افغان عبوری حکومت کی منافقانہ پالیسی
کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا اس کے آغاز اور پھر چند ابتدائی وارداتوں کے بعد ان سطور میں عرض کیا تھا کہ افغان عبوری حکومت کے ذمہ داران کھلی منافقت کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ اپنی حدود سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں نہ صرف معاونت کرتے ہیں بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی کو ضروری وسائل بھی فراہم کررہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے دور حکومت میں جب افغان عبوری حکومت کی خواہش پر کابل میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا عمل شروع ہوا تو پھر ان سطور میں عرض کیا کہ مذاکرات سے پاکستان کچھ بھی حاصل نہیں کرپائے گا البتہ ٹی ٹی پی اپنی حیثیت سے زیادہ حاصل کرلے گی۔
یہی ہوا، ٹی پی نے نہ صرف اپنے 103 اہم افراد صدارتی حکم پر رہا کروالئے بلکہ منظم ہونے کے لئے وقت بھی حاصل کرلیا۔ انہی دنوں مزید عرض کیا تھا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے خون بہا کی مد میں طلب کی گئی سات ارب روپے کی رقم میں سے کچھ رقم (ایک اطلاع کے مطابق ایک سے ڈیڑھ ارب روپے جبکہ بعض ذرائع تین ارب کی رقم بتا رہے تھے) کی ادائیگی کے حوالے سے جو خبریں گردش کررہی ہیں ان پر خاموشی خبر کے درست ہونے کی تصدیق ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کسی تاخیر کے بغیر وضاحت کریں۔
ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات کے لئے پرجوش پی ٹی آئی کے وفاقی و صوبائی حکومتوں (خیبر پختونخوا) کے ذمہ داروں میں سے اکثر کا خاندانی پس منظر جہادی تنظیموں سے تعلقات اور افغان جہاد میں ان میں سے بیشتر کے خاندانوں کے افراد کی شرکت سے عبارت ہے۔
اس پر ستم یہ کہ اُس دور میں سوات اور ملحقہ علاقوں میں آنے والے ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں نے دوٹوک انداز میں بعض شخصیات کے نام لئے کہ ہم ان کی رضامندی اور سمجھوتے کا عندیہ دیئے جانے پر آئے ہیں۔ اس ویڈیو بیان کے بعد اس وقت کی صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا تھا "طالبان نہیں آئے بلکہ ایک جنگجو کمانڈر اپنی بیمار ہمشیرہ کی مزاج پرسی کے لئے آبائی علاقے میں آیا ہے"۔
ان جنگجوئوں کی آمد کے بعد ہونے والے بعض واقعات (ان میں خودکش حملے، بم دھماکے اور سرکاری اہلکاروں کے اغوا کے واقعات شامل ہیں) کے بعد سوات اور ملحقہ علاقوں میں جب عوامی ردعمل سامنے آیا تو کابل مذاکرات کرنے والی حکومت کے بعض ذمہ داران بھی احتجاج کا حصہ بن گئے۔
اسی دوران کوچہ رسالدار پشاور کی شیعہ مسجد سمیت بعض افسوسناک واقعات میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی خبروں کی بے ہنگم انداز میں پردہ پوشی کی گئی۔
گزشتہ تین برسوں سے بالعموم اور ڈیڑھ برس سے بالخصوص خیبر پختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد سامنے آئے صرف یہی نہیں بلکہ ان وارداتوں میں ایسے جدید اسلحے کے استعمال کی بھی نشاندہی ہوئی جو امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑ کر گئیں۔
یہ امر بھی دوچند ہے کہ پاراچنار پر جنگجوئوں کے حالیہ آخری حملے میں افغان شہریوں کی شرکت کے ٹھوس شواہد ملے ان جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے بعض جنگجوئوں کی شہری دستاویزات سے تصدیق ہوئی کہ مرنے والے افغان شہری ہی نہیں بلکہ نیم فوجی تنظیموں کے اہلکار بھی تھے۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ پچھلے دو اڑھائی برسوں کے دوران پاک افغان سرحد پر خاردار تاروں کو کاٹ کر دراندازی کرنے والوں کو افغان عبوری حکومت کے علاقائی ذمہ داروں کی سرپرستی حاصل تھی اس عرصے میں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو وائرل ہوئیں جن میں افغان عبوری حکومت کے بعض ذمہ داران اٹک تک کے علاقے پر افغانستان کے دعوے کو دہرارہے ہیں۔
ایک ویڈیو میں صاف صاف انداز میں پیغام تھا کہ ٹی ٹی پی کی جدوجہد افغان طالبان کی طرز پر انقلاب اسلامی کے لئے ہے۔ تبھی ہم نے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ "چونکہ کالعدم ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی کے علاوہ جنداللہ کے جنگجوئوں نے افغان طالبان کے امیرالمومنین کی بیعت کر رکھی ہے اور اس بیعت کی بدولت ہی ان تنظیموں کے ارکان افغان طالبان کی جدوجہد میں عملی طور پر شریک رہے ہیں اس لئے افغان عبوری حکومت شرعی ذمہ داری سمجھتی ہے کہ اپنے اتحادیوں کو تعاون اور وسائل فراہم کرے"۔
ہم آگے بڑھتے ہیں پچھلے ایک برس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئی دہشت گردی کی وارداتوں میں زیادہ تر افغان شہری ملوث تھے۔ ٹھوس شواہد دستیاب ہونے کے باوجود صورتحال سے صرف نظر کیوں کیا گیا یہ اہم سوال ہے۔
اب ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، اس رپورٹ کے مطابق 28 فروری کو شمالی وزیرستان میں مارے گئے کالعدم ٹی ٹی پی کے 8 دہشت گردوں کا تعلق افغانستان سے تھا۔ رپورٹ میں افغان شہریوں کی شناخت کی تصدیق بھی شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوئی راز ہائے درون سینہ ہے کہ افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ صوبوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جہادی بھرتی کے دفاتر کھلے ہوئے ہیں۔
کیا ہمارے ذمہ داران اس امر سے لاعلم ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افواج نے انخلا کے وقت جو جدید اسلحہ و گولہ بارود اور آلات افغانستان میں چھوڑے تھے وہ اسلحہ کی فرخت کے لئے افغانستان میں قائم کھلی منڈیوں میں عام دستیاب ہیں؟
اس بدترین صورتحال کی نشاندہی خود اقوام متحدہ نے ایک سے زائد بار اپنی رپورٹ میں کی۔ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ افغان طالبان کے دونوں گروپوں، حقانی گروپ اور قندھاری گروپ کے بڑوں کے جس بیان نے دو تین روز قبل ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ حاصل کی کہ "افغان عبوری حکومت کا حصہ افغان طالبان کے دونوں گروپوں کو ٹی ٹی پی کی افغان حدود میں سرگرمیوں پر تشویش ہے"۔
یہ بیان صرف ڈھکوسلہ ہی نہیں کھلی منافقت سے بھی عبارت ہے۔ کیا افغان عبوری حکومت، کنڑ، خوست، قندھار، جلال آباد، پکتیکا، لوگر، گردیز اور ہلمند وغیرہ میں کالعدم ٹی ٹی پی کے جہادی بھرتی کے لئے قائم دفاتر سے یکسر لاعلم ہے یا حسب عادت پاکستان کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے؟
صاف سیدھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کسی واردات یا آپریشن میں پہلی بار افغان شہری نہیں مارے گئے۔ کوچہ رسالدار پشاور کی مسجد، پارا چنار پر حالیہ عرصے میں ہوئے دو حملوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوں خصوصاً ٹانک پولیس لائن پر ہوئے حملے سمیت درجن بھر سے زائد وارداتوں میں ٹی ٹی پی کے افغان جنگجوئوں کے ملوث ہونے سے صرف نظر ممکن نہیں۔
افغان عبوری حکومت کیسے حالیہ تحقیقات میں ملے شواہد سے پیشگی آگاہ ہوئی کہ رپورٹ منظرعام پر آنے سے دو تین دن قبل اہتمام کے ساتھ ذرائع ابلاغ تک یہ بیان پہنچایا گیا کہ "افغان طالبان کے دونوں دھڑوں قندھاری گروپ اور حقانی گروپ کو ٹی ٹی پی کی افغان حدود میں سرگرمیوں پر تشویش ہے"۔
قصہ اصل یہ ہے کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت روز اول سے دوحا معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی میں مصروف ہے۔ ہمیں اس مرحلہ پر امریکیوں کا یہ سرکاری موقف نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑا گیا اسلحہ وغیرہ افغان طالبان کی تحویل میں دیا گیا تھا۔
معاملہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ سوال اہم ہے کہ جو اسلحہ افغان طالبان کی تحویل (بقول امریکی حکام) میں دیا گیا تھا وہ اسلحہ کھلی منڈیوں میں فروخت کیلئے کیسے پہنچا؟ نیز یہ کہ کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ نے جو جدید اسلحہ اور آلات خریدے اس کے لئے وسائل کہاں سے آئے؟
بہر طور اب جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ٹی ٹی پی کے افغان جنگجوئوں کی شرکت کی شناخت کے بعد تصدیق کردی گئی ہے تو بھولے بادشاہ بننے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان عبوری حکومت سے دوٹوک انداز میں بات کی جائے۔
کالم کی آخری سطور میں باردیگر یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ دوحا معاہدہ کے برعکس افغان طالبان کو کابل کا قبضہ دلانے میں اعانت کرنے والے پاکستانی عوام کے مجرم ہیں۔ دوحا معاہدہ پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو عین ممکن ہے کہ پاکستان کو سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن کیا کیجئے بعض شخصیات میں ہیرو بننے اور امریکہ کو نیچا دکھانے کے بدرجہ اتم موجود "شوق" نے مسائل پیدا کئے۔ اور اب ان مسائل کو اہلِ پاکستان بھگت رہے ہیں۔