وطن کی مٹی گواہ رہنا
کئی برس ہوئے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور ڈاکو راج جیسی بلاؤں کی وجہ سے پاکستان میں زندگی کی اہمیت کم ہوگئی تھی۔ ہمیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں سے اسقدر لگاؤ ہو گیا کہ جب تک کسی بھی قومی دن آنکھیں اشکبار نہ ہوتیں گویا فرض ادھورا رہ جاتا۔ شہید سے محبت ہوتی ہی ایسی ہے شاید۔ یا شاید پاکستان میں شہادت کی موت ایک ا یسی جنگ کی وجہ سے گلے لگانی پڑی جس میں ملک کے لوگوں اور سیاسی مجبوریوں کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ حکمرانوں کی کوتاہ فہمی اور کج روی نے اس دلدل کو اتنا گہرا کر دیا کہ اسے ختم کرنے کے لیے بھی اس میں اترنا پڑا۔
اس سال چھ ستمبر کی جی ایچ کیو میں منعقد ہ تقریب میں بھی شہداء پاکستان کو یاد کیا گیا۔ لیکن غازیوں کے لبوں سے پاکستان کی بہادری اور ہمت کی کہانی نے تقریب میں ایک عجیب کیفیت پیدا کردی، جیسے سیاہ بادل اور بارش کے بعد بننے والی قوس قز ح۔ 1948 سے آج تک جب بھی کوئی مارکہ ہوا چاہے وہ غلط حکمت عملی سے پیش آیا ہو پاکستانیوں ن اپنے ملک کا بھر پور دفاع کیا۔ پاکستان کی کامیابی کی کہانی دراصل اس کے شہریوں کے شعور کی کہانی ہے۔ اگر دنیا کے بنائے ہوئے معیار پر پرکھا جائے تو کہنے کو ہمارے یہاں تعلیم کی کمی ہے لیکن شعوری سطح پرپاکستان کے لوگ کئی ملکوں سے آگے ہیں۔ اگر کمی ہے تو اپنے حقوق حاصل کرنے کی جرأت کی۔ ابھی تو ہم ووٹ کے نام پر اپنے امید واروں کوپر لطف زندگی دے رہے ہیں۔ ابھی ہم میں اتنا شعور نہیں کہ ان رہنماؤ ںکو انکی ذمہ داریوں کا احساس دلا سکیں جس کیلئے ضروری ہے کہ انہیں بغیر کارکردگی کے مقدس ایوان میں بیٹھنے کی ایک منٹ بھی اجازت نہ ہو۔ ابھی ہمیں ووٹ پر اپنا حق جتانے کی اجازت نہیں۔ ابھی شعور کی یہ سطح ہم سے دور ہے لیکن ایک دن ضرور غلامانہ ذہن سے پاک پارلیمانی نظام تشکیل دینے کی روایت قائم ہو گی۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر نے بھی کچھ اسی طرف توجہ دلائی۔ تقریر میں دو اہم باتیں کی گئیں۔ ایک یہ کہ پاکستان میں کسی بھی تنظیم یا فرد کو مذہب، زبان یا فرقے کی آڑمیں طاقت یا اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کو اب موسمی تبدیلیوں، آبادی میں کمی، انفرا سٹرکچر میں ترقی، غربت کے خاتمے اور تعلیم کے فروغ جیسے معاملات پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بظاہر ا لگ نظر آنے والے یہ دو نکات دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جنگ میں دو محا ذوں پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ایک تو بزور طاقت دہشت گردوں کو کچلنا اور دوسرا نظریاتی سطح پر ذہن سازی تاکہ وہ عناصر جو اسلام کے نفا ذ کوذاتیذمہ داری سمجھتے ہیں انہیں اس مغالطے سے نکالاجائے۔
پچھلی چار دہائیوں میں جب سے مذہب کی بنیاد پر افغانستان میں جنگ کا آغاز ہوا اور اس وقت کی سپر پاور روس کو شکست ہوئی، فلسفہ جہاد نے ایک عام پاکستانی کے دل و دماغ پر بہت گہرے اثرات چھوڑے۔ قومی بیانیے کی عدم موجودگی نے ان اثرات کو مہمیز دی۔ سوات سے کراچی تک جس کا جیسے دل چاہتا مذہب کی تشریح کرتا اور اس سے ا اخذ نتائج کو لاگو کر دیتا۔ اس بہتی گنگا میں سیاسی مصلحت پسندوں نے بھی ہاتھ دھوئے۔ سوات میں ملا فضل اللہ نے شریعت محمدی کے نام پر لوگوں کا استحصال کرنے پر کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ سر عام پھانسی تو سوات میں عام بات تھی۔ بے حسی کہہ لیں یا بیرونی مصلحت یہ بھی کہا گیا کہ کراچی جیسے شہر میں ایک دن میں 24 لوگوں کا مر جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ پھر آرمی پبلک اسکول کے ہولناک سانحہ نے سب کچھ تبدیل کر دیااور پاکستا نی افواج، پولیس اور عسکری و سو یلین اداروں نے دہشت گردی کے واقعات سے نہ صرف پاکستان کو محفوظ کیا بلکہ اس کلین اپ میں کئے آفیسرز اورسپاہیوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ آرمی پبلک اسکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جس پر عمل کرتے ہوئے فوج اور حکومت نے مل کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنا تھا۔
Pakistan Institute for Peace Studies اورFriedrich Ebert Stiftun کے تعاون سے"Strengthening Governance in Pakistan: Assessing the National Action Plan to Counter Terrorism and Extremism" کے موضوع پر 2021 کی رپور ٹ شائع ہوئی ہے. رپورٹ کے مطابق فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو اہداف اپنے لیے اختیار کیے تھے انہیں مکمل کر چکی ہے لیکن سیاسی حکومتیں ابھی بھی انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے راستہ کا تعین ہی کر رہی ہیں۔ 2018 میں نیکٹا جس کے ذمے نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کی ذمہ داری ہے نے ایک ر پورٹNational Counter Extremism Policy Guideline کے نام سے تیار کی۔ اس کا مقصد بھی ہو بہو وہ ہی تھا جو کہ نیشنل ایکشن پلان کا تھا۔ ان دونوں مسودات سے پہلے2008 میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 3D-Strategy کے نام سے پالیسی پیش کی جس کے تین بنیادی نکات تھے: Deterrence، Development، Dialogue (مدافعت، ترقی اور مباحثہ). ہمارے علم میں نہیں کہ اس سمت کوئی بھی کام ہوا یا نہیں۔
PIPS کی رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بنائی جانے والی 14 کمیٹیوں میں سے صرف دو فعال ہیں۔ اسی طرح ایک مسودہ پیغام پاکستان کے نام سے بھی موجود ہے۔ ایک دختر پاکستان نامی پلان بھی بنا تھا۔ ان تمام پالیسیوں یا گا ئیڈ لائنز کے اہداف، قانون کا نفاذ، تعلیمی نصاب کی اصلاحات، نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں حصے دار بنانا، میڈیا اینگیجمینٹ اور فوج داری قانون اور پولیس کو ضروری اصلا حات کے ذریعے مضبوط بنانا تھا۔ اس ضمن میں کوئی دیر پا یا ٹھوس کام سامنے نہیں آیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست دان انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے بھی فوج ہی کی پیش قدمی کے منتظر ہیں۔