مولانا
جنوری کا مہینہ آتاہے تو مولاناکی سدا بہار یاد ازسرنو رنگ پکڑتی ہے۔ جوں جوں جنوری کی بیس تاریخ قریب آتی ہے مولاناکے کردار کا نقش تازہ ترہوتاچلاجاتاہے۔ سینتیس برس پہلے ایسی ہی سردی تھی جب ان کی زندگی کا چراغ سردہو گیاتھا۔ ان کے جنازے کے جلوس میں چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دیے گئے تھے پھربھی انھیں اپنے دوش محبت پر سوارکرکے رخصت کرنے والوں کا شوق پورانہیں ہوپارہاتھا۔ اعلانچی شرکاکو منظم رہنے کی ہدایات دینے کے ساتھ باربارغالنب کا شعرپڑھتاتھا?"داغ ِفراق صحبت ِشب کی جلی ہوئی ?اک شمع رہ گئی تھی سووہ بھی خموش ہے"شمع خاموش ہوگئی لیکن اس کے جلائے ہوئے محبت کے چراغ سینوں میں روشن رہے۔ سینتیس برسوں کے شب و روز بھی ان چراغوں کی لوکومدھم نہیں کرسکے۔ وہ عربی، فارسی، اردوکے ایک جیدعالم تھے۔ انھوں نے ۱۹۵۵ء میں اردوفارسی کالج قائم کرکے نئی نسلوں کو اپنے اس تیزی سے فراموش ہوتے ورثے سے روشناس کروایاتھا۔
وہ "بہترین تعلیمی صلاحیتوں اور مثالی اساتذہ کے ذریعے نوجوان نسل کی تربیت "کرناچاہتے تھے، علوم وادبیات شرقیہ کا ذوق خودان کی شخصیت کے عناصرترکیبی کی حیثیت رکھتاتھا۔ دینی علوم تو ان کا وڑھنابچھوناتھے ہی، اردواورفارسی کے بے شماراشعار بھی نوک زبان رہتے تھے جنھیں وہ برمحل استعمال کرنے کے فن سے آشناتھے۔ وہ نئی نسلوں میں بھی علوم وادبیات مشرق کی جوت جگانے کے خواہش مندتھے۔ ان کے فیض یافتگان میں بڑے بڑے لوگ شامل رہے۔ ڈاکٹرصدیق خان شبلی، اقبال فیروز، ڈاکٹرمسکین علی حجازی، حسن رضاپاشا جیسے نام ور اساتذہ نے ان کے خوان ِعلم سے استفادہ کیاتھا۔ پروفیسرنظیرصدیقی مرحوم بھی ان کے نیازمندوں میں تھے۔ اردوفارسی کالج سے بہت سے وکلااورسی ایس پی پیداہوئے۔ طبقہء علمامیں بھی ان کے تلامذہ کی تعدادکم نہیں۔ تعلیم وتعلم سے ان کی لگن کا اظہار اردوفارسی کالج ہی سے نہیں طارق مسلم ہائی اسکول اور بنات الاسلام ہائی اسکول کے قیام کی صورت میں بھی ہوا۔ طالب علموں سے انھیں دلی لگائوتھا، ان کی تربیت کے لیے کوشاں رہتے، جوطالب علم فیس نہیں دے سکتے تھے وہ بغیرفیس کے پڑھتے اور جو اپنی ملازمتوں کے باعث حاضر بھی نہیں ہوسکتے تھے ان کے لیے اتوارکو مسجدمحمود کے دامن میں مجانی خوان علم پھیلا دیا جاتا۔ انھوں وسائل سے محرومی کے باوصف محض جذبے کے زورپر مارچ ۱۹۶۴ء میں ایک ہفت روزے کا آغازکیاجس کی پیشانی ظفرعلی خان کے اس شعرسے روشن تھی ؎
گرارض و سماکی محفل میں لولاک لماکاشور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہوگلزاروں میں یہ نورنہ ہوسیاروں میں
وہ اپنے اس جگرگوشے، کو حالات کی نامساعدت کے باوصف بیس برس تک خون جگر پلاتے رہے جس کے نتیجے میں وہ ان کی زندگی کی آخری سانسوں تک زندہ رہا۔ وہ لوگ جو زندگی میں منزل کے اعتبار سے کسی ایقان کے حامل نہیں ہوتے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو استعمال توکرلیتے ہیں لیکن ان کے ذریعے کسی مفید اور ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے بخلاف اس کے وہ لوگ جو کسی ٹھوس مقصد کواپنامطمح نظربناتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ذاتی اعتبار سے مطمئن زندگی گزارتے ہیں بلکہ ان کی زندگیاں لوح جہاں پر کوئی واضح اور دیرپا نقش بھی چھوڑ جاتی ہیں۔
مولاناتاج محمود کی سوچ ان کے کردار کی آئینہ دار اور ان کا کردار ان کے افکار کا پرتورہا۔ فکروکردار کے باب میں اگر مولانا کی سوچوں کا تجزیہ کیاجائے توان کی سوچ کااظہار ارتکاز میں ہواتھا۔ سوچ کااظہار جب ارتکاز میں ہوتاہے تو اس کے نتائج کے ٹھوس ہونے کی بابت بہ آسانی دعویٰ کیاجاسکتاہے یہی حال مولاناکاہے۔ زندگی کے معمولی معاملات سے لے کر مہمات امور تک یکساں توجہ دینا ایک بہت بڑا وصف ہے جو آج کل ختم نہیں ہوا تو نایاب ضرور ہوگیاہے۔ مولانا تاج محمود میں یہ وصف بدرجہ اتم موجود تھا۔ وہ انفرادی، اجتماعی اور سماجی ہر سطح پر ایک مکمل شخصیت کے مالک تھے۔ احباب، اعزہ، ساتھی، عقیدت مند، شاگرد اور دوست یہ سب لوگ ان کی قربت کو شجر سایہ دار کی طرح تصور کرتے اور ان کے فکروکردار سے کارگہ حیات میں اپنی مسافرت کے لیے روشنی پاتے تھے۔ انسانی عظمتوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے شخصیات کے طرزفکرکو اپنانے کی ضرورت پر زور دیاجاتاہے، خراج تحسین پیش کرنے کے اس معروف طریقے کے علاوہ اپنی پسندیدہ شخصیات کو یادرکھنے کاایک اور عمدہ ذریعہ یہ بھی ہے کہ وہ شخصی خصائص اور خوبیاں جوان کی زندگی میں نمایاں رہی ہوں انھیں اپناکرانسان دوستی پر مبنی رویوں کوفروغ دیاجائے تاکہ زندگی ان مصنوعی غلافوں کی قید سے آزاد ہوسکے جو ہمارے اردگرد عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑے لوگوں کی عظمتوں کے بیان کے لیے صف اول اور صف دوم وغیرہ کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں یہاں اس سے بحث نہیں کہ کون صف اول کا راہنما ہے اور کون دوسری صف کا بلکہ یہ کہنا مقصود ہے کہ انسانی عظمت اپنے اظہار کے لیے صف اول یادوم کی پابند ہوتی ہے نہ اس کے لیے شہرت کاحصول ضروری ہوتاہے بلکہ اس کا ظہور ایک عام شہری میں بھی بکمال و تمام ہوسکتاہے۔
مرحوم شورش کاشمیری نے ان کا چہرہ لکھاتوانھیں جدوجہدآزادی کے قافلے کی دوسری صف میں صف اول کا راہ نماقراردیا۔ بہ قول شورش ان کا"قددرازطبیعت گداز، مزاج میں سوزوساز، شوق میں پروازاور سیرت میں اعجازتھا۔ وہ "دل کے غنی، زبان کے دھنی" اور ان کی بات "نیزے کی انی"تھی ? "بے عیب اللہ کی ذات ہے لیکن کوئی سی معصیت بھی ان کے خیال کو چھوکرنہیں نکلی۔ ایک اجلااور صاف ستھراانسان جوشایددھوکہ کھاسکتاہے لیکن دھوکہ دے نہیں سکتا?ضروری نہیں کہ ہر شخص، ہرشخص سے متفق ہو یاہرانسان کو ہر خیال سے اتفاق ہو، مولاناتاج محمودکے خیالات سے اختلاف ہوسکتاہے اورلوگوں میں اس قسم کے اختلافات ہمیشہ ہی رہے ہیں، پیغمبروں کی دنیابھی اس سے خالی نہیں رہی۔ تاج محمودتوبہ ہر حال ایک انسان ہے اس سے بھی لوگوں کو اختلاف ہے اور رہے گالیکن یہ شہادت کہ وہ ایماندارہے، مخلص ہے، صاحب عزم ہے اور ناقابل خریدہے ایک ایسااعزازہے جو اس دنیامیں معاصرت کے دربار سے شایدہی کسی کو ملتاہے"۔