کیجئے کیا اس دل کا
دوست احباب شاکی ہیں اور گاہے گاہے پڑھنے والے عزیزان (قارئین) پیغامات کے ذریعے دریافت کرتے رہتے ہیں کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے تسلسل کے ساتھ نہیں لکھ رہے خیریت تو ہے؟
سچ پوچھئے تو اپنی اس حالت پر میں خود بھی حیران ہوں۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران لگ بھگ دس بارہ نئی کتب منگوائیں تین کتابیں ایک دوست نے اور دو دوسرے دوست نے تحفتاً بھجوائیں لیکن میں مجموعی طوپر ساٹھ ستر صفحات ہی پڑھ پایا ہوں۔
حالانکہ مطالعے کی پرانی عادت ہے۔ دو عشروں سے تو یہ صورت بن گئی ہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف موضوعات کی دو تین کتابیں پڑھتا ہوں۔ مثلاً تاریخ کے ساتھ آپ بیتی، سفر ناموں کے ساتھ ملکی یا برصغیر کی سیاست پر کوئی کتاب لیکن اب صورتحال یا یوں کہہ لیجئے کہ لائبریری میں دس بارہ اور کسی دن پندرہ سولہ گھنٹے بیٹھے رہنے کے باوجود کچھ پڑھنے اور لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔
ہمارے لاڈلے دانشور بلال حسن بھٹی کا کہنا ہے کہ "شاہ جی اصل میں آپ سوشل میڈیا کو ضرورت سے زیادہ وقت دینے لگ گئے اس لئے مطالعے اور لکھنے میں ہرج ہورہا ہے"۔ کلی طور پر تو نہیں دس پندرہ فیصد یہ بات درست ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی عرصے میں معاملات متاثر ہونے کے باوجود اخبار کے لئے اداریہ لکھنا ایسی مجبوری ہے کہ ہم ایسے مزدور بستر مرگ پر بھی مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
فقیر راحموں کے بقول "اجل شب کے پردے میں آن دبوچے تو اخبار والوں کی قسمت دن میں آمد ہو تو درخواست کی جاسکتی ہے کہ آج کا اداریہ لکھ لیں پھر چلتے ہیں"۔
وجہ یہی ہے کہ دو تین اخبارات کے علاوہ زیادہ تر میں ایک ہی اداریہ نویس ہوتا ہے اسے ہی کوہلو کے بیل کی طرح 365 دن جُتے رہنا ہوتا ہے۔
تمہید طویل ہوگئی قصہ یا یوں کہہ لیجئے کہ صورتحال یہ ہے کہ پڑھنے کے لئے کتاب کھولتا ہوں تو لگ بھگ آٹھ ماہ میں بچھڑ جانے والے دو محبوب ماں جائیوں (بھائیوں) کی تصویریں لفظوں کی جگہ ابھر آتی ہیں۔ کتاب بند کرکے بیٹھ جاتا ہوں۔
جی چاہتا ہے کہ کچھ دن عشروں سے لگے بندھے روزمرہ کے معمولات سے ہٹ کر بسر کئے جائیں لیکن یہ ممکن نہیں میں کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر جو مزدوری کرتاہوں اس کی اجرت دیہاڑی دار مزدور سے کم ہے پھر بھی یہ میری ضرورت ہے زندہ رہنے کے لئے۔
میڈیا ہائوسز میں کام کرنے والوں کی چھم چھم بس دور کے ڈھول سہانے ہیں کسی دن کسی قلم مزدور کے گھر اور سینے میں جھانک کر دیکھئے کئی راتوں تک نیند روٹھی رہے گی۔
بہرطور عرض یہی ہے کہ کچھ لکھنے پڑھنے کو جی آمادہ نہیں اداریہ لکھنا مجبوری ہے ضرورت سے بھری مجبوری اسی طرح اگر "مشرق" پشاور کے لئے کالم نہ لکھوں تو دیہاڑی مرتی ہے۔
جی اچاٹ سا ہوگیا ہے۔ اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ ہر ذی نفس کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ لاریب یہاں مقررہ سانسوں سے زائد کوئی نہیں رہتا۔ اب کچھ دوست کہہ رہے ہیں کہ سائنس تحقیق کی اس منزل کے قریب ہے جب وہ سانسوں کی ڈور ٹوٹنے کے عمل کو روک پائے گی۔
سائنس کی ترقی کے مدارج دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ ایک دن یہ ممکن ہوجائے گا اور مولوی، پنڈت، پادری، ربی، کاہن و پجاریوں کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ سائنس کب تک اس منزل پر پہنچے گی ہمیں تو خبر نہیں کسی دن برادرم مبشر علی فاروق سے ملاقات ہوتی ہے تو ان سے دریافت کرتے ہیں یہ اور ان سے جڑے ہوئے سائنسی تحقیق کے موضوعات سے انہیں بہت دلچسپی رہتی ہے اس کے باوجود کہ وہ خود ایک وکیل ہے لیکن ہیں مطالعے کی دنیا کے آدمی ان سے ہر ملاقات میں کچھ نیا سننے او سیکھنے کو ملتا ہے۔
عرض یہ کررہا تھا کہ دیہاڑی داری کی مجبوری کے علاوہ کچھ لکھنے پڑھنے کو جی نہیں کرتا۔ کیا کیجئے دوستوں کی اپنی مصروفیات اور ذمہ داریاں ہیں پھر بھی کچھ مہربان دوست اور عزیز وقت نکال کر تشریف لے آتے ہیں جی قدرے بہل جاتا ہے اس کے باوجود وہ پوچھتے رہتے ہیں یار شاہ جی اداس کیوں ہو کیا کوئی پریشانی ہے؟
کوشش تو کرتاہوں دل کے نغمے چہرے پر رقص نہ کریں مگر کوئی بے اختیاری سی بے ختیاری ہے۔
بھائی سبھی کو عزیز ہوتے ہیں بھائیوں سے زیادہ بہنوں کو، بہن بھائیوں کے تعلق کو ایک خاص انداز سے محسوس کرنے کے میرے جذبات کی مختصر کہانی یہ ہے کہ میں اپنے 65 سال کے سفر حیات میں بہن بھائیوں کے درمیان مشکل سے دس بارہ سال رہ پایا ہوں گا پچھلے عشرے میں چند برس ملتان میں گزارے بھی تو الگ سے قیام کیا بہن بھائیوں کی زیارتیں تو کیں لیکن زیارتوں کے یہ دن ویسے نہیں تھے جو بے فکری سے عبارت بچپن یا جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے ماہ و سال کے ہوتے ہیں۔
حالات کچھ بھی ہو اور موسم کیسے ہی کیوں نے ہوں مادر گرامی سے جڑے رشتوں کی اپنی ہی خوشبو اور حیثیت ہوتی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی بدولت لگ بھگ آٹھ ماہ کے اندر بچھڑ جانے والے دو ماں جائیوں کے غم سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔
ذہن و دل کی عجیب سی حالت ہے ایسی کے لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کڑوا سچ یہی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ سانسوں کی ڈور کٹ جائے تاکہ سردوگرم، قلم کی مشقت اور سوچوں سے نجات مل جائے جونہی یہ خیال آتا ہے، کچھ ذمہ داریاں بالخصوص بیٹی کی ذمہ داری، رشتہ اور محبت دستک دینے لگتے ہیں۔
پچھلے تقریباً ڈیڑھ پونے دو ماہ سے ایسی ہی سوچوں اداسیوں اور کیفیت سے گزر رہا ہوں۔ ہر شب بستر پر دراز ہونے سے قبل جی کو اس امر پر آمادہ کرتا ہوں کہ اگلی صبح سے روزمرہ کے معمولات ویسے یہ ہوں گے جیسے کئی عشروں سے ہیں۔ اگلی صبح پچھلی شب کا وعدہ ٹوٹ جاتا ہے۔
اس صورتحال پر خود بھی پریشان ہوں۔ کیا کیجئے چارہ گری کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ اس امر سے کاملاً آگاہ ہوں کہ زندگی یہی ہے کہ دکھ سکھ امتحان، کامیابی و ناکامی، موسم کھدرے اور سہانے، اس کے باوجود جی کا جو حال ہے وہ بالائی سطور میں بیان کرچکا۔ کوشش کررہا ہوں کہ خود کو سمیٹ سنبھال کر زندگی کے معمولات کی طرف لوٹ آئوں۔
آدمی کوشش ہی کرسکتا ہے۔ قلم مزدور کو یہ احساس بھی ہے کہ سیاست اور نظام حکومت کی گرماگرمی سے بھرے ان دنوں میں لکھنے کے لئے موضوعات کی بھرمار ہے۔ ایک موضوع تو بڑا دلچسپ ہے۔ وہ ہے "شتر مرغ ہلال ہے کہ حرام"؟ اچھا اگر ہلال ہے تو اس کا طبقہ اور فرقہ کون سا ہے۔ حرام ہے تو طبقہ اور "دیگر" معلومات کھوجنے میں توہین کا پرچہ ہی نہ ہوجائے۔
گزشتہ روز بھی چند عزیزوں سے عرض کیا تھا کہ پچھلی چند دہائیوں سے ہمارے ہاں لوگوں کا نام دیکھ کر اس کے عقیدے بارے فیصلہ ہوتا ہے اور پھر یہ طے بھی کہ اس فلاں فرقے والے سے تعلق رکھناہے کہ نہیں۔ رکھنا ہے تو کتنا؟
تعلق نہ رکھنے کی تو ایک ہی وجہ ہوتی ہے وہ یہ کہ تو ہمارا مخالف تیری سزا سر تن سے جدا۔ یعنی معاملہ اور مسئلہ کچھ بھی ہو فرقہ واریت کا رانجھا راضی کرنے کے میدان مل جاتے ہیں۔ نصف صدی ہوگئی قلم مزدوری کرتے ہوئے درجنوں نہیں سینکڑوں بار اپنی لکھی تحریر پر یہ کڑوا تبصرہ سنا۔
ہاں بھئی شیعہ جو ہو یہی لکھو گے۔ عرض کیا اس سیاسی یا تاریخ و سیاسیات پر لکھی گئی تحریر کا عقیدے سے کیا تعلق تو ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے جواب داغا گیا ہم بچے نہیں سب جانتے ہیں تم ایرانی کڑچھے ہمیں گمراہ کرنے پر تلے رہتے ہو۔
سوال گندم اور جواب چنا کے مصداق ایسے تبصروں سے آئے دن واسطہ پڑتا رہتاہے۔
عرض یہ ہے کہ ذاتی محسوسات اور اداسیوں سے بھرے ذہن سے لکھے گئے اس کالم پر معذرت قبول کیجئے۔ کیا کریں ہم بھی تو چار اور بسنے والے دوسرے انسانوں کی طرح ہی ہیں گوشت پوست، ہڈیوں او جذبات میں گندھے ہوئے۔
آپ سے بس دعائوں کی درخواست ہے کہ ان دنوں ہمیں دعائوں کی اشد ضرورت ہے۔