1.  Home/
  2. Dr. Zahid Munir Amir/
  3. Kyun Dekhen Zindagi Ko Kisi Ki Nazar Se Hum

Kyun Dekhen Zindagi Ko Kisi Ki Nazar Se Hum

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

(گزشتہ سے پیوستہ)ڈاکٹرخورشیدرضوی صاحب کی ایک نظم ہے جس میں شاعرنے کہاہے کہ جس روز اس دنیا سے رخصت ہوناہے وہ دن تو ہرسال آتاہے کیلنڈرمیں موجودہے وہ دن بھی اور وہ مہینہ بھی لیکن ہمیں معلوم نہیں ہے کہ وہ دن کونساہے؟ اگرپتہ چل جائے تو میں کیلنڈر پر اس تاریخ کے گرددائرہ لگادوں اور جب وہ دن آیاکرے تو میں آنسوئوں کے دیپ جلاکراس دن کو منالیاکروں …تو دن تو موجودہیں لیکن آپ کی دسترس میں نہیں ہیں۔ آپ کی دسترس میں صرف آج ہی کا دن ہے … یہ لمحہ جو اس وقت ہے یہی ہمارے قابو میں ہے۔ یہی ہماری زندگی ہے، یہی ہماری قوت ہے، یہی ہمارا مستقبل ہے، اسی میں مستقبل چھپا ہوا ہے۔ تو آج کا جو لمحہ ہے وہ بیج کی طرح ہے، بیج میں درخت دکھائی نہیں دیتا۔ آپ نے کبھی برگد کے درخت کا بیج دیکھا…؟ رائی کے دانے جتنا ہوتا ہے، برگد کادرخت کتنا بڑاہوتا ہے کہاں سے نکلتا ہے اس ایک چھوٹے سے بیج میں سے نکلتا ہے۔ رائی کے دانے کے برابروجودمیں سے… یہ سابودانے کاایک ذرّہ جتنا ہوتا ہے، اتنا وہ ایک دانہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر برگد کاپورا درخت چھپا ہوتاہے۔ پہلے کونپل، پھر پودا، پھر درخت پھر اتنا بڑا درخت۔ آپ چاہیں کہ اس بیج میں سے وہ درخت نظرآجائے تو قبل ازوقت نظرنہیں آئے گا لیکن اس میں موجودتوہے۔ چھپا ہوا ہے اس کے اندر۔ تو آج کا جو یہ لمحہ ہے اس کے اندر سارا مستقبل چھپا ہوا ہے لیکن نظر نہیں آرہا ہے ؎

ایک پل بھی کبھی صدیوں میں بسر ہوتا ہے 

ایک دانے میں بھی امکانِ شجر ہوتا ہے

 اس درخت کی طرح جو اپنے بیج کے اندر ہے۔ وہ بیج، یہ لمحہ ہے …تو اس لمحے کی شناخت، اس لمحے کی دریافت، اس لمحے کی تسخیر، یہ ہمارا کام ہے تو اب ہمیں دیکھناہے کہ زمانہ کہاں پہنچ گیاہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں …کہیں ایساتونہیں ہے کہ…

یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا

ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے

ہم بس محکوموں کی طرح روتے رہے وہ جو اقبال نے کہاتھا کہ "آزادکی دولت دل ِروشن، نفسِ گرم +محکوم کاسرمایہ فقط دیدئہ نم ناک "۔ ہمارے بزرگ ایسے تھے، ویسے تھے، ہماراماضی ایسا تھا، ویسا تھا، دنیا کہیں سے کہیں چلی گئی۔ آپ کیوں وہاں سے اٹھ کر یہاں آئے…؟ پاکستان چھوڑ کر یہاں آئے یعنی مقناطیس کدھر تھا جہاں مقناطیس ہو ذرّے وہاں جاتے ہیں۔ مقناطیس یہاں تھا نا؟ تو اس نے ذرّوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ کبھی مقناطیس آپ کے پاس تھا، آپ تہذیب و تمدن کا، علوم کا، اقتدارکامرکزتھے تو ذرّے اس طرف آتے تھے تو اب یہ مقناطیس شفٹ کیوں ہوگیا؟ پہلے آپ مقناطیس تھے اور ساری دنیا ذرّوں کی طرح کھنچ کر آپ کے پاس آتی تھی اور آپ جانتے ہی ہیں کہ آج مقناطیس یورپ کے پاس ہے۔ سارے ذرّے کھنچ کھنچ کرادھر آرہے ہیں۔ پیراڈائم شفٹ ہوگیاہے، صورتِ حال تبدیل ہوگئی ہے…… کیوں ہوئی؟ اتنی بڑی تبدیلی کیوں آئی؟ کیسے آئی تو یہ غورکرنے کی ضرورت ہے، سمجھنے کی ضرورت ہے اس کے پیچھے تین چیزیں ہیں۔

اگر آپ تجزیہ کریں تو تین باتیں ہیں جنہوں نے مقناطیس کو وہاں سے یہاں منتقل کردیا ہے جو دنیا ادھر جارہی تھی ادھر آنے لگ گئی 

ہے۔ ایک سبب ہے غلامی۔ غلامی نے صورتِ حال کو تبدیل کیاہے……

تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

جب غلامی آتی ہے تو ضمیر ہی بدل جاتا ہے۔ قوموں کے معیارہی بدل جاتے ہیں۔ اچھائیاں برائیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں، سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے، بلند، پست اور پست، بلند ہوجاتے ہیں ……

کیسے کیسے، ایسے ویسے ہو گئے

ایسے ویسے، کیسے کیسے ہو گئے

توکیسے کیسے جو ہیں وہ ایسے ویسے ہو جاتے ہیں اور ایسے ویسے، کیسے کیسے ہو جاتے ہیں۔ یہ غلامی کانتیجہ نکلتا ہے تو پہلا سبب ہے غلامی۔

دوسرا سبب ہے، اندھی پیروی کہ آپ خود چیزوں کو نہ دیکھیں اور کسی کے کہنے پر چل پڑیں۔ کسی نے کہا ادھر چلو، ادھر چل پڑے۔ آگے جاکر دیکھا کہ راستہ بندہے۔ کسی نے کہا کہ ادھر چلے جائوادھر چلے گئے۔ آگے دیکھا پھر راستہ بندہے۔ اتنے میں وقت بیت گیا، توانائی صرف ہو گئی بلکہ ضائع ہوگئی، آپ کے پاس توانائیوں کا جو خزانہ ہے وہ غیرمختتم نہیں ہے۔ یہ تو ایک اکائونٹ ہے، آپ کے بنک میں۔ جتنا بچا بچا کے خرچ کریں گے، اتنا زیادہ چل جائے گا۔ جتنا فیاضانہ خرچ کریں گے اتنا جلدی ختم ہوجائے گا۔ تو توانائی ختم ہوجائے گی۔ آپ کے پاس وقت کا خزانہ ختم ہوجائے گا۔

آپ خود google کرلیں، خود راستہ تلاش کرلیں، خود چیزوں کو تحقیق کر لیں، سمجھ لیں اور پھر چلیں تو آپ منزل تک جلدی پہنچ جائیں گے اور اس میں بھٹکنے کے امکانات بھی کم رہیں گے۔ کسی ایسے بتائے ہوئے رہنما کے پیچھے چلیں گے جس کو خود بھی راستہ پتا نہ ہو جو خود بھی ظن وتخمین پر، وہم و قیاس پر چل رہا ہو تو بھٹک جائیں گے…وہ فارسی میں کہتے ہیں کہ "او خویشتن گم است کرارہبری کند"وہ جو خود ہی بھٹکا ہوا ہو، دوسروں کو کیا راستہ دکھائے گا؟ تقلید محض جو ہے اس نے مسلمانوں کو خراب کیا ہے، مسلمانوں کے پاس تو اجتہاد کا تصور ہے۔ اجتہاد جو ہے وہ حرکت ہے، وہ زندگی ہے اس لیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں تبدیل ہوتی ہیں ان کے مطابق آپ کو نئی تعبیرکی ضرورت ہوتی ہے، نئی تفہیم کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے اقبال نے کہا کہ زمانۂ انحطاط میں اجتہاد بھی نہ کریں، ایسے میں تقلید، اجتہادسے بہتر ہے کیونکہ غلاموں کا جو اجتہاد ہوتا ہے اس کے اندرحریت نہیں ہوتی، ان کے دل و دماغ بند ہوتے ہیں، جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور وہ بالاتر طاقتوں سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے غلامی کااجتہاد خطرناک ہوتاہے۔ آزادانہ فکر کے ساتھ اجتہاد کیا جائے۔

تیسری چیز جس نے یہ پیراڈائم شفٹ کیا ہے وہ ہے تخلیقیت کا فقدان، تخلیق کا فقدان، تخلیقیت کافقدان کہ ہم نے چیزوں کودریافت نہیں کیا۔ زندگی کو discover نہیں کیا۔ تحقیق نہیں کی، تخلیق کی نگاہ سے ہم نے چیزوں کو نہیں دیکھا۔ اپنی نظر سے اگر چیزوں کو دیکھیں تو ان کامنظر اورہوتاہے۔ کسی کے بتائے ہوئے رستے پرچلیں تو نتیجہ اور ہوتا ہے۔ آپ کسی سے پوچھیں کہ سیب کیسا ہوتا ہے؟ آپ نے نہیں دیکھا وہ آپ کو بتائے گا کہ گول ہوتا ہے، ایسا رنگ ہوتا ہے اس کااور اس کے اوپر ایک شاخ ہوتی ہے پتے ہوتے ہیں آپ بازار جائیں گے ماڈل دیکھیں گے تو آپ سنگترا لے آئیں گے، مالٹالے آئیں گے، ہوسکتا ہے نا کیوں کہ آپ نے خود تو دیکھانہیں ہے۔ جب آپ نے اپنی نگاہوں سے چیزوں کو دیکھا ہوگااپنی رائے سے چیزوں کو دیکھاہوگا تو نتیجہ مختلف ہوگا۔

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم 

یہ ساحرلدھیانوی کاشعر ہے۔ توہمیں زندگی کواپنی نظر سے دیکھنا ہے۔ دوسروں کے بتائے ہوئے راستوں کی بجائے ہمیں خود زندگی کو اپنی نگاہوں سے دیکھنا ہے اور ہمیں تخلیقیت کی راہ پرچلنا ہے۔ اگر ہم تخلیقی نہیں ہیں تو انجام موت ہے۔ اس لیے کہ جہاں تخلیقیت نہیں ہے، وہاں جمود ہے۔ جہاں تخلیقیت ہے وہاں تحرک ہے۔ تخلیقی سوچ پیدا کرنا، تخلیقیت کے راستے پر گامزن ہونا۔ جوتخلیقی سوچ رکھتا ہے وہی آگے بڑھتا ہے۔ جو لگے بندھے ڈھرے پر چلتا ہے، وہ وہی کرتاہے جو اس کے آباواجدادکیاکرتے تھے۔ ایسے لوگوں کاتخیل بہ قول اقبال عشق و مستی کا جنازہ نکال دیتاہے اور ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار دکھائی دیتے ہیں …وہ تخیل جو آپ کو زندگی عطاکرتاہے، بلندتخیل ہے۔ یہی آپ کو وجدان عطاکرتاہے آپ کے وجدان کی تربیت کرتاہے اور تربیت یافتہ وجدان مل جائے توآپ پر حقیقت منکشف ہونے لگتی ہے آپ اسے الہام کہیں یا کچھ اور…لیکن اس کے ساتھ حریت ضروری ہے، اگرحریت نہیں ہوگی تو دل پراترنے والا خیال محکومانہ ہوگا اور قوموں کوغارت کرنے والاہوگا …

Check Also

Danda Peer Aye Shuf Shuf

By Zafar Iqbal Wattoo