امڑی کی تربت پر بھیا ابو کا پُرسہ
گزشتہ دو اڑھائی ہفتوں کے دوران بہت سارے احباب اور قارئین نے تسلسل کے ساتھ کالم نہ لکھنے کی بابت دریافت کیا۔ عرض کیا کہ کوشش کررہا ہوں کہ خود کو سمیٹ کر پھر سے زندگی کے لگے بندھے معمولات کی طرف توجہ دوں۔ یہ توجہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ قلم مزدوری ہی مجھ طالب علم کا ذریعہ روزگار ہے۔ اس سے سوا کوئی دوسرا کام سیکھا نہ آتا ہے۔
وائے غربتا کہ ایک برس سے بھی کم عرصے میں دو بھائیوں کے سفر آخرت نے ایسی توڑپھوڑ کی ہے کہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں۔ چند عزیز جاں دوستوں اور بہی خواہوں نے ان دنوں میں دلجوئی کا حق ادا کیا۔ ان سب کی صحت و سلامتی کے لئے دعاگو ہوں۔
اس امر سے انکار نہیں کہ اس دنیا سرائے میں مستقل کسی کا پڑاو نہیں رہتا۔ سکول کے زمانے میں استاد صالح محمد فرمایا کرتے تھے "بچو دنیا ایک سٹیج ہے اس سٹیج پر ہر شخص اپنا کردار ادا کرنے کے بعد پس پردہ چلا جاتا ہے۔ کوشش یہ کرو کہ اپنے حصے کا کردار ادا کرتے وقت تکبر، خودپسندی، مصنوعیت وغیرہ سے بچ کر رہو جو اور جتنا جانتے ہو اسی کے مطابق اپنا کردار ادا کرو تاکہ جب پس پردہ جائو تو یاد رکھے جائو"۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں دنیا کے سٹیج پر اپنے حصے کا کردار درست ادا کررہا ہوں کہ نہیں۔ جب بھی اس طرح کی سوچ اور سوال دستک دیتے ہیں، ہمزاد فقیر راحموں کہتا ہے "شاہ جتنا بس میں تھا کرچکے جتنا بس میں رہے گا ادا کر گزریں گے۔ دماغ کھپانے کا کیا فائدہ"۔
سچ پوچھیں تو مجھ سے اب یہ لگے بندھے فرائض بھی ادا نہیں ہو پارہے۔ باوجود اس کے کہ اس حقیقت سے بہت پہلے آگاہی ہوگئی تھی کہ زندگی کے سارے تعلق اپنے اپنے وقت مقررہ پر تمام ہوتے ہیں۔
میرا دکھ یہ ہے کہ والد بزرگوار اور والدہ محترمہ (امڑی سینڑ) کے سانحہ ارتحال پر جو بھائی چھوٹوں کو یہ کہہ کر دلاسہ دیتا تھا کہ جب تک میں زندہ ہوں تم خود کو یتیم نہ سمجھو یہ یتیمی کا سارا دکھ میں اٹھالوں گا۔ وہی بھائی جسے خاندان میں سب سے پہلے میں نے بھیا ابو جی کہا تھا اور انہوں نے بھیا ابو جی بن کر دکھایا ہمیں یتیمی کا دکھ دے کر 25 جنوری کی شام رخصت ہوگیا۔
ہفتہ دس دن قبل بہنوں نے حکم دیا ہفتہ بھر کے لئے ملتان آجائو۔ عزیز واقارب اور احباب تعزیت کے لئے آرہے ہیں۔ بھیا ابو کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کااہتمام بھی کرنا ہے۔ بہنوں کے حکم پر ہفتہ بھر امڑی سینڑ کے شہر ملتان میں بسر کرکے گزشتہ شام واپس لاہور آیا ہوں۔
اپنے جنم شہر سے رخصت ہونے سے قبل پچھلی سوا دو دہائیوں سے امڑی سینڑ کی تربت پر حاضری ضرور دیتا ہوں۔ ماں سے اجازت طلب کرتا اور دعائوں کی درخواست کرتا ہوں۔ اجازت طلب کرنے اور دعائوں کی درخواست کرنے کے درمیانی لمحوں میں اپنی امڑی سے جی بھر کے باتیں کرتا ہوں۔ دنیا جہان کی باتیں۔ کچھ شکوے، چند شکایات اور جو جی میں ہو مادرِ گرامی کی تربت پر عرض کرتا ہوں۔
مجھے ہمیشہ سے اپنے ہونے کے یقین کی طرح یقین ہے کہ ماں بھلے تربت میں آرام کررہی ہو اولاد کی باتیں سنتی ہے ان کے دکھ درد سے بھی آگاہ رہتی ہے اولاد کے لئے ہمہ وقت دعاگو ماں ہی رہتی ہے۔ ماں بظاہر تو مٹی کے ڈھیر میں بنی تربت میں آرام کررہی ہوتی ہے لیکن اس کی حقیقی قبر اولاد کے سینے میں ہوتی ہے۔
امڑی ایک ایسا آٹھواں آسمان ہے جو اولاد کو اپنے مضبوط حصار میں رکھ کر زمانے اور قدرت سے ان کے لئے خوشیاں ہی خوشیاں سمیٹتا اور اولاد پر نچھاور کرتاہے۔
زندگی کے اب تک کے سفر میں مجھے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ ایک چھت کے نیچے بہت کم رہنے کا موقع ملا لگ بھگ 50 برس حصول علم اور تلاش رزق میں جنم شہر اور اپنوں سے دور بیتائے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس بچی کھچی حیات میں پہلے مادر گرامی اور اب بہن بھائی مجھ پر خصوصی توجہ دیتے اور محبتیں نچھاور کرتے ہیں۔
ایک بار میری بیٹی فاطمہ نے مجھ سے پوچھا "بابا جانی آپ اپنی بہنوں کو ملتے وقت ان کے گھٹنے کیوں چھوتے ہیں؟ عرض کیا جانِ پدر، مجھے بہنوں میں اپنی مادرِ گرامی دیکھائی دیتی ہیں۔ وہ بولی، بابا لیکن بڑی پھپھو کے علاوہ ساری بہنیں آپ سے چھوٹی ہیں۔ میں نے اس کا ماتھا چوم کر کہا بابا کی جان بہن ماں کا ہی ایک روپ ہوتی ہے یہ روپ عمریں نہیں دیکھتا بس محبت ہی محبت سے بھرا ہوتا ہے"۔
جمعرات کی صبح ابھی آفتاب کی کرنیں زمین پر دستک دے رہی تھیں جب میں مادرِ گرامی (امڑی سینڑ) کی تربت پر حاضر ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا میں امڑی سینڑ کے پسندیدہ پھولوں (موتیے کے پھولوں) کے بغیر ان کی تربت پر حاضر ہوا۔ میں ہمیشہ اپنی مادر گرامی کو حال دل سناتا ہوں بہت تفصیل کے ساتھ۔ اس میں زمانے اور لوگوں کے شکوے بھی ہوتے ہیں کچھ شکایات بھی۔ میں اپنی مادر گرامی سے وہ باتیں اور فرمائشیں بھی کرتاہوں جو خدا سے بھی نہیں کرتا۔
میرے لئے سب کچھ میری مادر گرامی ہی ہیں۔ اگر کوئی دوسرا جنم ہو تو میں عطا کرنے والے سے یہی درخواست کروں گا کہ میں سیدہ عاشو بی بی وعظ والی کے بیٹے اور ایک ملتانی کے طور پر جنم لینا چاہوں گا۔ میری مادر گرامی اور ملتان دونوں کا متبادل کل جہان بھی نہیں ہے۔
جمعرات کی صبح صادق کے ساتھ اپنی امڑی سینڑ کی تربت پر حاضر ہوا تو دل و دماغ کی جو حالت تھی سو تھی پورا جسم لرز رہا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چند ماہ قبل امڑی سینڑ کی تربت پر ایک حاضری کے وقت بھیا ابو بھی ہمراہ تھے۔ تب انہوں نے کچھ باتوں کی وجہ سے مجھے امڑی سینڑ کی تربت پر ڈانٹتے ہوئے کہا تھا "ماں میرے تیرے اس لخت جگر کو تربت پر اپنے ہمراہ اس لئے لایا ہوں کہ اسے سمجھائو اپنی صحت کا خیال رکھے بس یہی ایک شکایت ہے مجھے اس سے"۔
لیکن اس بار میں امڑی سینڑ کی تربت پر سر جھکائے مجرموں کی طرح حاضر ہوا۔ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ مادرِ گرامی کی تربت پر کیسے عرض کروں کہ امی جان بھیا ابو بھی ہمیں چھوڑ کر دائمی سفر پر روانہ ہوگئے۔
تلاوت، فاتحہ اور بالخصوص سورۃ کوثر کی تلاوت کا ہدیہ مادرِ گرامی کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد کافی دیر تک آنسوں کا نذرانہ پیش کرتا رہا۔ پھر ہمت کی اور امڑی سے عرض کیا، امڑی جان، آپکے دلنواز و محبوب فرزند بھیا ابو کے سانحہ ارتحال پر پُرسہ پیش کرتاہوں۔
مجھے لگا مادر گرامی کہہ رہی ہیں اس جہان میں جو آیا اسے وقت مقرہ پر رخصت بھی ہونا ہے یہی قانون قدرت ہے۔ جی چاہا کہ عرض کروں مادر گرامی بھیا ابو نے وعدہ خلافی کی ہمیں یتیمی کے حوالے کرکے رخصت ہو گئے۔ اپنی دعائوں سے محروم کرگئے۔ ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر شاداں ہونے والے بھیا ابو ایک ایسا غم دے گئے جو باقی ماندہ سفر حیات میں ساتھ رہے گا لیکن عرض کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔
"وائے غربتا کہ ماوں کے بغیر ہر شہر اولاد کے لئے مدینہ بن جاتا ہے سارے دکھ ماں کی تربت پہ ہی سنانا پڑتے ہیں"۔
امڑی حضور کو ان کے دلنواز و محبوب فرزند کے سانحہ ارتحال کی تعزیت پیش کرچکا تو ایسا لگا ماں کہہ رہی ہے "میرے لعل مائوں کی تربت پر بھی اولاد کا سفر تمام ہونے کی خبر نہیں سناتے"۔
چند ساعتوں کے وقفے سے امڑی بولیں، اب تساہل اور لاپروائی سے جان چھڑاکر بہن بھائیوں سے رابطہ میں رہا کرو۔ جی چاہا کہ عرض کروں صحت کے مسائل ہیں کچھ مشکلات ورنہ جی یہی چاہتاہے کہ سفر حیات کے جتنے شب و روز باقی ہیں وہ امڑی کے شہر میں بسر ہوں یہ بھی عرض کرنا چاہتا تھا کہ سفر حیات تمام ہو تو امڑی آپکے قدموں میں ابدی نیند سونے کی سعادت کا طلبگار ہوں۔
دونوں باتیں کہہ نہیں پایا۔ یہ ضرور کہا، مادر گرامی چند ماہ کے وقفے سے دو بھائی رخصت ہوئے جس کی وجہ سے زندگی دکھ سے بھر گئی ہے۔
امڑی کی آواز کانوں میں پڑی کہہ رہی تھیں، تم اب ویسا بننے کی کوشش کرو جیسا تمہارے بھیا ابو چاہتے تھے۔ مادر گرامی کی تربت سے رخصت کی اجازت طلب کی سوا دو عشروں میں پہلا موقع تھا جب مادر گرامی نے کہا "جاوید پھر کب آئو گے ماں کے پاس؟
امڑی کی تربت پر بیٹھا بیٹا زاروقطار رونے لگا۔ بڑی مشکل سے عرض کیا آپ کی تربت اور اس شہر سے بچھڑنے کا ہمیشہ دکھ ہوتا ہے امڑی پتہ نہیں مجھے ملتان سے رخصت ہوتے ہوئے ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں اپنا ہی جنازہ کاندھوں پر اٹھائے رخصت ہورہا ہوں۔