بٹوارہ، آزادی، خواب اور حقیقت

دو کم 80 برسوں کا حساب سارا صاف سامنے دیوار پر لکھا ہے۔ اگر آپ پڑھنا چاہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ہم دیوار پہ لکھی حقیقت پڑھنے کی بجائے دوسروں کے گریبانوں میں تانک جھانک کرتے ہیں یا دوسرے کی آنکھ شہتیر کھوجتے ہیں تاریخ اور دیوار پر لکھی حقیقتوں سے آنکھیں چراتے 78 برس گزار آئے 79 واں شروع ہوگیا لیکن جو خواب بوئے گئے تھے ان کی تعبیر نہیں مل پائی کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ 1947 میں ہونے والے بٹوارے کے ہنگاموں میں لاکھوں مرد و زن کھیت ہوئے اور ان کے خواب تعبیروں سے پہلے چوری ہوگئے۔ 4 بار جرنیل شاہی اس ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوئی۔
قائد اعظم خراب ایمبولینس میں دم توڑ گئے۔ لیاقت علی خان کو لیاقت باغ میں گولی مار دی گئی۔ حسین شہید سہروردی دیار غیر (بیروت) کے ایک ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ بھٹو پھانسی چڑھے، نواز شریف پہلے کاکڑ فارمولے میں قربان ہوئے پھر ان کا تختہ جنرل پرویز مشرف نے الٹا لیکن اس بار وہ معافی نامے کے عوض جلا وطنی خرید کر جدہ چلے گئے۔
بے نظیر بھٹو لیاقت باغ کے باہر کھلی سڑک پر مار دیں گئیں۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے ان دنوں جی ایچ کیو اور آستانہ عالیہ آبپارہ شریف میں خالص اپنی جماعت بنانے کا شوق رقص کررہا تھا یہ رقص ڈی چوک کے اسٹیج سے 126 دن پیش کیا گیا لیکن بات نہ بن سکی البتہ ڈی چوک میں اتارے گئے لشکر کی ناکامی کی پردہ پوشی کے لئے "اہتمام" کیا گیا اس اہتمام کے حوالے سے گردش کرتی کہانیوں میں دم ہے یا نہیں اس کا جواب مل سکتا تھا اگر کوئی تحقیقاتی کمیشن بنادیا جاتا پر یہ بناتا کون کیا بے صبری سے طبقاتی نظام میں حصہ پانے کی خواہش میں مر مر جانے والے اپنی پالنہار اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دیکھا سکتے ہیں؟
کم از میرا جواب نفی میں ہے خیر قصہ مختصر یہ کہ نواز شریف تیسری بار اسی عدلیہ کے ہاتھوں رخصت و نااہل ہوئے جس عدلیہ کے یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلے پر انہوں نے ارشاد فرمایا تھا "قانون کی بالادستی اور عدلیہ کے فیصلوں کا وقار قائم رکھنے کیلئے 100 وزرائے اعظم بھی گھر بھیجنا پڑیں تو بھیج دینے چاہیں معاف کیجے گا بات خاصی آگے نکل گئی ہم نے بات بٹوارے سے شروع کی تھی اسی بٹوارے سے جسے مذہبی تڑکے لگانے کے لئے کسی نے مقدس خواب بُنے اور کسی نے ثابت کیا کہ لگ بھگ ہزار سال سے اکٹھا رہتے ہندو اور مسلمان چونکہ دو الگ الگ اقوام ہیں اس لئے اب ان کا اکٹھا رہنا ممکن نہیں۔
مگر اس کا کیا کیجے کہ ہم جیسے ہزار ہا طالبعلم زمین زادے یہ سمجھتے ہیں کہ برصغیر کی گرین بیلٹ پر بننے والا پاکستان آل انڈیا مسلم لیگ اور محمد علی جناح صاحب کا خواب ہوگا مگر خواب کے تاجر کوئی اور تھے ورنہ جناح صاحب بٹوارے کی ماراماری میں کی گئی تقاریر اور دیئے گئے بیانات کے یکسر برعکس 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے یہ نہ بتاتے کہ نئی مملکت میں اپنی مذہبی قومیتی و لسانی شناختوں کے مختلف ہوتے ہوئے بحیثیت پاکستانی سب اکٹھے رہ سکتے ہیں اور ریاست کو کسی کے مذہب عقیدے وغیرہ سے کوئی سروکار نہیں۔
عجیب بات ہے نا اب اس عجیب بات کی تفسیر و تجزیہ میری اور آپ کی حُب الوطنی کو بھرشٹ کرسکتا ہے چلیں خیر ان قصوں کہانیوں اور خوابوں سے بنی تاریخ کے بیچوں بیچ آگے چل کر 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت بھی ہوا تھا ایسا ہی دوسرا سانحہ اسٹیبلشمنٹ کا ذاتی جماعت بنانے اور پھر اسے اقتدار میں لانے کے جنون کی کوکھ سے برپا ہوا آئی ایس آئی کی چھتر چھایہ میں عمران خان اور اس کی جماعت کو 2018 میں اقتدار دلوایا گیا اس ذاتی جماعت کے شوق اور دیوتا گیری والی قیادت کے نتائج آئندہ کئی عشروں تک بھگتنا ہوں گے۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رُکیئے دیوتا اور اس کی جماعت کو کامل تباہی سے کچھ پہلے اقتدار کے ایوانوں سے نکالنے کا فیصلہ اور اس پر عمل غلط تھا اس فیصلے اور عمل میں کاندھے فراہم کرنے والوں کو اپنی غلطی تسلیم کرلینی چاہئے کیونکہ جلد بازی کی وجہ سے پیدا ہوا سیاسی عدم استحکام کسی بھی طور کم ہونے میں نہیں آرہا۔
خیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔۔
جان کی امان رہے تو عرض کروں ایک قومی جمہوری فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو پایا۔ جناح صاحب کہتے تھے "ریاست کو آپ کے مذہب و عقیدے، ذات پات اور رنگ و نسل سے کوئی لینا دینا نہیں آپ سبھی اس ریاست کے مساوی حقوق والے شہری ہیں"۔
مگر ہوا اس کے برعکس۔ جو ہوا اس کے نتائج ہمارے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ داخلی تضادات آسمان کو چھو رہے ہیں۔ پڑوسیوں سے ہماری نہیں بنتی۔ پڑوسی اچھے نہیں کہ ہم میں کوئی کج ہے؟
اس سوال پر مٹی ڈالیں۔ جواب تلاش کرکے حب الوطنی مشکوک نہ بنائیں۔ اس ملک میں فتوئوں کی صنعت سب سے منفعت بخش تھی اور ہے کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم ایک غدار، ایک کافر اور پسندیدہ مظلوم کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔
انتہائوں میں تقسیم معاشرے میں چراغ محبت روشن کیسے ہو۔ محبت جو فاتح عالم ہے۔ گولڈن جوبلی 28 سال قبل منائی تھی پلاٹینم جوبلی تین سال قبل مگر حساب کیا ہے؟
بٹوارے کے ہنگام میں جو رزق خاک ہوئے وہ ایک فلاحی جمہوری مملکت کا خواب آنکھوں میں بسائے ہوئے تھے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے بٹوارے پر موجود ساری آراء کو آراء رکھنے والوں کا حق سمجھتا ہوں۔
یہ ملک قائم ہوا، ہوگیا، اسے رہنا چاہئے لیکن مجھے معاف کیجئے گا ایسے تو لوگ مہمان نہیں رکھتے جیسے یہ ملک رکھا گیا اور رکھا جارہا ہے دستور ہے بھی اور نہیں بھی۔ قانون موم کی ناک ہے۔ وسائل پر بالا دست طبقات کی اجارہ داری ہے۔ 7 سے 10 فیصد لوگ معلوم طبقات کی پشت پناہی سے ہر چیز پر قابض ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کے حوالے پدرم سلطان بود کے طور پر دیتے ہیں۔ تاریخ سے سیکھا جاتا ہے۔ پر ہم تو سیکھے سکھائے لوگ ہیں۔ ہمارے چار اور کیا ہو رہا ہے۔
بے خبری کا عالم یہ ہے کہ کچھ نہیں جانتے۔ کبھی کبھی ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو فرماتے ہیں ضرورت سے زیادہ جان کر کیا کریں گے۔ آگے بڑھنے سے قبل عرض کروں ہمیں بھارت میں ہندو توا اور تعصب کے زہر سے بھری قوم پرستی پر ناک چڑھانے کی بجائے اپنی ادائوں پر بھی غور کرلینا چاہئے۔
تالی ایک نہیں دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ بال ٹھاکرے، مودی، رام سینا فقط باڈر کے اس پار نہیں ہیں ادھر بھی بہت ہیں بس نام بدلے ہوئے ہیں اور مسلمانی والے کردار باقی سب ویسا ہی ہے جیسا بارڈر کے اُس اور ہے۔
اچھا ایک سادہ سا سوال ہے ہم نے محبت کب کاشت کی؟ پڑوسیوں کو چھوڑیں خود اس ملک کی جغرافیائی حدود میں آباد قومیتوں کے درمیان اعتماد سازی پر کیوں توجہ نہیں دی گئی؟
فرد کی غلطی پر پوری قومیت کو طعنہ مارتے ہیں۔ در گزر تو ہمیں مرغوب ہی نہیں۔ مان لیا آزادی ملی بٹوارہ نہیں ہوا ایسا ہے تو پھر متحدہ ہندوستان کی تحریک آزادی ہو یا قیام پاکستان کی جدوجہد ان میں حصہ لینے والے سارے بزرگ مرد و زن آخر ہمارے لئے قابل احترام کیوں نہیں۔
یہاں کتنے لوگوں کو علم ہے کہ مہاتما گاندھی کو جب گولی ماری گئی تو وہ بھارتی حکومت کے پاکستان دشمن رویوں اور پاکستان کے مالی حصے کو دبالینے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ بھوک ہڑتال پر تھے؟
جناح صاحب نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں جو تقریر کی تھی اس کے مندرجات کو دستور سازی کی روح بنانے کی بجائے قرارداد مقاصد کے بائیس نکات سر نامہ کلام کیوں ٹھہرے؟
تقسیم المیہ ہوتی ہے ہمیشہ سے مگر المیوں کی مجاوری کی بجائے زندہ سماج کی تشکیل اہم ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے زندہ سماج تشکیل دینے کی ضرورت سے صرف نظر ہوا، بہت ادب سے کہوں آنے والی نسلوں کے ہم سبھی مجرم ہیں۔ اپنے اپنے حصے کا کردار اداکرتے رہنا چاہئے تھا۔ یہاں ہوا کیا۔ ایک لمبی روداد ہے۔ دکھوں سے بھری کہانی سطر سطر لہو۔ اب جو سوال منہ چڑھا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہماری آئندہ نسلیں اسی طبقاتی نظام اور تعصبات کی غلام رہیں گی؟
خلق خدا کا راج کب قائم ہوگا۔ ساعت بھر کے لئے رکئے۔ میں عرض کئے دیتا ہوں۔ تجربوں کے شوق، جھوٹی تاریخ، پدرم سلطان بود کے زعم اشرافیہ کے چند صد خاندانوں کی سیاسی و مذہبی غلامی ہمیں ان سب سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ ہمیں میاں افتخار حسین جیسے جوان مرد سیاست دانوں کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بطور سیاسی جماعت احیاء کی۔ جمہوریت تبھی پروان چڑھ پائے گی۔ ووٹ کی طاقت کو سمجھنا ہوگا۔ پارلیمان کے تقدس کو اور نظام کی حقیقت کو بھی۔
یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم سارے جبر و استحصال کی زنجیروں کو توڑنے اور طبقاتی و ادارہ جاتی بالا دستی کے خاتمے کے لئے متحدہوں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ بدلنا تو چاہتے ہیں مگر خود کو بدلنے پر تیار نہیں۔
آج کی ضرورت یہ ہے کہ انصاف ہو، وسائل مساوی طور پر تقسیم ہوں۔ ادارے دستور میں وضع کردہ حدود میں رہیں۔ قانون کی سر بلندی ہو۔
یہ اس طور ممکن ہے کہ اپنے حصے کا سچ وقت پر بولا جائے۔ سمجھ لیا جائے کہ یہ ملک پچیس چھبیس کروڑ لوگوں کا ہے۔ عقل کل کوئی نہیں۔ اختلاف رائے معاشرتی زندگی کی سند ہے۔ یہاں اختلاف رائے ذاتی دشمنی کی صورت لے لیتا ہے۔
اداروں اور شخصیات سے لاکھ اختلاف کے باوجود یہ ہم سب کا ملک ہے اسے عوامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کی ذمہ داری بھی ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ آگے بڑھئے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیجئے اور عملی طور پر یہ ثابت کیجے کہ یہ ملک مال غنیمت نہیں وطن عزیز ہے۔

