئے آنے والے اپنے وفود میں اسے شامل نہ کیا کرے" لیکن پھر ایک دن انہوں نے مونس الہٰی کو اپنی کابینہ میں وزیر بنالیا۔
اسی طرح وہ پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو سمجھتے تھے لیکن ایک دن اسی سب سے بڑے ڈاکو کو انہوں نے پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ ہماری رائے میں اگر وہ صرف اپنے ان دو فیصلوں کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں تو انہیں اپنی موجودہ حالت اور مسائل و مشکلات کی بنیادی وجہ سمجھ میں آجائے گی مگر اس کا کیجے گا کہ وہ سوچنے کی زحمت کی بجائے ایک بھاری بھرکم گالی دے کر کہیں گے "میں ان کی نسلوں کو برباد کردوں گا"۔ کاش کوئی انہیں سمجھا پاتا کہ سیاست مولاجٹ فلم نہیں ہوتی کہ گنڈاسہ پکڑا اور گردنیں مارتے چلے گئے فلم اور سیاست میں فرق ہے جس نے یہ فرق سمجھ لیا اس نے سیاسی عمل میں جگہ بنالی۔
اب آپ کہیں گے کہ پاکستان کے سیاسی عمل میں عمران خان کی جگہ ہے اس سے انکار کورچشمی ہے آپ درست کہیں گے بلکہ کہہ رہے ہیں۔ عمران خان پاکستان کی مروجہ سیاست کی ایک حقیقت ہے لیکن اس کا کیا کریں کہ یہ حقیقت نفرت کے پلرز پر کھڑی ہے۔ مخالف سیاسی جماعتوں سے نفرت فوج سے نفرت پسند کے چند ججز کے علاوہ باقی کے ججز سے نفرت ناقدین سے نفرت ہر اس صحافی اینکر اور یو ٹیوبر سے نفرت جو عمران خان یا ان کے عشاقان کا ہم خیال نہ ہو۔
نفرتوں کے اس دھندے اور سیاست نے انہیں تنہا کردیا ہے، یقیناً ان کے ہمدردوں کو یہ باتیں بری لگیں گی مگر میں جو دیکھ محسوس کررہا ہوں وہی عرض کروں گا کیونکہ میرا کوئی سیاسی مالی یا یوٹیوبری مفاد تھا ہے نہ ہوگا۔
میں آٹھ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دے چکا کیونکہ متبادل نہیں تھا اب بھی متبادل نہ ہوا تو بشرط زندگی آئندہ عام انتخابات میں بھی میرا اور میری صاحبزادی کا ووٹ پیپلز پارٹی کیلئے ہوگا۔
آٹھ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر ٹکے کا مفاد لیا کیا سوچا بھی نہیں بلکہ میرے ایک کالم کی وجہ سی فیصل رضا عابدی نے میرے بھائی اسد بخاری کو دوسرے ملازمین کے ہمراہ پی آئی اے میں بحال کیا نہ اسے سابقہ واجبات کے حصول کا حق دلوایا بھائی کو میاں نوازشریف کے دور میں بھی میرے ہی بعض کالموں اور بالخصوص "اباجی اینڈ کمپنی کی فخریہ پیشکش رفیق تارڑ" والے کالم پر جناب نواز شریف نے ایئر لیگ نامی تنظیم کے کہنے پر پی آئی اے سے "فکس" کرنے کا حکم دیا تھ۔ خیر یہ بات ایک حوالے کے طور پر ہوگئی عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست بند گلی میں ہوتی ہے نہ بات چیت کا دروازہ بند کے بیٹھ رہنے سے دشمنی اور دوستی بھی نہیں ہوتی آرا اور کام کرنے کے انداز میں اختلاف ہوتا ہے عمران خان جتنا جلد یہ سمجھ لیں گے ان کی ذات سیاست اور پارٹی و عاشقان کے حق میں بہتر ہوگا۔
حرف آخر یہ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور دانش کا اظہار جگالی سے نہیں دلیل سے ہوتا ہے۔
ہم سیکورٹی سٹیٹ کے شہری ہیں یہ سیکورٹی سٹیٹ برطانیہ اور امریکہ کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے معرض وجود میں لائی گئی تھی اور پھر قرارداد مقاصد کا طوق ان مفادات کے تحفظ کیلئے ہمارے گلوں میں ڈالا گیا۔
جمہوریت کے قیام کیلئے ہم نے یا پچھلی نسلوں نے جو جدوجہد کی ہربار اس کا نتیجہ طبقاتی جمہوریت کی صورت میں برآمد ہوا ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ سیکورٹی سٹیٹ کے قلعہ اور طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے عوامی جمہوریت کیلئے راستہ کیسے نکالنا ہے دانش اور حکمت عملی سے یا حملہ آور ہوکر؟ میری دانست میں اس سوال کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری آئندہ نسلیں بھی سیکورٹی سٹیٹ کے قلعہ کے طبقاتی جمہوریت کے کوچے کا رزق بنتی رہیں۔

