ریاستِ مدینہ کے معالم اور جدید عالمی ترکیب

عالمی سطح پر اثرورسوخ اور ساکھ کی پیمائش جب "The Muslim 500" جیسی فہرستوں کے آئینے میں سامنے آتی ہے تو ہمیں محض افراد کی فہرست نہیں ملتی، بلکہ عالمی سیاست، خارجہ پالیسی، معاشی روابط اور مادی و معنوی طاقت کے انٹرفیس کا نقشہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس سال اردن کے رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر کی جانب سے جاری کی گئی فہرست نے جہاں روایتی علما اور حکمرانوں کی اجارہ داری کو دہرایا ہے، وہیں نئے عروج اور جغرافیائی تبدیلیوں کے ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔
فہرست کے اوّلین مقامات پر ہم نے خلیجی شواہد اور مذہبی رہنماؤں کی آمیزش دیکھی، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کو سرفہرست جگہ ملنا اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ چھوٹے مگر تزویراتی کردار ادا کرنے والے ریاستی اداروں کی سفارتی اور معاشی ربط کاری نے مسلم دنیا میں نئی ترجیحات قائم کر دی ہیں۔ اسی تسلسل میں معروف عالم مفتی تقی عثمانی کا بلند مرتبہ بطور ایک علمی رہنما، فقہی اور معاشی رہنمائی فراہم کرنے والے واضح کرتا ہے کہ جدید دور میں دینی فقیہ کی رسائی نہ صرف عبادت و فتویٰ تک محدود ہے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی شمولیت، اسلامی بینکاری اور تعلیمی پالیسیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اثرورسوخ کے نئے معیارات قدیم معنوں سے مختلف ہو رہے ہیں: سابقہ صوفانہ یا فقہی اعتبار کے علاوہ اب شہرت، میڈیا موجودگی، مالی وسائل اور ریاستی پوزیشن بھی اثرانداز عناصر بن چکے ہیں۔ مثلاً ترکی، سعودی عرب، ایران اور قطر جیسے کھیل میں طویل المدت حکمتِ عملی کے زیرِ اثر عالمی سطح پر نرم طاقت (soft power) اور معاشی نمونے قائم کرتے ہیں۔ اسی بنا پر ریاستی حکمران، خاندانی اراکین اور خلیجی امرا کا وجود محض رسماّت سے بڑھ کر جغرافیائی اور اقتصادی اثر کی علامت بن گیا ہے۔
پاکستانی سیاق میں فہرست میں متعدد شخصیات کی شمولیت، وزیر اعظم، عسکری قیادت، مذہبی رہنماؤں اور صحافتی آوازوں سمیت بتاتی ہے کہ ہمارے ملک کی اندرونی پیچیدگیاں عالمی منظرنامے کے ساتھ کس حد تک مربوط ہیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان جیسی شخصیات کی موجودگی اشارہ ہے کہ قومی سطح کے فیصلے، عسکری پالیسی اور مذہبی تنظیموں کی سماجی رسائی عالمی اثرورسوخ کے نئے کرنسی میں تبدیل ہو رہی ہے، یہی وہ عوامل ہیں جو بیرونی سرمایہ، امداد اور سفارتی تعلقات کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔
اقتصادی و تجارتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اثرورسوخ کا مطلب صرف قلم یا تاج نہیں بلکہ کنٹرول شدہ اثاثے، خلاصی فنڈز، بین الاقوامی تعاون اور سرمایہ کاری کے راستے ہیں۔ خلیجی ریاستوں کی توانائی و سرمایہ کاری کی پالیسیوں نے مسلم دنیا کے کئی حصوں میں معاشی انحصار اور اس کے نتیجے میں سیاسی اثر قائم کیا، اسی طرح علمی و مذہبی قیادت کی بین الاقوامی کونسلنگ نے اسلامی مالیاتی صنعت میں ضوابط اور اخلاقی معیار طے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ نتیجتاً عالمی بازاروں میں مسلم اکائیوں کی نمائندگی میں تبدیلیاں آ رہی ہیں جن کے اثرات عالمی تجارتی توازن اور مقامی معیشتوں پر مرتب ہوں گے۔
تاریخی اور سفارتی تسلسل کی نظر سے یہ رجحان کسی اچانک واقعے کا نتیجہ نہیں، پچھلی دہائیوں میں توانائی کی سیاست، علاقائی تنازعات، مہاجرین کا بحران اور ٹیکنالوجی کی رسائی نے قیادت کے کردار کو دوبارہ وضع کیا ہے۔ علامتی و اخلاقی قیادت جیسے مفتی اور علما اب بین الاقوامی فورموں میں پالیسی سازوں کے ساتھ برابر بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ حکمرانوں کی نرم طاقت اکثر مذہبی سفیران کے تعاون سے تقویت پاتی ہے۔ یہ مرکب عالمِ اسلام کو اندرونی ہم آہنگی اور بیرونی حکمتِ عملی دونوں میں نئے ڈھانچے فراہم کرتا ہے۔
معاشرتی سطح پر فہرست کی دیگر شمولیات، نوجوان فعال، خواتین رہنما اور میڈیا کا اثر بتاتی ہیں کہ روایتی مذہبی فریم ورک میں سماجی جدت اور عوامی نمائندگی کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ ملالہ یوسفزئی جیسی نمائندگان کی شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ تعلیم، انسانی حقوق اور عالمی آوازیں بھی مسلم تاثیر کے پیمانے بن چکی ہیں، یہ تبدیلی داخلی اصلاحات، سماجی سرپرستی اور عالمی برادری کے ساتھ نئے رابطوں کا پیش خیمہ ہے۔
آئندہ اندیشے کے طور پر ہمیں چند کلیدی پوائنٹس کو ذہن نشین رکھنا چاہیے: اول، اثرورسوخ کی جغرافیہ بدل رہی ہے۔ خلیج کے ممالک، ترکی اور بعض علاقائی طاقتیں عالمی سطح پر تیزی سے اثر بڑھا رہی ہیں، دوم، دینی و علمی قیادت کی اقتصادی و فکری شمولیت مستقبل میں پالیسی سازی اور بینکاری کے ضوابط میں کلیدی کردار ادا کرے گی، سوم، پاکستان جیسے ممالک کے اندرونی سیاست اور عسکری/سیاسی توازن کا بیرونی اثر کے ساتھ میل جول ان کی بین الاقوامی پوزیشن کو نئی شکل دے گا۔
نتیجہ یہ ہے کہ "500 بااثر مسلم" کی فہرست محض ناموں کا سلسلہ نہیں بلکہ ایک عکاسی ہے۔ عالمی طاقتوں کی منتقلی، مذہبی و سیاسی قیادت کے نئے امتزاج اور معاشی و سفارتی حکمتِ عملی کا مجموعی عکس۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان نمونوں کو سمجھ کر اپنی داخلی پالیسی، علمی تربیت اور بیرونی تعلقات کو دوبارہ ترتیب دیں تاکہ نہ صرف نمائندگی حاصل ہو بلکہ حقیقی اثر و نفوذ کی تصویر بھی تابناک بنے۔

